ہارورڈ میں آزادیِ اظہارِ رائے اور امریکی آئین میں دی گئی آزادی کا قتل مغرب کی علمی و فکری آزادی کا خاتمہ، کیا مغرب کے زوال کا پیش خیمہ ہے؟
اسرائیل فلسطین جنگ کو اب 100 دن مکمل ہوچکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان 100 دنوں میں دنیا نے تین صدیوں کا سفر محض ایک جست میں طے کرلیا۔ شاید یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد دنیا اس تیزی سے تبدیل ہوگی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا میں معیارات کے تغیر و تبدل کا پیمانہ ہی تبدیل ہوگیا ہے اور دنیا کے باشعور شہری یہ سوال اپنی متعلقہ حکومتوں سے کررہے ہیں کہ کل تک جو سب درست تھا وہ غلط کیسے، اور کل تک جو غلط تھا وہ آج درست کیسے؟
دنیا کے عوام کی اکثریت اپنے سامنے یہ سوالات رکھے ان پر غور و فکر سے آگے نکل کر اب حقیقی سچ کی تلاش میں ہے۔ 7 اکتوبر کو جب طوفان الاقصیٰ کا نام سامنے آیا تھا تو شاید ایک قلیل تعداد نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ یہ طوفان علاقائی نہیں بلکہ عالمی ہوگا۔ یہ طوفان نہ صرف سب کچھ بہا لے جائے گا بلکہ صدیوں سے حقیقت پر پڑی دھند کو بھی صاف کرکے دنیا کے سامنے ہر ایک پیمانے، معیار اور دعوے کی حقیقت سامنے لائے گا۔ یہ دعوے، پیمانے اور معیار صدیوں میں مغرب نے تراشے، اور ان کو مغرب میں خدا بناکر پوجا گیا۔ پوری دنیا کے انسانوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ان معیارات اور پیمانوں کو اپنالیں، ورنہ وہ مہذب کہلانے کے تو کجا، انسان کہلانے کے بھی حق دار نہیں ہوں گے۔ ان پیمانوں کی بنیاد پر ایک نظریہ، یا نظریے کی بنیاد پر پیمانے تخلیق کیے گئے اور ان پر جدید دور کی ریاستوں اور بعد ازاں دنیا کے نئے آرڈر کی بنیاد رکھی گئی جس کو دو قطبی دنیا کے خاتمے کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا گیا۔ اس ورلڈ آرڈر میں پسند و ناپسند کا ہر پیمانہ مغرب کا وضع کردہ ہے، اور جہاں کسی نے اس پر لب کشائی کی کوشش کی تو اُس کو جاہل، اجڈ، گنوار، اور علمی و تحقیقی میدان میں غیر متعلق تصور کیا گیا۔ انسانی حقوق، جانوروں کے حقوق، خواتین و بچوں کے حقوق، آزادیِ اظہارِ رائے، علمی ترقی اور علمی آزادی کہ جس کا مغرب تین صدیوں سے ڈھنڈورا پیٹ رہا تھا، کسی کو 7 اکتوبر سے قبل معلوم ہی نہیں تھا کہ مغرب علم و عمل کے میدان میں اتنی تیزی سے ان تمام معیارات کو پیچھے چھوڑ دے گا۔
اس تمہید کی ضرورت اس لیے پڑی کہ مغرب کے آئینے میں ہی مغرب کا چہرہ دیکھا جائے، اُن کے وضع کردہ معیارات پر ہی مغرب کو جانچا و پرکھا جائے۔ ان ہی اصولوں کو مغرب پر منطبق کیا جائے جو مغرب دیگر معاشروں پر منطبق کرکے ایک علمی شکل ترتیب دیتا ہے۔ اس کے بعد ان کی درستی کے لیے طاقت، سازش اور دولت کا استعمال کرکے اپنی من پسند شکل ترتیب دیتا ہے۔ اس کو دنیا میں غلامی سے آزادی، آمریت سے جمہوریت اور جہالت سے علم کی جانب سفر قرار دیتا ہے۔ یک قطبی دنیا کی سپر پاور امریکہ دنیا کو جمہوریت اور جمہور کی آزادی و قانون کی حکمرانی کا درس دیتا ہے۔ اور اس کی بنیاد امریکی دستور پر رکھی گئی کہ امریکی دستور میں پہلی ترمیم ہی آزادی کا اعلان ہے:
Congress shall make no law respecting an establishment of religion, or prohibiting the free exercise thereof; or abridging the freedom of speech, or of the press; or the right of the people peaceably to assemble, and to petition the Government for a redress of grievances.
ترجمہ: ’’کانگریس مذہب کے قیام اور اس کے آزادانہ استعمال، اور اس پر پابندی کے حوالے سے قانون سازی نہیں کرے گی، بشمول آزادیِ اظہار اور پریس کو محدود یا ختم کرنا۔ عوام الناس کا پُرامن طریقے سے جمع یا اکٹھا ہونا اور شکایات درج برائے ازالۂ حق‘‘۔ (یہ قانون 1791ء میں اپنایا گیا)
اس پہلی دستوری ترمیم کو ہی امریکی دستور کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دستوری ترمیم اتنی اہم ہے کہ اسی کی بنیاد پر امریکی معاشرے میں تعلیمی اداروں کو استوار کیا گیا کہ جہاں مکمل علمی آزادی دی گئی، اور ترقی کے اس سفر میں بار بار اس علمی و فکری آزادی کا نعرہ بلند کیا گیا۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز بھی آزادی کے اسی نعرے کے ساتھ کیا گیا کہ جب بادشاہ اور کلیسا سے مکمل آزادی اختیار کرکے انقلابِ فرانس برپا کیا گیا۔ اس آزادی نے نئی دنیا کے اصول وضع کیے۔ آزادی کے اس نعرے کے پیچھے دنیا کو لگایا گیا اور بتایا گیا کہ جمہور ایک اہم ترین ستونِ ریاست ہے، یعنی صرف اور صرف عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کو ہی یہ قوت حاصل ہے کہ وہ قوانین وضع کریں، اور ان کے مطابق ریاست کو چلایا جائے گا۔ لیکن مغرب اس آزادی کو مساوات میں تبدیل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا، جہاں فرد کو محض رنگ و نسل کی بنیاد پر ترجیح دی گئی، اور ایک طویل عرصے کے بعد قوانین میں ترامیم کے ذریعے اس کی اصلاح کی کوشش کی گئی، لیکن اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں صرف ایک سیاہ فام کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوسکا کہ وہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہو۔
امریکہ کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں کہ جو آزادی و مساوات کی بنیادی درس گاہیں ہیں، صورتِ حال اس بھی زیادہ بدتر ہے۔ اور اب 7 اکتوبر کے بعد تو اس پر پڑا فریب کا نقاب الٹ چکا ہے۔ امریکی تعلیمی اداروں میں جہاں آزادیِ اظہار کو ممکن بنایا گیا تھا اب اسرائیل فلسطین تنازعے کے بعد طلبہ کے احتجاج کو یہود مخالف نظریات سے جوڑا جارہا ہے اور اس کو Antisemitism کا نام دیا گیا ہے، حالانکہ یہ اصول تو خود مغرب نے اپنائے تھے کہ انسانیت کے قتل پر احتجاج کیا جائے۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب بامیان کے بتوں کو توڑنے کے معاملے پر پوری دنیا نے افغان طالبان پر حملہ کرکے اُن کو سبق سکھایا تھا اور اس کو مذہبی رواداری کے خلاف بتایا گیا تھا، لیکن اب غزہ میں مساجد اور چرچ کو نشانہ بنانے پر امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پابند کرنے، اور اس احتجاج کو بند نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ اس کی سب سے بدترین مثال کہ جس نے علمی، شخصی و فکری آزادی کے امریکی بت کو پاش پاش کردیا وہ خود امریکہ کی سب سے اعلیٰ یونیورسٹی ہارورڈ میں نظر آئی جہاں فلسطینیوں کی نسل کُشی پر احتجاج کرنے والے طلبہ کو امریکی میڈیا اور اس کے بعد کانگریس کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس احتجاج کو Antisemitism کا نام دیا گیا اور جامعہ ہارورڈ کے انڈومنٹ فنڈ بورڈ کی جانب سے ہارورڈ کی پریذیڈنٹ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس احتجاج کو رکوائیں اور احتجاج کرنے والے ان طلبہ کے خلاف کارروائی کریں۔ یادرہے کہ جامعہ ہارورڈ کے انڈومنٹ فنڈ کا اصل کام ہارورڈ کے مالی معاملات کو چلانا ہے، اور اس فنڈ کی مالیت 50 ارب امریکی ڈالر ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی تعلیمی ادارے کا سب سے بڑا فنڈ ہے (یہ فنڈ پاکستان کے مجموعی بجٹ کے مساوی ہے)۔ انڈومنٹ فنڈ بورڈ نے پریذیڈنٹ کو دھمکی دی کہ اگر ان طلبہ کے خلاف کارروائی اور اس احتجاج کو بند نہ کیا گیا تو یونیورسٹی کی فنڈنگ کو روک دیں گے۔
ہارورڈ یونیورسٹی 1636ء میں قائم کی گئی تھی۔ اس کے قیام کے تقریباً 400 سال میں ڈاکٹر Claudine Gay پہلی سیاہ فام اور دوسری خاتون صدر جولائی 2023ء میں مقرر کی گئی تھیں۔ انہوں نے اس دھمکی کو علمی و فکری آزادی کے بر خلاف قرار دیا اور کہا کہ اگر کوئی طالب علم Antisemitism کے جرم کا مرتکب ہوا تو یونیورسٹی اس کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن محض احتجاج کرنے پر کسی طالب علم کو برطرف نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اس مؤقف کا اعادہ کانگریس کی کمیٹی کے روبرو بھی کیا اور کہا کہ یونیورسٹی اپنے قانون کے تحت اس کا جائزہ لے رہی ہے اور اگر کوئی ایسا جرم کسی پر بھی ثابت ہوا تو اس کے خلاف کاروائی کا اختیار قانون کی رو سے صرف اور صرف یونیورسٹی کے پاس ہے۔ لیکن اس جرم کی پاداش میں… کہ انہوں نے امریکی دستور کی پہلی ترمیم کے مطابق علمی، فکری و اظہارِ رائے کی آزادی کو جوکہ امریکی معاشرے اور خاص طور پر جامعات کا خاصہ ہے، کو برقرار رکھنے کی کوشش کی، ان کے خلاف بدترین مہم جوئی شروع کردی گئی، اور اس میڈیائی مہم جوئی میں امریکی اسٹیبلشمنٹ اور انڈومنٹ فنڈ بورڈ نے بنیادی کردار ادا کیا اور بالآخر فنڈنگ بند کرنے کی دھمکی اور کردار کشی پر ڈاکٹر Claudine Gay نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا، اور یوں وہ ہارورڈ کی کم ترین عرصے تک منصب پر رہنے والی پہلی سربراہ قرار پائیں۔ ڈاکٹر Gay نے اپنے استعفے میں بھی ہارورڈ کا مالیاتی طور پر گلا گھونٹنے کے بجائے اپنے آپ کو اس منصب سے علیحدہ کرنے پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ یعنی ان کی سربراہی میں ہارورڈ کی مالیاتی حیثیت کو صفر کردینے کا منصوبہ تھا اور اس کی اصل وجہ محض چند طلبہ کا مغرب کے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق احتجاج تھا۔
مغرب کی علمی و فکری آزادی کے حوالے سے صورتِ حال اب چہار جانب یہی ہے۔ برطانیہ میں بھی اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں فلسطینی پرچم، نام، جھنڈے اور علامات کے حوالے سے مختلف جگہوں سے ایسی ہی اطلاعات مل رہی ہیں۔ لندن کے علاقے لیئٹن میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا جب ایک پرائمری اسکول کے طالب علم یحییٰ کو اسکول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ اپنے بازو پر فلسطینی پرچم کے رنگ کا بیج لگا کر اسکول آگیا۔ اسکول انتظامیہ نے لنچ بریک اور اسکول میں تدریس تک اس طالب علم کو محدود کردیا اور اس کے والدین کے احتجاج پر بتایا کہ اسکول میں کسی قسم کی سیاست کی گنجائش موجود نہیں اور یہ اسکول کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ کے اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ریگولیٹری باڈی offsted کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، اور یہ قوانین نہایت واضح انداز میں تحریری طور پر موجود ہیں جس کے مطابق برطانوی تعلیمی اداروں میں ملٹی کلچر اقدار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ سال یوکرین پر روسی حملے کے بعد اسکولوں میں یوکرین کے بچوں سے بار بار اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔ اب جب یحییٰ فلسطین میں مرنے والے بچوں سے اظہارِ یکجہتی کرنا چاہتا ہے تو اس کو روکا جارہا ہے۔ یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ ہر روز ایسے درجنوں واقعات اب مغربی تعلیمی اداروں میں رونما ہورہے ہیں اور آزادیِ اظہارِ رائے کو کچلا جارہا ہے۔
طوفان الاقصیٰ کے برپا ہونے کے اب 100 دن بعد صورتِ حال یہ ہے کہ اس طوفان کی زد میں مغرب کے جمہور، جمہوریت، آزادیِ اظہار، مساوات، انسانی حقوق اور علمی و فکری آزادی ہے۔ ہر گزرتا دن مغرب کے چہرے پر پڑا نقاب الٹ کر مغرب کے تمام تر دعووں کی حقیقت بیان کررہا ہے۔ مغرب کہ جس کی ترقی کا پہلا زینہ ہی علمی و فکری آزادی تھی، وہ علمی و فکری آزادی اپنی جنم بھومی یعنی یونیورسٹیوں میں ہی اب بحران کا شکار ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کوئی عام تعلیمی ادارہ یا جامعہ نہیں ہے بلکہ یہ مغربی فکر کا مؤثر ترین ادارہ ہے۔ اگر اس ادارے میں بھی مغرب اپنی اقدار کا پاس نہیں رکھ پارہا تو اس بات پر کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں کہ اب مغرب اپنی علمی و فکری آزادی کی ترقی سے بھی جان چھڑانا چاہتا ہے۔ وہ معیار جو مغرب نے متعین کیے تھے، یا وہ آئنیہ جو مغرب نے بنایا تھا اُس میں اب اپنا چہرہ دیکھنا بھی مغرب کو گوارا نہیں۔ مغرب کے تعلیمی نظام نے خدا کو نکال کر تجربی و تحقیقی علم کو اپنا محور و مرکز بناکر جو ترقی کی تھی اگر مغرب اس محور کو ہی چھوڑنے پر تیار ہے تو یہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ مغرب اپنی فکری و علمی اساس سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ مغرب کی علم، فکر اور فلسفے کی بنیاد ہی ناقص العمل بن گئی ہے، اور وہ نظام جس بنیاد پر کھڑا ہے وہ بھی جلد نابود ہوجائے گی۔
مغرب کا علمی و فکری ارتقاء ان یونیورسٹیوں سے شروع ہوا تھا، لہٰذا ان جامعات کی بنیادوں کا زوال مغرب کا زوال ثابت ہوگا۔ طوفان الاقصیٰ نے مغرب کی علمی و فکری بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہارورڈ اس کی ایک مثال ہے، اور وہ وقت دور نہیں جب مغرب کے علمی و فکری ارتقاء کے مراکز اس کے زوال کے مراکز میں تبدیل ہوجائیں گے۔ طوفان الاقصیٰ کی تباہ کاریاں مغرب میں کیا نیا منظرنامہ تشکیل دیں گی اس کا انتظار ہے، لیکن شاید یہ دنیا کا وہ واحد طوفان ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔