بھارت کشمیر کے کینوس پر اپنی پسند کی تصویر بنا رہا ہے
جماعت اسلامی کے راہنماسینیٹر مشتاق احمد خان کا ایک وڈیو کلپ ان دنوں سوشل میڈیا میں زیر گردش ہے جس میں وہ یہ انکشاف کررہے ہیں کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے اجلاسوں میں متعدد بار سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شرکاء کو بتایا کہ مسئلہ کشمیر کو دس سال کے لیے فریز کرکے پاکستان کو معیشت پر توجہ دینا ہوگی۔ مشتاق احمد خان کے بقول ان باتوں سے چڑ کر ایک سینیٹر نے کہا: اس کا مطلب ہے کہ دس سال تک ہمیں ترانوں پر گزارا کرنا ہوگا !
جنرل قمر جاوید باجوہ کے ڈاکٹرائن کے بارے میں سینیٹر مشتاق احمد خان کا یہ پہلا انکشاف نہیں،بلکہ کئی صحافی بھی ایسی ہی باتوں کی گواہی دے چکے ہیں جن میں جاوید چودھری،حامد میر اور نسیم زہرہ بھی شامل ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ جس کشمیر پالیسی کی بنیاد رکھ چکے ہیں وہ اب ایک تناور درخت کی طرح اپنی جڑیں پھیلا چکی ہے ۔اس پالیسی کے روبہ عمل آنے کے ہی دورمیں بھارت نے نہایت آسانی کے ساتھ ریاست جموں وکشمیرکی الگ شناخت کو مٹاڈالا اور پاکستان منہ دیکھتا رہ گیا ۔کشمیری حیران وششدر اور ایسے سکتے کی کیفیت میں چلے گئے جو برسوں بعد بھی ٹوٹنے نہیں پایا ۔اب بھارت کے کائیاں اور تجربہ کار وزیر خارجہ نے بنگلورو میں اپنی کتاب ”Why India matters”کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ1948 ء میں مغربی ملکوں کو غیر جانب دار ثالث اور فریق سمجھ کر کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لے جانا ایک بنیادی غلطی تھی، کیونکہ ان ملکوں نے اپنے جیو پولیٹکل ایجنڈے کے تحت کشمیر کو بھارت کی کمزوری بنادیا اور وہ اسے ہماری کلائی مروڑنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 1970ء میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ میں لے جانا ہماری غلطی اور کمزوری تھی، اور ہم نے کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرکے وہ کھڑکی ہی بند کردی جو ہم نے 1948ء میں اپنی بے وقوفی سے کھولی تھی۔ ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کے اندرون ملک اور بیرونی سطح پر اثرات پڑتے تھے اس لیے اس آرٹیکل کو ختم کرنے میں کئی دہائیاں لگیں۔
ایس جے شنکر نے دہائیوں تک انتظار کی جو بات کی، وہ حقیقت میں پاکستان اور عالمی طاقتوں کے ردعمل کا خوف تھا، کشمیر میں مظاہروں اور ہنگاموں کا خدشہ تھا۔ جب بھارت نے پاکستان کو معاشی طور پر مکمل مفلوج اور بے دست وپا دیکھا اور مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ کے پاکستان کی طرف بظاہر جھکے ہوئے پلڑے کو نائن الیون کے واقعات کے بعد کوششِ پیہم سے اپنی جانب جھکادیا تو اُس نے ایک وارکرکے قصہ ہی تمام کردیا۔ اس لمحے پاکستان کے دوست، معاشی مددگار اور مربی بھی معاملہ رفع دفع کرنے بیچ میں آگئے اور بھارت نے اپنے دیرینہ منصوبے کو نہایت آسانی کے ساتھ عملی جامہ پہنا لیا۔ بھارت جس خوف کی بنیاد پر برسوں اس فیصلے سے ہچکچاتا رہا وہ محض ایک واہمہ ہی نکلا، اور شاید اس کمزور ردعمل کو دیکھ کر اُسے یہ وقت ضائع کرنے کا بھی افسوس ہوگا۔ اب کشمیر جنوبی ایشیا کے کینوس پر ایک خاکہ ہے۔ برش بھارت کے ہاتھ میں ہے اور وہ جیسے چاہتا ہے اس پر رنگوں کی لکیریں کھینچ رہا ہے، اور باقی سب فریق کینوس پر بکھرتے زعفرانی رنگوں کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں آزادکشمیر کے سیاست دانوں اور مقبوضہ کشمیر کے حریت نمائندوں کی دبی دبی سی آوازیں حلق سے بلند ہوتی ہیں جن سے یہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ احتجاج ہورہا ہے یا فریاد کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے کشمیر پر بھارت نے اتنا بڑا قدم اُٹھایا ہے کہ اب اُسے آزادکشمیر کی کمزور قیادت کی آہ وفغاں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں، اور نہ ہی نغموں اور ترانوں سے زمینی صورتِ حال کو بدلا جا سکتا ہے۔ ایسے میں کشمیر ہائوس اسلام آباد میں وزیراعظم آزادکشمیر چودھری انوارالحق کی میزبانی اور سرپرستی میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں آرپار کی قیادت نے ا س عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، بلکہ اس تاریخی تنازعے کا حل ریاست جموں وکشمیر کی وحدت ہونے کی بنیاد پر ہی نکل سکتا ہے۔گویا کہ آرپار کی قیادت نے بھارتی حکومت کے یک طرفہ فیصلے اور بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے اس پر تصدیق اور تائید کی مہر دونوں کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا ہے۔ اس کانفرنس میں وزیراعظم آزادکشمیر چودھری انوارالحق، سابق وزرائے اعظم سردار عتیق احمد خان، راجا فاروق حیدر، عبدالقیوم نیازی، سردار یعقوب خان، محمود ساغر، غلام محمد صفی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت شریک تھی۔
اس کانفرنس کا انعقاد ایسے موقع پرہوا جب آزادکشمیر میں عمومی طور پر مایوسی کی کیفیت ہے اورلوگ کشمیر کے مستقبل پر متفکر ہیں، کیونکہ بھارت اپنے خوں خوار عزائم کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ آزاد کشمیر پر بھی اپنی نظریں جمائے ہوئے ہے۔ ایسے میں وزیراعظم چودھری انوارالحق نے آرپار کی قیادت کو ایک بینر تلے جمع کرکے کشمیری عوام کو امید اور رجائیت کا پیغام دینے کی کوشش کی، مگر کشمیر کے لوگ اب ان پیغامات سے بہلنے والے نہیں۔ جو نقصان ہوچکا ہے اس کا آزادکشمیر کا وزیراعظم اور راولپنڈی میں مقیم حریت کانفرنس ازالہ نہیں کر سکتی۔ بھارت کے اقدام اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنا دل کے بہلانے کو تو اچھا خیال ہے، مگر بھارت کشمیر کے کینوس پر اپنی پسند کی تصویر بنا رہا ہے۔ لے دے کر ساری امیدیں کشمیریوں کے جذبۂ آزادی اور ان کے شوقِِ مزاحمت سے وابستہ ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس تناظر میں حقیقت یہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا پائیدار حل وحدت اور حقِ خودارادیت کی بنیاد پر ہی نکل سکتا ہے۔ اس کے سوا ہر کوشش محض لیپا پوتی ہوگی، اور لپیا پوتی کا وہی انجام ہوتا ہے جو آج غزہ میں معاہدۂ اوسلو کا ہورہا ہے۔
بلاشبہ کشمیر کے مقدمے کی تاریخ بہت جان دار ہے، اور یہ مقدمہ پوری صراحت کے ساتھ عالمی فورم کی فائلوں میں موجود ہے، مگر اس مقدمے کو پیش کرنے کا عزم کہیں راہ میں کھو گیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں 566 ریاستوں کے راجوں مہاراجوں نے تین جون کے تقسیم پلان کے بعد اپنی اپنی ریاستوں کے مستقبل کے متعلق حلقوں سے مشاورت شروع کردی تھی اور قانونِ آزادیِ ہند کی منظوری کے بعد الحاق کا فیصلہ کرلیا تھا، مگر مہاراجا نے سری نگر میں قیام کرلیا اور فیصلے سے پس و پیش کی پالیسی اختیار کی۔ جبکہ اعلانِ قیام پاکستان کے بعد ریاست کو پاکستان کا حصہ تصور کرلیا گیا تھا کیونکہ کشمیر کے مسلمان عوام کی یہی سوچ تھی۔ اس دوران کانگریس کے لیڈر اور دیگر ریاستوں کے مہاراجے بھی ہری سنگھ سے سری نگر میں ملتے رہے، مگر مہاراجا ہری سنگھ وقت ضائع کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھا۔ وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن ریاستوں کے الحاق کے معاملے میں بہت متحرک تھا کیونکہ اُسے ایک محدود وقت میں پارٹیشن پلان پر عمل درآمد کرنا تھا۔ وائسرائے مکمل طور پر کانگریس کا حامی دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے کانگریس کی ایما پر صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کرایا تھا اور اُسے کانگریسی قیادت نے یہ یقین دلایا تھا کہ ریفرنڈم میں سرحد کے عوام ہندوستان کے حق میں فیصلہ سنائیں گے، اور اس کے لیے کشمیر کی بطور راہداری اہمیت بڑھ گئی تھی، کیونکہ کشمیر کی وسیع سرحد اسی صوبے سے ملتی تھی۔ اس اسکیم کی بنا پر گورداسپور کے علاقے ہندوستان میں شامل کیے گئے تاکہ ہندوستان اور کشمیر کا زمینی تعلق قائم کیا جا سکے۔ ریاست جموں وکشمیر کو ہندوستان کے قبضے میں دینے کے کئی عوامل میں گاندھی کا دورہ بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست کے مسلمانوں نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ مہاراجا ہری سنگھ کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی راہیں اور مواقع تلاش کررہا ہے تو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے19 جولائی1947ء کو سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر قراردادِ الحاقِ پاکستان منظورکی جس میں مہاراجا پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کشمیر کی زمینی حقیقتوں اور عوام کی سوچ وفکر کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کا پاکستان سے الحاق کرے۔
ایک طرف سری نگر میں کانگریسی لیڈروں کی آمدورفت ہورہی تھی اور راج محل میں پراسرار سرگرمیاں جاری تھیں، دوسری طرف تقسیم ہند کے منصوبے پر عمل درآمد آخری مراحل میں داخل ہورہا تھا۔ برصغیر کی اکثر شاہی ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرچکی تھیں، مگر مہاراجا کسی انہونی کے انتظار میں کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کو نظرانداز کرکے وقت ضائع کررہا تھا۔ ہندو مہاسبھائی پنجاب میں ہونے والے فسادات کے بعد خود کو ریاست جموں وکشمیر میں مسلح کرکے ایک خونیں جنگ لڑ رہے تھے۔ ایلسٹر لیمب جیسے ثقہ برطانوی محقق اس دستاویز کی حقیقت پر سوال اُٹھا چکے ہیں۔ قبائلی مجاہدین کی آمد کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا اور مہاراجا نے سری نگر سے بھاگ کر جموں میں پناہ لی، اور اس دوران اُس نے بھارت سے مدد کی درخواست کی۔ بھارت نے الحاق کی شرط پوری ہونے کے بعد مدد کا وعدہ کیا۔ محققین کے مطابق مہاراجا ابھی سری نگر سے جموں کی راہ میں ہی تھا کہ بھارت کا نمائندہ الحاق کی دستاویز لے کر جموں آیا اور دستخط حاصل کرکے اسی شام واپس چلا گیا۔ اُس دور میں سری نگر جموں روڈ کھنڈر اور خستہ حال تھا، مہاراجا صبح نکل کر شام کو جموں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ دوسرا یہ کہ جموں ائرپورٹ پر شام کی پروازیں نہیں تھیں، اور شام کو بھارتی نمائندہ کس طرح جہاز کے ذریعے واپس گیا یہ ایک معمّا ہے۔ یوں صاف لگتا ہے کہ یہ دستاویز الحاق کی تیاری، اور دستخط محض ایک ڈرامہ تھا، اور پہلے سے طے شدہ منصوبے پر مرحلہ وار عمل درآمد کی تدبیر تھی۔ اس دوران پاکستان نے مہاراجا کے ساتھ معاہدۂ قائمہ یعنی اسٹینڈ اسٹل ایگریمنٹ بھی کیا تھا جس کے تحت سری نگر کے ڈاک بنگلے پر پاکستان کا پرچم
بھی لہرا دیا گیا تھا، مگر اس کے باوجود بھارت میں کشمیر پر قبضے کی منصوبہ بندی جاری تھی۔کشمیر پر قبضے کے بعد بھارت کی فوج نے حیلوں بہانوں سے کشمیر میں اپنے اس قیام کو طوالت دینا شروع کی جو آگے چل کر باقاعدہ اور مستقل فوجی قبضے کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔کشمیریوں نے جب بھی بھارتی فوج کے انخلا کا نعرہ لگایا، بھارت نے جبر وتشدد کے پہاڑ توڑ کر اس آواز کو دبانے کی کوشش کی۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ایسے میں مسئلہ کشمیر کا حل حقِ خودارادیت کے اصول کی پیروی میں ہی نکل سکتا ہے، اور اس حل کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل ہے۔ بصورتِ دیگر فلسطین کے مسئلے کی طرح جنوبی ایشیا کا یہ آتش فشاں بھی سلگتا اور وقفے وقفے سے لاوا اُگلتا رہے گا،کیونکہ ہر دوجگہوں پر فرزندانِ زمین شکست قبول کرنے کو تیار نہیں۔