ادارۂ فکرِ جدید خالصتاً ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو جدید فرقہ واریت سے بلند، اور صرف دینِ اسلام کا داعی ہے۔ دورِ حاضر کا تقاضا ہے کہ امت میں ایسا رجحان اور ماحول پیدا کیا جائے جو ہر طرح کی ملاوٹ و آمیزش سے پاک ہو۔ پاکستانی معاشرہ جن شدت پسند رجحانات اور تشدد آمیز رویوں کی زد میں ہے ان سے خلاصی اسی صورت میں ممکن ہے جب لوگوں میں غور و فکر اور علم و تحقیق کا مزاج پیدا ہو۔ ادارۂ فکرِ جدید ایک ایسے معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے جو جذبات، تعصب، اشتعال، شدت پسندی سے پاک، اور علم و تحقیق، اعتدال اور تحمل مزاجی جیسے اوصاف سے متصف وسیع الظرف افراد پر مشتمل ہو۔
عربی تفاسیر میں جتنی بھی معروف و متداول ہیں تقریباً سب کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، شاذونادر کوئی عربی تفسیر ایسی ہوگی جو معروف و متداول ہو اور اس کا ترجمہ نہ ہوا ہو، سوائے ایک ’’تفسیر الکشاف‘‘ کے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشاف کا قدیم عربی تفاسیر میں ایک اہم مقام ہے اور بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ کشاف کا شمار امہات التفاسیر میں ہوتا ہے۔
یہ تفسیر ہمیں ایسے نہج و اسلوب سے متعارف کرواتی ہے جو دیگر تفاسیر کے منہج و اسلوب سے قدرے مختلف ہے۔ کشاف کا یہ ترجمہ اردو داں طبقے کے لیے ایک تحفہ ہے کہ جس سے وہ تفسیر کشاف و علامہ زمخشری پر مزید کچھ لکھنے اور کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
علامہ جاراللہ زمخشریؒ اور ان کی تفسیر ’’کشاف‘‘ اہلِ علم کے ہاں ہمیشہ مطالعے اور استفادے کا موضوع رہے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ قرآن کے احکام و آیات کی عقلی تشریح بھی صاحبِ کشاف کی اس تفسیر قرآن کریم کا امتیاز ہے جسے بعض معاملات میں اختلافِ رائے اور تحفظات کے باوجود ہر دور میں اہلِ علم کے لیے استفادے اور فہم قرآن کریم کے حوالے سے راہ نمائی کا باعث سمجھا گیا ہے اور اس کی افادیت آج بھی مسلّم ہے۔
علامہ زمخشریؒ عقائد میں معتزلہ کی طرف مائل تھے۔ ان کے عقائد و نظریات سے واقفیت کا سب سے بہترین ذریعہ ان کی تفسیر ہے۔ علامہ زمخشری معتزلی ہونے کی وجہ سے عقائدِ معتزلہ کے ثبات اور دیگر فقہی آرا کے بیان سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
علامہ زمخشریؒ علمِ کلام کے ماہر تھے اور معتزلی ہونے کی وجہ سے آپ نے مختلف آیات کی تفسیر کرتے ہوئے عقائدِ معتزلہ کو آیات کی تفسیر میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ امر انتہائی باعث ِتعجب ہے کہ آپ فقہی آرا میں دیگر مذاہب کا رد کرتے ہوئے فقہ حنفی کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ قرآن کی وضاحت و فصاحت و بلاغت، نحوی و صرفی تشریحات اور لغوی و معنی کی ابحاث کی وضاحت اور دلائل عربی شاعری سے پیش کیے ہیں۔علامہ جار اللہ زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ کی خصوصیات کا مختصر تعارف اس لیے پیش کیا ہے تاکہ قاری کے علم میں آجائے کہ جس کتاب کا ترجمہ اس کے ہاتھوں میں ہے وہ کس پائے اور کس مرتبے کی ہے اور تفسیری ادب میں اس کاکیا مقام ہے۔
’’الکشاف‘‘ کا ترجمہ نہایت علمی منصوبہ ہے۔ اردو خواں طبقے کے لیے ترجمے کی یہ پہلی کوشش ہورہی ہے، چوں کہ تفسیرکشاف انتہائی اہم اور دقیق ہے اس لیے اس کا ترجمہ کرنے والے احباب کا علم متداولہ سے ہم آہنگ ہونا نہایت اہم ہے۔ مترجمین کی کہکشاں اگرچہ مختصر ہے مگر وہ انتہائی عرق ریزی سے اپنے اہم کام کی طرف متوجہ ہیں۔ ابھی پہلی جلد کی تفسیر مکمل ہوئی ہے۔ الکشاف سے براہِ راست استفادہ ایک مسلمہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت عقلیت پسند جس طرح اسلام کے خلاف کھل کر صف آرا ہورہے ہیں اس کتاب کا ترجمہ اسلام پسندوں اور اسلام کا دفاع کرنے والوں کو عمدہ ہتھیار کی صورت میں دستیاب ہورہا ہے۔ عقلیت کا جواب عقلیت اور عربی زبان کے علوم بلاغہ کے ذریعے ہی ممکن ہے جو کہ اس کتاب کے ذریعے کشید کرنا انتہائی آسان ہے۔
کشاف کی پہلی جلد میں درج ذیل امور کو پیش نظر رکھا گیا ہے:
ترجمہ بامحاورہ اور سلیس ہے، آیات و احادیث کے ساتھ حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے، استشہادی اشعار کے ساتھ ان کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ ادارۂ فکرِ جدید نے وقت کی اس اہم ضرورت کو سمجھا اور اس منصوبے کو پوری ذمہ داری سے پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔
صاحب زادہ محمد امانت مدظلہ العالی کی سربراہی میں ادارۂ فکر جدید ایک بہترین کاوش کو پیش کررہا ہے، باقی تین جلدیں بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اردو میں تفسیر کے قارئین کے لیے یہ ایک بڑا تحفہ ہے۔ امید ہے کہ اردو ترجمہ میسر ہونے کی وجہ سے اب نہ صرف پاکستان بلکہ اردو جاننے والی ساری دنیا میں اس کاوش کو سراہا جائے گا۔