انسٹی ٹیوٹ کا ریجنل اسٹڈیز، پشاور کے تحت سیمینار
انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز(آئی آر ایس) پشاور کے زیر اہتمام ’’جیلوں میں اصلاحات کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات خیبر پختون خوا محمد عثمان محسود نے کہا ہے کہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی 40 فیصد آبادی کھانے پینے کے بنیادی حق سے محروم ہے، جب کہ جیلوں میں مختلف جرائم کے تحت بند ہزاروں قیدیوں کو سرکاری خرچ پر کھانے پینے کی مفت سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ قیدی اس معاشرے کا حصہ ہیں، ان کی مناسب دیکھ بھال اور انہیں معاشرے کا مفید شہری بنانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ قیدیوں کی فلاح وبہبود کے لیے الخدمت فاؤنڈیشن محکمہ جیل خانہ جات کے ساتھ مل کر جو خدمات انجام دے رہی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ آئی آر ایس نے جیلوں میں اصلاحات کی ضرورت کے عنوان پر سیمینار منعقد کرکے حکومت اور معاشرے کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے جس پر آئی آر ایس کی انتظامیہ قابلِ مبارک باد ہے۔ سیمینار سے الخدمت فاؤنڈیشن خیبرپختون خوا کے صدر خالد وقاص چمکنی، سابق رکن قومی اسمبلی صابر حسین اعوان، سینئر صحافی اور کالم نگار فدا عدیل اور آئی آر ایس کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے بھی خطاب کیا۔
آئی جی جیل خانہ جات محمد عثمان محسود نے کہا کہ حکومت جیلوں میں اصلاحات کے ایک جامع نظام پر کام کررہی ہے، اس ضمن میں قیدیوں کو مفید شہری بنانے کی غرض سے الخدمت فاؤنڈیشن کے تعاون سے کمپیوٹر اور اسکل ڈویلپمنٹ کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، اس کے علاوہ جو قیدی مختلف مصنوعات تیار کررہے ہیں اُن کا اُن کی محنت کے صلے کے طور پر ماہانہ مشاہرہ مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے عنقریب بینک آف خیبر کے تعاون سے اکاؤنٹ کھولے جائیں گے، اس طرح یہ قیدی جیل سے اپنے بال بچوں کے اخراجات اٹھا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے دوردراز علاقوں کے افراد کے اخراجات اور سفری مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیدیوں کی اپنے رشتے داروں سے ویڈیو لنک کے ذریعے آن لائن ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جلد ہی شروع کردیا جائے گا۔ اسی طرح جیلوں سے مختلف مدات میں ہونے والی آمدنی کو بھی براہِ راست قیدیوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جارہا ہے، جب کہ قبل ازیں یہ فنڈ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جیلوں میں بند قیدیوں کی مثال پنجرے میں بند قیدیوں کی طرح ہے جن کی دیکھ بھال ہمارا دینی، قومی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیلوں میں بدعنوانی اور رشوت خوری کی بیخ کنی ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے اور اس سلسلے کو برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس کے نتیجے میں کئی ملازمین کو نوکریوں سے برخواست بھی کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا۔
خالد وقاص چمکنی نے کہا کہ الخدمت فاؤنڈیشن گزشتہ کئی سالوں سے قیدیوں کی فلاح وبہبود کے ایک جامع پروگرام پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت جیلوں میں صاف پانی کی فراہمی، قیدیوں کے علاج معالجے، دینی و اخلاقی تربیت اور اسکل ڈویلپمنٹ پر توجہ دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الخدمت حکومتی ادارہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنی بساط سے بڑھ کر قیدیوں کی فلاح وبہبود کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس سلسلے کو مستقبل میں مزید وسعت دی جائے گی۔
قبل ازیں فدا عدیل اور صابر حسین اعوان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ جیلوں میں کرپشن عام ہے، امیر اور بااثر قیدیوں کے وارے نیارے ہیں جب کہ غریب اور بے آسرا قیدیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ جیلوں میں منشیات کی سپلائی میں منظم گروہ ملوث ہیں جنہیں بااثر جیل اہلکاروں کی آشیرباد حاصل ہے۔ جیلوں میں اصلاحات کی خاصی گنجائش بھی ہے اور ضرورت بھی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جیلیں قیدیوں کی اصلاح کے بجائے جرائم کی نرسریاں ثابت ہورہی ہیں جو پوری قوم اور متعلقہ اداروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیلوں کے ساتھ ساتھ جرائم کی روشنی میں قیدیوں کی بھی درجہ بندی ہونی چاہیے۔ عادی مجرموں اور بڑے جرائم میں ملوث قیدیوں اور چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث اور غیر عادی مجرموں کے ساتھ برتاؤ میں امتیاز روا رکھا جانا چاہیے۔ قیدیوں کو مفید شہری بنانے کے لیے ماہرینِ نفسیات پر مشتمل کائونسلنگ کے جدید ذرائع کا استعمال جیلوں کی اصلاحِ احوال اور قیدیوں کو کارآمد شہری بنانے میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر اقبال خلیل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میں الخدمت فاؤنڈیشن کا صوبائی صدر تھا تو ہم نے جیلوں میں کام کا آغاز کیا۔ انہوں نے گزشتہ 27سال سے ناکردہ گناہ کے جرم میں قید ایک قیدی کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ایک قیدی تھا جس کو پھانسی کی سزا ہوچکی تھی، اس سے ہمارا رابطہ ہوا اور اس نے اپنی کچھ ضروریات بیان کیں جو ہم نے پوری کیں۔ یہ 2008ء کی بات ہے۔ اس رابطے کو پندرہ سال ہوچکے ہیں اور مہینے میں وہ ایک دفعہ فون کرتا ہے جس سے مجھے اس کے بارے میں معلومات ہوتی ہیں۔ اس کو جیل میں 27 سال ہوچکے ہیں، اسے پھانسی کی سزا ہوئی ہے، اور پھانسی کی سزا پرچونکہ پابندی ہے اس لیے اُس کو پھانسی بھی نہیں ہوئی لیکن وہ رہا بھی نہیں ہوا۔ اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس کا ایک قریبی رشتہ دار خانساماں کے طور پر پنڈی میں کام کرتا تھا جس نے ایک اور ساتھی کی مدد سے مل کر اپنے مالک کو قتل کردیا۔ یہ قیدی جو اُس وقت 16 سال کا نوجوان تھا اپنے ان رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہا تھا، لیکن جب یہ واقعہ ہوا تو اس کو پتا بھی نہیں چلا کہ میرا جو رشتہ دار ہے اس نے کسی کو مار دیا ہے۔ بہرحال وہ پھر جب رات کو وہاں سے بھاگے تو یہ بھی ان کے ساتھ گاؤں چلا گیا۔ پھر جب وہ دو افراد پکڑے گئے تو یہ بھی اُن کے ساتھ پکڑا گیا۔ پھر اُس آدمی نے جو اِس کا رشتہ دار تھا اس کے باپ سے کہا کہ اگر یہ جرم مان لے تو چونکہ بچہ ہے تو اس کو پھانسی کی سزا نہیں ہوگی اور ہم بچ جائیں گے۔ تو اس کے باپ نے اس سے کہا، اور بقول اس کے اس نے میرے باپ کو تین ہزار روپے دیے خرچے کے لیے، بہت تھوڑی سی رقم کی بات تھی لیکن اس کے باپ نے کہا کہ بیٹا تم یہ بات مان لو اور تمہیں توکم عمری کی وجہ سے ویسے بھی سزا نہیں ہوگی اور پھر تم نکل آؤ گے اور ہم سب تمہارے لیے کوشش کریں گے، یہ چونکہ تمہارے رشتہ دار ہیں اس طرح یہ بچ جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب کیس چلا تو اس کو پھانسی کی سزا ہوگئی، حالانکہ یہ اُس وقت بھی جس وقت اسے سزا سنائی جارہی تھی، 18 سال کا نہیں ہوا تھا۔ اس کے وکیل نے اسے بچانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کو پھانسی کی سزا ہوگئی اور باقی دونوں کو عمر قید کی سزا ملی۔ اس پورے عرصے میں وہ دونوں رہا ہوگئے جب کہ یہ اپنے ناکردہ جرم میں ابھی تک جیل میں ہے اور 27 سال ہوگئے ہیں کہ یہ پھانسی کی کوٹھڑی میں پڑا ہے، اسے نہ رہائی ملتی ہے اور نہ ہی پھانسی۔ جب کہ ایک قانون یہ بھی ہے کہ اگر کوئی قیدی 21 سال قید گزار لیتا ہے تو پھر اسے پھانسی بھی نہیں ہوسکتی۔ تو اس طرح یہ قیدی ایک عجیب صورتِ حال سے دوچار ہے۔ یہ 27 سال سے چکی میں ہے اور اس جیسے 48 دیگرافراد بھی پاکستان کی مختلف جیلوں میں موجود ہیں۔
یہ واقعہ سنانے کا مطلب یہ ہے کہ جیلوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یا تو کریمنلز ہیں یا ان کی سزا پوری ہوچکی ہے، یا ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو کریمنل نہیں ہے اور بے گناہ جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
ہمارے مشاہدے میں ہے کہ ایک بڑی تعداد جیل میں بے گناہ لوگوں کی ہے۔ مثلاً کوئی صدر میں جارہا ہے، مٹر گشت کررہا ہے، اچانک پولیس نے آکر پکڑ لیا اور اس کے اوپر دفعہ لگا دی کہ یہ آوارہ ہے ویسے ہی گھوم رہا ہے، اور بس اس کو پکڑ کے اندر کردیا۔ جب ہم نے جیل میں کام کا آغازکیا اُس زمانے میں ایک بڑی تعداد ایف سی آر میں اندر ہوتی تھی، ایف سی آر میں ان کے اوپر کسی بھی جرم میں ایک سال، دو سال، تین سال کی سزا لگ جاتی تھی۔ وہ قیدی سزا پوری ہونے کے باوجود جیل میں پڑے ہوتے تھے کیونکہ ان کا جو جرمانہ ہوتا تھا وہ ادا کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح افغان مہاجرین بڑی تعداد میں جیل میں ہیں۔ 20 فیصد ایسے لوگ ہیں جو منشیات کے کیسز میں جیل میں ہیں۔ لیکن عملًا جب ہم جیل میں جاتے ہیں تو بڑی تعداد میں ایسے لوگ ہمیں ملتے ہیں جو ڈرگز کی ٹریفکنگ میں پکڑے جاتے ہیں، ڈرگز کی ٹریفکنگ میں پکڑے جانے والے افرادکو دو قسم کی سزائیں ہوتی ہیں، اگر دو کلوگرام سے زیادہ منشیات پکڑی جائے تو یا تو سزائے موت ہوگی یا عمر قید۔ سزائے موت تو بہت کم لوگوں کو دی گئی ہے، یہ سب لوگ جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔
جیلوں میںخواتین کی بھی ایک بڑی تعدادموجودہے جن کی اکثریت منشیات کی ٹریفکنگ میں پکڑی گئی ہے۔بڑے بڑے اسمگلر خود تو نہیں پکڑے جاتے البتہ ان کے کارندوں کو اے این ایف کے بندے ملی بھگت سے پکڑوادیتے ہیں تاکہ ان کا نمبر بھی بنتا رہے، ان کی بھی کارکردگی سامنے آتی رہے۔ ہماری جیلیں ان لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ان میں اکثر لوگ نوجوان ہیں۔ ہماراناقص عدالتی اور تفتیشی نظام بھی جیلوں کے مسائل کا ذمہ دار ہے، مثلاً جب کوئی کسی کو قتل کردیتا ہے تو جو ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے اُس میں اس آدمی کا نام ضروری نہیں جس نے قتل کیا ہو۔ ہمارے پختونوں میں یہ طریقہ کار ہوتا ہے اور اس کے پیچھے چار پانچ لوگوں کے نام ایف آئی آر میں دے دیتے ہیں۔ جس نے قتل کیا ہوتا ہے اس کا سب کو پتا ہوتا ہے کہ اس نے قتل کیا ہے، لیکن اس کا نام نہیں دیتے، یا اس کے نام کے ساتھ تین چار نام اور بھی ڈال دیتے ہیں۔ اب یہ قسمت کی بات ہے کہ کس پر جرم ثابت ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ بے گناہ ہوتے ہیں جو جیلوں میں اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ جیلوں کے بارے میں جو ایک تصور ہے کہ یہ ایک اصلاحی مرکز ہونا چاہیے، یہاں پر لوگوں کی اصلاح ہونی چاہیے اس پرکام نہیں ہوتا، حالانکہ ہماری جیلوں میں خاصی سہولیات دستیاب ہیں، یعنی ہماری جیلوں میں کھانے اور رہائش کی سہولیات دستیاب ہیں، اسی طرح وہاں پر اسکل ڈیولپمنٹ اور تعلیم کی سہولیات ہیں۔
ایم ایم اے کے دورِحکومت میں جیلوں میں خاصی اصلاحات ہوئی تھیں، مثلاً جیل میں سے ٹیلی فون کرنے کی سہولت دی گئی تھی کہ ہر قیدی ہفتے میں ایک دن اپنے گھر فون کرسکتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر جیل میں کوارٹر بنائے گئے قیدیوں کے لیے کہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سال میں ایک مرتبہ یہاں تین دن گزار سکتے ہیں۔ اس طرح کی کئی سہولیات جیلوں میں موجود ہیں، لیکن کئی مسائل اب بھی ہیں، مثلاً قیدیوں کوکئی ہولناک بیماریاں لاحق ہوتی ہیں مثلاً ایڈز، ہیپاٹائٹس اور اسی نوع کے دیگر امراض۔ ہمارے اس پروگرام کا مقصد یہ ہے کہ ہم جیلوں میں اصلاحات کے اوپر بات کریں۔ ظاہر ہے ایک ہسٹری ہے جیل کی۔ انگریز کے زمانے میں 1817ء میں پہلی مرتبہ بمبئی میں جیل بنی تھی۔ اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ جیل خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بنی تھی۔ جب بصرہ شہر آباد ہوا تھا تو وہاں اور کوفہ میں بھی جیلیں بنائی گئی تھیں۔ پاکستان بھر میں اس وقت 90 کے قریب جیلیں ہیں جن میں سینٹرل جیل، ڈسٹرکٹ جیل، جوونائل جیل، وومن جیل اور کئی سب جیل بھی ہیں۔ جیلوں کا سب سے بڑا مسئلہ گنجائش سے زیادہ قیدیوں کا رکھا جانا ہے جن میں بڑی تعداد حوالاتیوں کی ہوتی ہے جن کے کیس چل رہے ہوتے ہیں۔ جیلیں نہ صرف ہماری توجہ کی مستحق ہیں بلکہ جیلوں میں اصلاحات کی خاصی گنجائش بھی پائی جاتی ہے، اور آج کے اس سیمینار کے انعقاد کا مقصد ان اصلاحات پر تبادلہ خیال کرنا ہے۔