برطانوی ہائی کمشنر کا دورۂ آزادکشمیر

آزادکشمیر کے بارے میں بھارت کی بڑھتی ہوئی حساسیت

برطانیہ کی پاکستان میں تعینات ہائی کمشنر جین میریٹ نے عین اُس وقت آزاد کشمیر کے شہر میرپور کا دورہ کیا جب بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ لندن کی ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ میں وزیراعظم رشی سونک سے ملاقات کررہے تھے۔ یہ بائیس سال کے طویل وقفے کے بعد بھارت کے وزیر داخلہ کا برطانیہ کا دورہ تھا۔ 2001ء میں بھارت کے وزیر داخلہ جارج فرنانڈس نے برطانیہ کا دورہ کرکے دونوں ملکوں کے دفاعی سودوں اور تعاون کو آگے بڑھانے کے عہد وپیماں کیے تھے۔ بائیس برس بعد بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ برطانیہ میں ان تعلقات کو مزید بلندیوں کی طرف لے جانے کے معاہدے کررہے تھے۔ بھارتی وزیر داخلہ کی لندن میں موجودگی اور عین انھی لمحات میں برطانوی ہائی کمشنر کی آزادکشمیر میں موجودگی میں بظاہر کوئی ربط نہ ہونے کے باوجود کوئی نہ کوئی پیغام ضرور مستور تھا۔ بھارت اب مقبوضہ جموں وکشمیر کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد اپنا پورا دبائو آزادکشمیر کی طرف منتقل کرنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔

برطانوی ہائی کمشنر کے ساتھ برطانوی وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار بھی تھے، اور انہوں نے میرپور میں چیمبرز آف کامرس اورکئی تعلیمی اداروں کے دوروں کے ساتھ دیگر سماجی تقریبات میں شرکت کی۔ برطانوی ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ انہیں میرپور کا دورہ کرکے خوشی ہورہی ہے، کیونکہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں ستّر فیصد کا تعلق میرپور سے ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ سے دورے کی تصاویر کو مختصر کیپشن کے ساتھ شیئر کیا۔ کیپشن میں الفاظ کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر محتاط انداز میں کیا گیا، جن میں ’’میرپور پاکستان‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ ’’برطانیہ اور پاکستان کے عوام کو پیپل ٹو پیپل تعلقات کے مرکز میرپور سے سلام۔ ستّر فیصد برٹش پاکستانی میرپور میں جڑیں رکھتے ہیں۔ ہم پاکستانی تارکینِ وطن کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں‘‘۔ اس تبصرے میں کہیں بھی میرپور آزادکشمیر کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی تھی۔ اس احتیاط کی اصل وجہ بھارت کی ناراضی کا خدشہ بھی ہوسکتا ہے، اور میرپور پاکستان کہہ کر بھارت کو کوئی پیغام بھی دیا جانا مقصود ہوسکتا ہے۔

آزادکشمیر یا جموں وکشمیر کا لفظ بھارت کی چڑ بن چکا ہے۔ بھارت اب کشمیر کے لفظ سے چڑ جاتا ہے، ایسے میں جب یہ نام بھارتی مؤقف سے ہٹ کر بولا یا لکھا جائے تو بھارت کی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ اس تنازعے سے بچنے کے لیے برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے تبصرے میں صرف میرپور کہنے اور لکھنے پر اکتفا کیا۔

سال بھر پہلے امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے آزادکشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کا دورہ کیا تھا، اور اپنے دورے کی سرگرمیاں شیئر کرتے ہوئے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے بجائے آزادکشمیر کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ امریکی سفیر کی طرف سے یہ اصطلاح استعمال کرنے اور آزادکشمیر کا دورہ کرنے پر بھارت نے احتجاج کیا تھا اور امریکی سفیر پر خاصی تنقید بھی کی گئی تھی۔

یوں لگتا ہے اس طرح کے کسی تنازعے سے بچنے کے لیے برطانوی ہائی کمشنر نے ’آزاد جموں وکشمیر‘ یا ’پاکستان کے زیرانتظام کشمیر‘ کی اصطلاحات سے گریز کیا تھا، مگر اس کے باوجود بھارت نے سرکاری سطح پر اس دورے پر شدید احتجاج کیا۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے باضابطہ بیان جاری کرکے برطانیہ سے احتجاج کیا اور اس دورے کو اپنی سالمیت اور خودمختاری کے برعکس قرار دیا۔ دہلی میں برطانوی ہائی کمشنر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمایا گیا۔ یہی نہیں، برطانوی ہائی کمشنر کی اس ٹویٹ کے نیچے ایک منظم مہم کے تحت بھارت کے شہریوں نے جو تبصرے کیے وہ زہرآلود تھے۔ ان میں صاف انداز میں کہا گیا کہ جین میریٹ تم نے بھارت کے علاقے میں قدم رکھنے کی جرأت کیسے کی! ہم تمہیں دیکھ لیں گے، تمھارا چہرہ ہمیں یاد رہے گا، خبردار بھارت میں کبھی قدم نہ رکھنا۔ یوں لگ رہا تھا کہ بھارت اور اس کی رائے عامہ کی دُم پر پائوں آگیا ہو۔ برطانوی ہائی کمشنر کی طرف سے میرپور پاکستان کی اصطلاح کے استعمال میں بھارت کے لیے یہ پیغام بھی ممکن ہے کہ آزادکشمیر اب پاکستان کا حصہ ہے، بھارت اس جانب مہم جوئی نہ کرے۔

اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارت کے اس مؤقف پر مکمل مصلحت آمیز اور پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایک اخبار نویس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دفتر خارجہ سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس بات کا جواب دیا بھی جائے یا اسے نظرانداز کیا جائے۔ بعد میں اسے نظرانداز ہی کردیا گیا۔

بہرحال برطانوی ہائی کمشنر کے محتاط رویّے کے باوجود ایک روایتی سفارتی دورے کو جس میں سیاسی بیان بازی یا سیاسی لوگوں سے ملاقاتوں سے مکمل گریز کیا گیا تھا، یوں اعلیٰ ترین سطح پر ہدفِ تنقید بنانا آزادکشمیر کے حوالے سے بھارت کی بڑھتی ہوئی حساسیت کا اظہار ہے۔ 5 اگست2019ء کے ایجنڈے کی تکمیل سے بھارت نے اپنا اصل ہدف حاصل کرلیا۔کشمیر کے حوالے سے جہاں جہاں بھارت خود کو کمزور محسوس کررہا تھا اس کشتی کے تمام سوراخ بھر دیے گئے ہیں، اب وہ اس کشتی کو کسی قسم کی بیرونی انگشت نمائی سے محفوظ رکھنے کے لیے زیادہ شد ومد کے ساتھ آزادکشمیر کو موضوعِ بحث بنارہا ہے۔ اس کا اصل ایجنڈا تو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر حملہ کرنا بھی ہے، اور وہ اس دبائو کو مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنی حیثیت کو پاکستان سے تسلیم کروانے کے لیے ایک بارگیننگ چپ کے طور پر بھی استعمال کرسکتا ہے۔ ماضی میں اعلیٰ شخصیات اور غیر ملکی سفارت کار آزاد کشمیر کا دورہ کرتے رہے ہیں، بالخصوص 1990ء کی دہائی میں جب کشمیر کے اندر اور کنٹرول لائن پر حالات بہت خراب تھے غیر ملکی سفارت کار اس خطے کا دورہ کرتے تھے، مگر بھارت نے جس انداز کی حساسیت 5 اگست2019ء کے بعد دکھانا شروع کی ہے اس کی ماضی میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ اب بھارت نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے اپنی حساسیت کا درجہ بڑھا دیا ہے تو یہ ایک غیر معمولی معاملہ ہے۔ یہ رویہ بھارت میں طاقت پکڑتے ہوئے ایک مائنڈ سیٹ کی کہانی سنا رہا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ ڈیل کرنا خطرناک اور حساس کھیل ہے۔ آزادکشمیر کی اصطلاح کی مثال اسپین کے میلے میں سانڈ کو دکھائے جانے والے سرخ رومال کی سی ہے۔ یہاں تو برطانوی سفارت کار نے آزادکشمیر کی اصطلاح استعمال نہ کرکے سرخ رومال دکھانے سے دانستہ گریز کیا تھا مگر اس کے باوجود سانڈ اس پر پل پڑا۔ بھارت نے یہ تاثر دیا کہ جیسے برطانوی سفارت کار اُس کی اجازت کے بغیر میرپور نہیں بلکہ مقبوضہ جموں یا سری نگر آئی ہوں۔ حساسیت کا یہ معیار اور درجہ کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔