سب سے بڑی سیاسی جماعت کی انتخابی ڈور سے جبری بے دخلی
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ ہمیشہ متنازع رہی ہے۔ کوئی بھی ایسا انتخاب نہیں جسے ہم شفاف کہہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست، جمہوریت اور انتخابات کی کہانی عدم شفافیت کا شکار ہے۔ ایسا نہیں کہ ماضی میں کچھ نہیں ہوا… ہوا، بلکہ بہت برا ہوا… اور ووٹروں کی رائے کے برعکس طاقت ور حلقوں نے جبری بنیادوں پر سیاسی اور حکومتی نظام عوام پر مسلط کیا۔ سیاسی انجینئرنگ کا کھیل بھی ماضی میں مختلف شکلوں میں ہوا ہے، اور کسی کی حمایت اورکسی کی عملی سطح پر مخالفت کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے۔ لیکن 2024ء کے انتخابات کی کہانی ماضی کے تمام انتخابات سے بالکل مختلف ہے۔ ان انتخابات میں ہم نے سیاسی انجینئرنگ یا پری پول رگنگ کی صورت میں جو کچھ دیکھا ہے اس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی اور جمہوری نظام کہاں کھڑا ہے۔ اس کی ساکھ پر جو سوالات اٹھ رہے ہیں وہ بھی غیر منطقی نہیں ہیں۔
ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں پر بہت دبائو ہوتا تھا اور سیاسی جماعتوں میں توڑپھوڑ اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کا کھیل بھی دیکھنے کو ملتا تھا، اور ایک جماعت کے بارے میں پتا ہوتا تھا کہ اُسے اقتدار میں نہیں لانا۔ لیکن اِس بار ہماری سیاسی انتخابی تاریخ میں عجیب و غریب پہلو دیکھنے کو ملا۔ ایک عدالتی فیصلے کی بنیاد پر، یا الیکشن کمیشن کے کھیل کو بنیاد بناکر ایک مقبول اور بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے ہی بطور جماعت جبری بنیادوں پر بے دخل کردیا گیا۔ اس عمل کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی کی سیاسی شناخت کا خاتمہ اور اسے انتخابی عمل میں انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا۔ اس فیصلے کی بنا پر پی ٹی آئی بطور جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی مجاز نہیں رہی، اور اب اس کے امیدوارو ں کی حیثیت آزاد امیدواروں کی ہوگئی ہے جنہیں مختلف نشانات الاٹ کیے گئے ہیں ۔ اگرچہ یہ عدالتی فیصلہ ہے اور اس کو قانونی بنیاد دی گئی ہے کہ پی ٹی آئی اپنے داخلی انتخابات کی شفافیت کو برقرار نہیں رکھ سکی، اوراس طرح اسے عدالتی فیصلے کے تحت انتخابی عمل سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ دنیا کی سیاسی اور انتخابی تاریخ میں ایسی مثالیں کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی انتخابی عمل سے بے دخلی کی قانونی بنیاد نہیں بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ فیصلہ تھا، کیونکہ کئی سیاسی پنڈت کہہ چکے تھے کہ انتخابات 2024ء میں پی ٹی آئی کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی، فیصل واوڈا اور تحریک انصاف کے منحرف ارکان پارلیمان سابقہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی کا انتخابی نشان بلا نہیں ہوگا۔ یقینا اُن کے پاس اس سلسلے میں معلومات ہوں گی، اور وہی فیصلہ سامنے آیا ہے جو ان افراد نے کئی ماہ قبل سنادیا تھا۔ دلچسپ بات پارٹی کے داخلی انتخابات کی عدم شفافیت کی بنیاد پر عوامی نیشنل پارٹی پر جرمانہ اوراُس کے انتخابی نشان کی بحالی، جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی انتخابی عمل سے بے دخلی کا فیصلہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ فیصلے عدالت سے کیسے آئے ہیں یا ماضی میں کیسے آتے رہے ہیں۔ ماضی میں ہماری عدالتیں نظریۂ ضرورت کے تحت کام کرتی رہی ہیں، اور آج بھی ان پر نظریہ ضرورت کے ہی الزامات ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا داخلی انتخاب شفاف نہیں تھا، مگر اسے انتخابی عمل سے باہر نکالنے کی کیسے حمایت کی جاسکتی ہے! یہاں تو دلچسپ بات یہ ہے کہ محض وصیت کی ایک پرچی پر بلاول بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین بنادیا جاتا ہے، اور ماسوائے جماعت اسلامی کے باقی جماعتوں میں کہیں بھی داخلی انتخابات کی سطح پر کوئی شفافیت نہیں۔لیکن الیکشن کمیشن کی تاریخ میں کبھی بھی اس مسئلے کو نہیں اٹھایا گیا، اوراب جب پی ٹی آئی کو اس کھیل میں عتاب کا نشانہ بنایا گیا ہے تو سمجھ میں آتا ہے کہ کھیل کا ریموٹ کہاں سے چلایاجارہا ہے، اور یہ فیصلہ پہلے ہی نظر آرہا تھا کہ پی ٹی آئی کے لیے انتخابات 2024ء میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی انتخابی نشان سے محرومی اور بطور جماعت شناخت کے خاتمے کے بعد اسے عملی طور پر خواتین اور اقلیتوں کی قومی اور صوبائی نشستوں سے بھی محروم کردیا گیا ہے، اسی طرح مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں بھی اس کو اپنی نشستوں سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔یہ کیسی دلچسپ لیول پلیئنگ فیلڈ ہے جہاں پی ٹی آئی کے ہاتھ پیر باندھ کر ا وراس کا لنگوٹ کس کر میدان میں تنہا چھوڑ دیا گیا ہے! یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے آزاد امیدواروں کو بھی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہوگی، اوران کو جو انتخابی نشان الاٹ کیے گئے ہیں ان کو دیکھیں تو اس میں تضحیک کا پہلو نمایاں ہے۔
بات محض بلے کے نشان سے محرومی تک محدود نہیں، بلکہ اگر ہم مجموعی طور پر پری پول معاملات کو دیکھیں تو پی ٹی آئی کی مخالفت میں دو سیاسی جماعتیں استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کی تشکیل کی گئی، اور جبری بنیادوں پر پی ٹی آئی کے لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان جماعتوں میں شمولیت اختیار کریں۔ پی ٹی آئی پر ایک عذاب 9مئی کی صورت میں نازل ہوا، اور دوسرا اس کو بنیاد بناکر پوری پی ٹی آئی کو ہی یرغمال بنالیا گیا۔ سیاسی سرگرمیوں پر عملی پابندی اور ہزاروں افراد کی گرفتاری جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، اور تاحال ان میں سے بڑی تعداد جیل ہی میں ہے، سیاسی امیدواروں کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو ہراساں کرنا، گرفتار کرنا، کاغذات جمع نہ ہونے دینا اور پریزائیڈنگ آفیسر کی مدد سے کئی سو لوگوں کے کاغذات کو مسترد کرنا، الیکشن ٹریبونل سے ریلیف ملنا، جبری پریس کانفرنسیں جیسے امور سرفہرست ہیں۔ یہ کھیل تو ہمیں پری پول کے تناظر میں دیکھنے کو مل رہا ہے، اور ابھی الیکشن ڈے اور اس کے بعد نتائج کی صورت میں بننے والی حکومت اور آزاد ارکان کی خرید و فروخت یا ان کی وفاداریاں ایک خاص پارٹی کی حمایت میں ڈالنا اور مسلم لیگ (ن) کو تن تنہا لیول پلیئنگ فیلڈ کا ماحول بتارہا ہے کہ ہم انتخابات کے تناظر میں کہاں کھڑے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ساری صورت حال پر بیشتر بڑی اور چھوٹی جماعتیں خوش ہیں کہ عمران خان کا سیاسی بندوبست کردیا گیا ہے، ماسوائے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، کراچی کے امیر خافظ نعیم الرحمٰن اور سینیٹر مشاق احمد خان کے کوئی نہیں بولا، اور اکثر جماعتیں جن میں مسلم لیگ (ن) نمایاں ہے، پی ٹی آئی کی بطور جماعت سیاسی بے دخلی پر خوش ہیں، اوراس کا برملا ہر سطح پر اعتراف بھی کیا جارہا ہے۔
اس پورے کھیل میں ہمیں الیکشن کمیشن، نگران حکومت اور انتظامی مشینری سمیت عدلیہ کا کردار خاصا متنازع دیکھنے کو ملا ہے، اور خاص طور پر اس سارے کھیل میں الیکشن کمیشن کے متنازع کردار کو کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ریاستی ادارے ماضی کی طرح اِس بار بھی پہلے سے سجائے ہوئے کھیل کا حصہ بنے، اور اس کھیل میں ان کے سہولت کار کے کردار کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے داخلی انتخابات کے معاملے پر جس طرح سازش کے تحت الیکشن کمیشن نے کھیل کھیلا اور آخری دن یا آخری لمحات تک جب تک کاغذاتِ نامزدگی کا وقت پورا نہیں ہوا الیکشن کمیشن کا کھیل جاری رہا۔ اس سے قبل ہم پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں کے ٹوٹنے پر 90دن میں انتخابات کرانے سے گریز کا عمل بھی دیکھ چکے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ اس ملک میں اصل مقابلہ الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کے درمیان چل رہا ہے، اور دونوں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی بھی اس صورت حال کی ذمہ دار ہے، 9مئی کے واقعات سمیت اپنے داخلی انتخابات کے حوالے سے خود انہوں نے بھی اپنی جماعت کے لیے مسائل پیدا کیے۔ لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے خلاف سازش ہوئی، اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی میدان سے باہر نکال دیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات اور اقتدار کا سارا کھیل نوازشریف کے لیے سجایا گیا ہے، اور تسلیم کرلیں کہ ان ہی کی حکومت بنے گی، لیکن کیا نوازشریف اپنی حکومت کی ساکھ بچاسکیں گے؟ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول نوازشریف کو ڈکیتی کی بنیاد پر ملنے والی حکومت سے گریز کرنا چاہیے اور یہ حکومت اُن کے سیاسی مستقبل پر ایک بوجھ ثابت ہوگی، اور حالات کی خرابی نوازشریف کی آنے والی حکومت میں ان کو سیاسی طور مزید پر تنہا کردے گی۔ خدشہ یہ ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی اسے اپنی سیاسی بقا کا سوال درپیش ہوگا، اور اس حکومت کے جو بھی مخالفین ہوں گے وہ اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ 2024ء کے انتخابات کے نتائج نوازشریف یا مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا پیچھا کریں گے اور ان کو یہ طعنہ سننے کو ملے گا کہ ان کی حکومت عوامی مینڈیٹ یا لیول پلیئنگ فیلڈ کے تحت کسی بھی صورت میں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ اس لیے جو بھی کھیل پاکستان میں 2024ء کے انتخابات کی صورت میں کھیلا جارہا ہے اور جس کی بھی عملی حمایت کے ساتھ یہ جڑا ہوا ہے اس کے نتائج سنگین ہوں گے اور ہمیں بطور ریاست اس سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ اسی طرح جو عدالتی فیصلہ آیا ہے اس پر خود عدالت اور چیف جسٹس سمیت ججوں پر بھی سخت تنقید ہورہی ہے اور لوگوں میں عمومی رائے یہی بن رہی ہے کہ ہم آج بھی نظریۂ ضرورت کی عدالت کے سامنے کھڑے ہیں جہاں قانونی معاملات سے زیادہ سیاسی معاملات کی بالادستی ہے۔ خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور اُن کے بارے میں یہ رائے بنائی جارہی ہے کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے عملاً سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ جن لوگوں نے چیف جسٹس کی بہت زیادہ پذیرائی کی تھی اور ان کا خیال تھا کہ موجودہ چیف جسٹس اور عدلیہ عملی طور پر آزادانہ کردار ادا کریں گے، وہ بھی نالاں ہیں اور کھل کر عدالتی نظام پر تنقید کررہے ہیں۔
دوسری جانب ایک بار پھر کچھ قوتیں انتخابات ملتوی کروانے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔ سینیٹ سے تیسری قرارداد بھی سامنے آگئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات درست فیصلہ نہیں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ سینیٹ میں تیسری قرارداد کے پیچھے کون ہے؟ اور کون چاہتا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ پیدا کرے؟ عمومی طور پر سینیٹر اور خاص طور پر فاٹا سے تعلق رکھنے والے اہم سینیٹرز کسی نہ کسی کے اشارے پر کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ اس لیے سینیٹ میں پیش ہونے والی تین قراردادوں کو کسی سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی ضرورت نہیں، اور ظاہر ہے کہ ان سینیٹرز کے پیچھے کوئی نہ کوئی طاقت ضرور ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے بقول انتخابات کسی بھی صورت ملتوی نہیں ہوں گے اور 8فروری کو ہی ہوں گے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن اپنے فیصلے میں زیادہ طاقت رکھتے ہیں یا جو قوتیں انتخابات کو ملتوی کروانا چاہتی ہیں وہ زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ جس طرح سے انتخابات ہورہے ہیں وہ مسائل کا حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا کریں گے۔ اس لیے پہلے انتخابات کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے اور پھر سب کو انتخابات میں حصہ لینے کے یکساں مواقع حاصل ہوں تبھی انتخابات کا عمل قومی مسائل کے حل میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات 2024ء کا انعقاد بدستور ابہام کا شکار ہے، لوگ انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر سوالات اٹھارہے ہیں، اور لگتا ہے کہ اسی بحران کے اندر انتخابات ہوں گے، اور اگر نہیں ہوتے تو انتخابات کے نہ ہونے کا سیاسی منظر بھی مزید نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔