اسلامی جمہوریہ پاکستان کو درپیش سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحرانوں اور دہشت گردی و بدامنی جیسے مسائل سے نجات کے لیے ایک مضبوط و مستحکم جمہوری حکومت کی ضرورت ہے جو اسی صورت قائم ہوگی جب ملک میں آزادانہ و غیر جانب دارانہ ماحول میں صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے رائے دہندگان کو اپنی مرضی کے نمائندوں کے چنائو کا حق دیا جائے۔ آئینِ پاکستان کا بھی تقاضا ہے اور قوم کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ انتخابات بروقت اور ہر لحاظ سے شفاف ہوں جن پر کسی جانب سے انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں ماحول کی فراہمی بھی ضروری ہے، اور الیکشن کمشنر اسی امر کا حلف بھی اٹھاتے ہیں، مگر بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں آج تک ہونے والے انتخابات میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ آزادانہ، منصفانہ اور صاف و شفاف تھے جن پر انتخابات میں حصہ لینے والے تمام فریقوں نے اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا ہو۔ اِس وقت بھی ملک میں جو صورتِ حال ہے اسے کسی بھی طرح تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابی دوڑ میں شامل تمام جماعتوں کو یکساں مواقع اور ایک جیسا ماحول فراہم کیا جارہا ہے، بلکہ افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ انتخابات سے قبل ہی ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جن کی ماضی میں مثال تلاش کرنا آسان نہیں۔ ان حربوں اور ہتھکنڈوں کو قبل از انتخاب دھونس اور دھاندلی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ جہاں تک انتخابات کے بروقت انعقاد کا تعلق ہے، پہلے ہی تمام آئینی حدود سے تجاوز کیا جا چکا ہے، اور اب 8 فروری کو پولنگ کا شیڈول جاری کیے جانے کے باوجود بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا۔ مختلف سیاست دانوں کی جانب سے التوا کے مطالبات کے علاوہ مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ بالا میں ایک کے بعد دوسری قرارداد کی پیشی اور منظوری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ التوا کی پہلی قرارداد کے محرک سینیٹر دلاور نے چیئرمین سینیٹ پر خط کے ذریعے زور دیا ہے کہ ان کی پیش کردہ اور ایوانِ بالا کے سو میں سے صرف گیارہ بارہ ارکان کی منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمد کراتے ہوئے 8 فروری کے انتخابات ملتوی کرائے جائیں۔ تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس قرارداد کے جواب میں جو خط سینیٹ سیکرٹریٹ کو تحریر کیا ہے اس میں واضح کیا گیا ہے کہ قرارداد کی روشنی میں انتخابات ملتوی نہیں کیے جا سکتے، اور قرارداد میں انتخابات کے التواء کے لیے پیش کیے گئے جوازات کے ازالے کے لیے نگران حکومتوں کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس مراسلے اور بروقت انتخابات کرانے کے عزم کے بعد توقع ہے کہ 8 فروری کے انتخابات سے متعلق خدشات دم توڑ جائیں گے اور ملک میں انتخابات کا ماحول دکھائی دینے لگے گا۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں جمہور کے ابلیس اربابِ سیاست نے انتخابی عمل کو کچھ ایساگورکھ دھندا بنا دیا ہے کہ عام آدمی کے لیے اس میں کامیابی تو بہت دور کی بات ہے، حصہ لینا ہی محال ہوچکا ہے۔ انتخابی عمل کا آغاز اگر الیکشن کمیشن کے پاس کاغذاتِ نامزدگی جمع کرنے سے تصور کرلیا جائے تو سب سے پہلے مرحلے میں کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ الیکشن کمیشن ایک اچھی خاصی رقم بطور زرِ ضمانت طلب کرتا ہے۔ پھر جس سیاسی جماعت کی طرف سے امیدوار انتخابی اکھاڑے میں اترنا چاہے، اُس سیاسی جماعت کے ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ لاکھوں روپے بطور ٹکٹ فیس جمع کرانا پڑتے ہیں۔ پاکستان کے انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی‘‘ (پلڈاٹ) کے ایک تجزیے کے مطابق ملک کی سیاسی جماعتوں نے اپنے پارٹی ٹکٹوں کے اجراء کے نام پر خاصا منافع بخش کاروبار شروع کررکھا ہے اور یہ ان جماعتوں اور ان پر قابض خاندانوں کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے، صرف جماعت اسلامی اس کاروبار سے مستثنیٰ ہے جس کی طرف سے ٹکٹوں کے اجراء کے لیے کوئی پیسہ انتخابی امیدواروں سے وصول نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس انتخابی اخراجات کے لیے اپنے ارکان و کارکنان اور ہمدردوں سے اعانت اور فنڈز جمع کرکے امیدواروں کو فراہم کیے جاتے ہیں، ورنہ سبھی قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں انتخابات کے موقع پر رقم بٹورنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں، چنانچہ ان کے ٹکٹ پر حصہ لینے والے امیدوار کامیابی کے بعد اخراجات سے کئی گنا رقوم کی وصولی کی خاطر بدعنوانی اور رشوت ستانی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی پاکستان میں غریبوں اور مزدوروں کے لیے سب سے زیادہ بلند آواز میں نعرے بازی کرتی ہے۔ پلڈاٹ کے تجزیے کے مطابق سیاسی جماعتوں نے جو حسابات الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جماعتوں کی آمدن میں بڑا حصہ ٹکٹ درخواستوں کی فیسوں پر مشتمل ہے، تاہم جماعت اسلامی میں اس کا کوئی تصور موجود نہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے بینک کھاتوں پر صرف سود کی مد میں 2 کروڑ 40 لاکھ روپے وصول کرتی ہے جو کہ 2013-14ء میں اس کی مجموعی آمدن کا نوّے فیصد تھا، تاہم گزشتہ تیرہ برس میں پیپلز پارٹی نے اپنی آمدن کا 23 فیصد سود سے حاصل کیا جو 10 کروڑ 60 لاکھ روپے سے تجاوز بتایا گیا ہے۔ پارٹی نے 2017-18ء میں ٹکٹ درخواستوں سے 9 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جو اُس برس اس کی مجموعی آمدن کا 89 فیصد تھا۔ نواز لیگ نے موجودہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے ہر امیدوار سے ناقابلِ واپسی 2 لاکھ روپے، جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے ایک لاکھ روپے جمع کیے ہیں۔ نواز لیگ نے 2018ء کے انتخابات میں ٹکٹ فیس کے نام پر 14 کروڑ روپے جمع کیے۔ جب کہ تحریک انصاف 2018ء میں اس لحاظ سے سرفہرست رہی اور 33 کروڑ 50 لاکھ روپے اس مد میں جمع کیے۔ اس کے علاوہ پارٹی فنڈ کے نام پر بھی سرمایہ داروں اور انتخابات میں حصہ لینے والوں سے خاطر خواہ رقوم وصول کی جاتی ہیں۔ ’’پلڈاٹ‘‘ کے مطابق ان جماعتوں نے ازخود جو اعداد و شمار الیکشن کمیشن کو جمع کرائے ان کی روشنی میں تحریک انصاف نے گزشتہ تیرہ برس میں ڈھائی ارب روپے، نواز لیگ نے 64 کروڑ 10 لاکھ روپے، اور پیپلز پارٹی نے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے وصول کیے۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں امیر بلکہ امیر ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے زمینداروں، صنعت کاروں اور اشرافیہ کے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کیوں ہورہا ہے۔
قبل از انتخابات دیگر اخراجات میں بھی پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ جلسوں، جلوسوں، بینرز، ہورڈنگز، کھانوں، کھابوں اور نہ جانے کن کن کھاتوں میں اندھا دھند اخراجات کیے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے انتخابی اخراجات کی حد ایک کروڑ اور صوبائی امیدوار کے لیے چالیس لاکھ روپے مقرر کر رکھی ہے، مگر سرمایہ دار اس سے کئی گنا زیادہ اخراجات انتخابات پر کرتے ہیں اور پھر قوم کا خون چوس کر اس سے کئی گنا مع سود وصول کرتے ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن کچھ سنجیدہ عملی اقدامات پر غور کرے گا جن سے انتخابات میں بے تحاشا دولت کی نمائش کو روکا جا سکے، تاکہ اہلیت و صلاحیت کے حامل عام لوگ بھی مجلسِ شوریٰ میں پہنچ کر ملک و قوم کی فلاح کی خاطر کچھ کرنے کے بارے میں سوچ سکیں؟ (حامد ریاض ڈوگر)