مسئلہ الفاظ اور اُن کے مفاہیم کے عدم تعین کا

لفظ کے تقدس کے ختم ہونے کے نقصانات

جب زندگی کا ٹھوس تجربہ بدلتا ہے تو الفاظ کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ جو معاشرے اس تبدیلی کو محسوس کرلیتے ہیں وہ الفاظ کی ازسرِنو تعریف کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی فکری دھاروں کے تسلسل اور تقدس کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں، اور یوں بہت سے فکری و عملی تضادات سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جو معاشرے اس تبدیلی کا ادراک کرنے میں ناکام رہتے ہیں، ان کے انفرادی اور اجتماعی فکری دھاروں کے تسلسل میں رخنے پڑنے لگتے ہیں اور وہ فکری و عملی سطح پر بے شمار تضادات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ الفاظ کے معنی کے درست تعین کی کتنی اہمیت ہے اس بات کا اندازہ یوں کیجیے کہ کنفیوشس کہا کرتا تھا کہ اگر مجھے پوری دنیا کی حکومت مل جائے تومیں صرف ایک کام کروں گا، اور وہ الفاظ کے معنی کا تعین ہوگا۔

زندگی کے ٹھوس تجربے اور الفاظ کے درمیان پیدا ہونے والی اس خلیج کا اوّلین اظہار ادب میں ہوتا ہے، کیوں کہ زندگی اور اس کے مختلف النوع ٹھوس تجربے ادب کی غذا ہیں، اس کی روح ہیں۔ فلسفہ قیاسی ہوسکتا ہے، نفسیات مفروضوں کے سہارے زندہ رہ سکتی ہے، مگر ادب ٹھوس تجربے کو نظرانداز کرکے محض قیاس کے سہارے ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ زندہ رہنا تو دور کی بات ہے، پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ ادب اور ادیب کی تہذیبی اہمیت ادب کے اسی وظیفے سے برآمد ہوتی ہے۔

اس گفتگو کے پس منظر میں سوال یہ ہے کہ الفاظ کے مفاہیم کے عدم تعین سے کس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں؟

یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ہر لفظ کسی خاص جذباتی، احساساتی یا عقلی کیفیت کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کثرتِ استعمال سے ہر لفظ رفتہ رفتہ ایک مقدس عقیدہ بن جاتا ہے، اور ہم اس کے ذریعے اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کا اظہارکرکے دوسرے فرد اور معاشرے کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جب گفتگو کے دوران آپ کو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے کوئی مناسب لفظ نہیں ملتا تو آپ بڑی الجھن اور اپنے اندر بے چینی سی محسوس کرتے ہیں۔ اگر چند لمحوں تک وہ لفظ آپ کو نہیں سوجھتا تو آپ اس سے ملتے جلتے کسی دوسرے لفظ کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کو بیان کردیتے ہیں، لیکن ایسا کرتے ہوئے آپ وہ کیف محسوس نہیں کرتے جو مناسب ترین لفظ استعمال کرکے آپ کرسکتے ہیں۔ اگر یہ گفتگو آپ کے وجود کی جذباتی اقلیم سے متعلق ہو تو یہ بے کیفی اور بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے وجود کا کوئی حصہ اس گفتگو سے باہر رہ گیا ہے اور آپ اپنے پورے وجود سے کلام نہیں کررہے۔ بسا اوقات آپ کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوجاتا ہے کہ اس لفظ کے بغیر آپ اپنے سامنے موجود فرد سے اتنی قربت پیدا نہیں کرپائیںگے جتنی کہ آپ چاہتے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ ایک لفظ نہ ملنے سے جب اتنا بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے تو ایک لفظ کے مفہوم کے عدم تعین، غلط تعین یا غلط استعمال سے کیا کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں؟ آیئے اس مسئلے پر دو ٹھوس مثالوں کے ساتھ غور کرتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ ہماے یہاں لفظ ’’شہید‘‘ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے تقدس کا مکمل تصور ہمارے اذہان میں راسخ تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ شہید کون ہوتا ہے اور کون نہیں؟ چنانچہ ہم ہرکس و ناکس کو شہادت کے مرتبے پر فائز نہیں کرتے تھے۔ ہلاکتیں ہوتی تھیں اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہمدردی کی، محبت کی ہزار صورتیں ہوتی تھیں، مگر ہم سب کو شہدا کے درجے پر متمکن نہیں کرتے تھے۔ تاہم اب صورتِ حال بدل گئی ہے۔ ہم نے کم و بیش ہر ہلاکت کو شہادت کا درجہ دے دیا ہے۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ معمولی معمولی ذاتی اغراض اور ناجائز مفادات کے لیے جان دینے والے بھی شہید قرار دیے جانے لگے ہیں۔ الفاظ کے مفہوم کے غلط تعین، عدم تعین اور غلط استعمال کا سب سے ہولناک نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کہ اعلیٰ اور ارفع ترین تصورات کی تقدیس مجروح ہونے لگتی ہے۔ پست اور بلند ہم پلہ ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ اور سچ ہم معنی بن جاتے ہیں۔ اس رویّے سے لوگوں کے اندر یہ رجحان پرورش پانے لگتا ہے کہ جب ایک بلند ترین مقام گھر بیٹھے حاصل ہوسکتا ہے تو اس کے لیے تگ و دو کی کیا ضرورت ہے؟ اگر گلی کی فائرنگ سے ہلاک ہوکر شہادت مل سکتی ہے تو پھر کسی حقیقی جہاد میں خدا کے لیے جان دینے کی خواہش و کوشش کیوں کی جائے؟

اس صورتِ حال کو بدطینت، پست مزاج اور کم فہم لوگ اپنی بدہیتی پر لیپا پوتی کے لیے، اور اپنے گھنائونے اور بے معنی افعال کو خوب صورت اور بامعنی بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ یہ افراد چونکہ رفتہ رفتہ اکثریت بن جاتے ہیں اس لیے ان کی زبان پر چڑھ کر یہ پست تصورات اتنے عام ہوجاتے ہیں کہ بہت سے حقیقی جوہر رکھنے والے لوگ بھی کنفیوژن کا شکار ہوکر حقیقی تصورات کی پہچان کھونے لگتے ہیں۔

چنانچہ معاشرے میں ظاہر ہونے والے اس ٹھوس تجربے کے بعد یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان ہلاکتوں کے لیے کوئی اور لفظ استعمال کیا جاتا۔ یہ کام مذہبی رہنمائوں اور مذہبی اداروںکے کرنے کا تھا جو اس لفظ کی تقدیس کا سب سے گہرا شعور رکھتے ہیں۔ ان پر لازم تھا کہ وہ لفظ ’شہید‘ کے غلط استعمال کو ہر طرح سے روکتے۔ لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا، اس لیے شہادت کا حصول ارزاں ہوکر رہ گیا۔ شہادت کے لفظ کے غلط معنی سمجھنے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے نوجوان پائے جاتے ہیں جو اپنی زندگی میں مختلف ناکامیوں کا شکار ہوکر مایوس ہوئے اور اس مایوسی کے زیراثر ’’جہاد‘‘ پر نکل کھڑے ہوئے۔ اگر معاشرے میں بڑھتی ہوئی ان عام ہلاکتوں کے لیے کوئی اور لفظ نہ ڈھونڈا گیا تو اس صورت کے لیے مسلسل شہید یا شہادت کا لفظ استعمال ہوتا رہے گا، جس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔

یہی کچھ لفظ ’’محبت‘‘ کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہم اپنے ہر خوش گوار جذبے کے لیے اس لفظ کو استعمال کرلیتے ہیں، حالانکہ اس لفظ کا ایک خاص مفہوم ہے، اس کا ایک خاص تقدس اور اس کے کچھ خاص تقاضے ہیں۔ چونکہ لوگ اس لفظ کو ایک عرصے سے اس کے تقاضوں کو سمجھے بغیر اور ان تقاضوں کو نظرانداز کرکے استعمال کررہے ہیں، اس لیے اس لفظ کا تقدس رفتہ رفتہ ختم ہورہا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس لفظ کا استعمال درست مقام پر ہوتا اور ہم محبت سے کم تر درجے کے تعلق یا جذبات کے لیے دوسرے الفاظ گھڑ لیتے اور انہیں مروج کردیتے تو اس لفظ کی تقدیس بھی محفوظ رہتی اور ہماری دوسری کیفیات ایک لفظ میں سماکر متعین ہوجاتیں، اور یوں ہماری مختلف جذباتی کیفیات کے مختلف مدارج کا ایک واضح نقشہ ہمارے سامنے آجاتا، مثلاً ہم محبت سے نچلے تعلق کے لیے کسی کو یہ کہنے کے بجائے کہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہمیں پسند ہیں، یا آپ ہمیں اچھے لگتے ہیں وغیرہ۔

آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ ہم اپنی عام زندگی میں بہت سے الفاظ کے متعین شدہ مفاہیم کو زک پہنچا رہے ہیں، اور اپنی بہت سی پست سطح کی کیفیات کے لیے لفظ متعین نہیں کر پا رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگی میں مقدس اور غیر مقدس کے درمیان کا فاصلہ رفتہ رفتہ مگر یقینی طور پر کم ہورہا ہے۔