(پانچویں قسط)
ایریل شیرون کا کہنا تھا کہ اچانک ابھرنے والے کسی خطرے کا سامنا کرنے کی اہلیت سے کہیں بڑھ کر اہلیت یہ ہے کہ اسرائیل اپنے دشمنوں کے دلوں میں یہ بات بٹھادے کہ اُس پر کیے جانے والے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔
اسرائیل کے اسٹرے ٹیجک تجزیہ کار زیو ماؤذ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کو مصر کی طرف سے کسی حیرت انگیز حملے کا کوئی خوف لاحق نہ تھا۔ اُسے صرف اس بات کی فکر لاحق تھی کہ اپنے دشمنوں کو اس بات کا یقین دلادے کہ اس پر حملہ کرنا محض حماقت ہوگا۔
2000ء میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے ہاتھوں لبنان سے اسرائیلی فوج کا انخلا خاصا پریشان کن تھا کیونکہ اسرائیل کی ردِّ جارحیت کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ لبنان میں اسرائیلی فوج کی شکست اور حزب اللہ کی فتح کا عرب دنیا میں بھرپور جوش و خروش کے ساتھ جشن منایا جارہا تھا۔ ایسے میں ایک اور بڑی جنگ ناگزیر دکھائی دینے لگی تھی۔ اسرائیلی فوج نے اگلے راؤنڈ کی تیاریاں شروع کردیں۔ 2006ء میں جب حزب اللہ نے کئی اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرکے دو فوجیوں کو یرغمال بنالیا اور اُن کے بدلے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو اسرائیل کو فوجی کارروائیوں کا اگلا راؤنڈ شروع کرنے کا جواز مل گیا۔ حزب اللہ کو سبق سکھانا آسان نہ تھا۔ اسرائیلی ائرفورس کو تو بھرپور بمباری کرنا ہی تھی، زمینی فوج کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا پڑا۔ اسرائیلی فضائیہ کبھی اس قابل تھی کہ ایک پوری فضائیہ کو تباہ کردے، مگر اب اُس میں وہ بات نہیں رہی تھی۔ حزب اللہ کو کنٹرول کرنے میں اسرائیلی فضائیہ ناکام رہی۔ حزب اللہ کے راکٹ حملے روکنے میں وہ ناکام رہی اور اُسے ایسا نقصان پہنچانے سے بھی قاصر رہی جس کا ازالہ کرنے میں اُسے وقت لگے۔ دوسری طرف اسرائیل کی برّی فوج کو بھی ایک مضبوط دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اس کے لیے چونکا دینے والا عنصر تھا۔ طاقت کے معاملے میں اسرائیل اور حزب اللہ کا موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ اسرائیل نے 30 ہزار ریگولر، تربیت یافتہ فوجی میدان میں اتارے، جبکہ حزب اللہ کے پاس صرف 2 ہزار ریگولر اور 4 ہزار جُزوقتی جاں باز تھے۔ اسرائیلی فوج نے مجموعی طور پر ایک لاکھ 62 ہزار ہتھیار (راکٹ اور میزائل) داغے، جبکہ حزب اللہ نے اسرائیل پر4 ہزار راکٹ داغے اور لبنان میں اسرائیلی فوج کے خلاف ایک ہزار اینٹی ٹینک میزائل استعمال کیے۔ مزید برآں، اسرائیلی فوجیوں کو حزب اللہ کے اُن جاں بازوں سے لڑنا پڑا جو کم تربیت یافتہ تھے اور بہت سوں کا تعلق حزب اللہ سے نہ تھا۔ حزب اللہ کے تربیت یافتہ جاں باز دریائے لطانی کے کنارے اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ اسرائیلی فوج آگے آکر حملہ کرے تو بھرپور جواب دیا جائے۔
سیاسی محاذ پر بھی معاملات اسرائیل کے حق میں نہ تھے۔ اسرائیلی قیادت نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف جانے کو ترجیح نہیں دی بلکہ اُسے منظور ہونے دیا تاکہ کچھ عزت رہ جائے۔ جنگ بندی اسرائیل کی ضرورت تھی۔ 2006ء میں لبنان سے دوسری جنگ میں اسرائیلی فوج کو خاصی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اسرائیلی تھنک ٹینک نے بتایا کہ کم و بیش 63 انکوائری کمیشنز کی تجاویز کی روشنی میں اسرائیلی قیادت کو پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اسرائیلی قیادت کسی نہ کسی طور حزب اللہ سے انتقام لینے کے لیے بے تاب تھی مگر اُسے اپنی فتح کا پورا یقین بھی نہیں تھا۔ ایسے میں دو سال گزر گئے۔ 2008ء میں اسرائیل نے امریکہ کو ساتھ ملاکر ایران پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ ایران کے خلاف کامیابی حزب اللہ کے خلاف بھی کامیابی سمجھی جاتی۔ ایران کو کمزور کرنے کی صورت میں اُس کے جونیئر پارٹنر حزب اللہ کو بھی کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا۔ ایسی حالت میں اسرائیل کے لیے علاقائی طاقتوں کو پیغام دینے کا موقع ملتا کہ وہ حزب اللہ سمیت ہر ملیشیا سے دور رہیں، اُنہیں مضبوط کرنے سے گریز کریں۔ بینی مورس اور اسرائیل کی دیگر سرکردہ شخصیات نے امریکہ کو خبردار کیا کہ اگر اُس نے ایران اور حزب اللہ کے خلاف لڑائی میں اسرائیل کا ساتھ نہ دیا تو معاملہ غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال تک پہنچ جائے گا اور یوں بہت سے بے قصور ایرانی مارے جائیں گے۔ امریکہ نے اسرائیل کا ساتھ دینے سے صاف انکار کردیا۔ ایران پر حملے کا منصوبہ امریکہ نے جب مسترد کردیا تو یہ سمجھا جائے کہ اسرائیل کی ردِّ جارحیت کی صلاحیت کو ایک اور دھچکا لگا۔ اسرائیلی قیادت کے لیے سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اب کیا کرے؟ لے دے کر غزہ ہی رہ گیا تھا۔ یہ چھوٹا سا علاقہ اپنے دفاع کی بھرپور صلاحیت نہیں رکھتا تھا مگر مزاحمت کے لیے درکار عزم کی کمی نہ تھی۔ اسرائیل نے عزت بچانے کے لیے غزہ کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ حماس نے خاصی کم عسکری قوت کے باوجود اسرائیل کے سامنے سرِ تسلیم کبھی خم نہ کیا۔ 2005ء میں اس نے اسرائیل کو انخلا پر مجبور کیا اور 2008ء میں اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اپنی ردِّ جارحیت کی صلاحیت کو فخریہ انداز سے بحال کرنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج نے غزہ میں مزاحمت کاروں کو اس طور ہرانے کا سوچا جس طور اُس نے بیروت میں حزب اللہ کی حامی غریب شیعہ آبادی داہیہ کو کچلا تھا۔ بعد میں اسرائیل نے ’’داہیہ ڈاکٹرائن‘‘ پر اظہارِ تفاخر بھی کیا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ کی ناردرن کمانڈ کے سربراہ گادی آئزنکوٹ نے کہا تھا ’’ہم نے پوری تیاری کرلی ہے۔ ہر اُس گاؤں کو غیر معمولی قوت سے نشانہ بنایا جائے گا جہاں سے اسرائیل پر راکٹ داغے جائیں گے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچائیں۔ یہ کوئی تجویز نہیں بلکہ منصوبہ ہے۔‘‘
اسرائیل کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ گیورا ایلینڈ کا کہنا تھا ’’اگلا مرحلہ ہے لبنان کی فوج کو مکمل غیر مؤثر کرنا۔ اس عمل میں لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو اِتنا نقصان پہنچایا جائے گا کہ معیشت ٹھپ ہوکر رہ جائے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ بنیادی سوچ یہ ہے کہ جب لبنان کی ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا، لبنانی عوام کے لیے زندگی دردِ سر میں تبدیل ہوجائے گی، بنیادی ڈھانچے کی بحالی بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرے گی تب حزب اللہ کو اپنی طرز فکر و عمل تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔‘‘
ریزرو کرنل گیبریل سبونی نے کہا ’’جب اسرائیل پر حملہ ہوگا تو اُسے جواب میں بھرپور کارروائی کرنا پڑے گی۔ یہ بھرپور کارروائی صرف ایک مقصد کے تحت ہوگی… یہ کہ جہاں سے حملے ہورہے ہوں وہاں بنیادی ڈھانچا مکمل طور پر تباہ کردیا جائے۔ اسرائیل اگر اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے تو صرف اِس صورت میں کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے۔ جتنی زیادہ تباہی ہوگی اسرائیل کے لیے اُتنی مفید صورتِ حال پیدا ہوگی۔ اسرائیل پر کسی بھی حملے کی صورت میں ایسی سزا دی جائے کہ حملہ آوروں کو بحالی کے عمل سے گزرنے میں زمانہ لگے، تعمیرِ نو دردِ سر ہوکر رہ جائے۔‘‘
طاقت کا غیر متناسب استعمال اور سویلین بنیادی ڈھانچے کی تباہی بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرائم کے زمرے میں آنے والے اعمال ہیں۔ ویسے تو داہیہ ڈاکٹران اسرائیل کے تمام دشمنوں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے تیار کی گئی تھی، تاہم غزہ کو خاص طور پر نشانے پر رکھا گیا۔ اکتوبر 2008ء میں اسٹرے ٹیجک امور کے ایک اسرائیلی ماہر نے اس بات پر شدید تاسف اور پچھتاوے کا اظہار کیا کہ 2005ء کے بعد جب پہلی بار اسرائیل کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا تھا تب بھرپور جواب نہیں دیا گیا تھا۔ اُس ماہر کا خیال تھا کہ اگر بھرپور جوابی کارروائی کی جاتی تو اسرائیل کے دشمنوں کو دوبارہ حملہ کرنے کی نہ سُوجھتی۔ اُس کا خیال تھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہی دشمنوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر داخلہ مایر شیترت کا کہنا تھا کہ اسرائیل اب کسی بھی معاملے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور غزہ میں جس مقام سے بھی حملہ کیا جائے گا اُس مقام کو مکمل تباہ کردیا جائے گا۔
ریزرو میجر جنرل ایویرم لیون نے کہا ’’اب اسرائیل کی حکمتِ عملی صرف یہ ہے کہ جتنی تنظیمیں اسرائیل پر راکٹ اور مارٹر گولے داغ رہی ہیں اُن سب کے خلاف اتنی بھرپور کارروائی کی جائے کہ وہ دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اُن کی مدد کرنے والے شہریوں کو بھی نشانہ بنایا جائے۔ بھرپور کارروائی کے بعد حماس کی کوئی بھی عمارت اس قابل نہ رہے گی کہ وہاں سے اسرائیل کو نشانہ بنایا جائے یا نشانہ بنانے کی منصوبہ سازی کی جائے۔ ‘‘
اسرائیل کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف ڈین ہاریل کا کہنا تھا ’’جو بھی چیز حماس سے تعلق رکھتی ہے وہ اسرائیل کے لیے ایک جائز ہدف ہے۔‘‘
نائب وزیراعظم ایلی یشائی نے کہا ’’حماس کا ایسا حشر کیا جانا چاہیے کہ پھر کسی کو ہم سے الجھنے کی ہمت نہ ہو۔ ہزاروں دہشت گردوں کے مکانات کو تباہ کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ ہم ایسا کر گزریں گے تو پھر کوئی بھی ہم پر حملہ کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسرائیلی فوج کا آپریشن حماس اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی صورت میں ختم ہوگا۔‘‘
اسرائیلی چینل ٹین نیوز کے عسکری امور کے نمائندے نے کہا کہ اسرائیل بات چھپانے کی کوشش نہیں کررہا کہ وہ کسی بھی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی غیر متناسب انداز سے کرے گا، یعنی طاقت بہت زیادہ استعمال کی جائے گی۔
2006ء کی جنگ میں جب اسرائیلی فضائیہ نے لبنان میں اندھا دھند بمباری کی تب اسرائیلی میڈیا نے پُرمسرت انداز سے رپورٹنگ کی اور سویلین ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کے حوالے سے مذمت کا ایک لفظ نہیں کہا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے پہلے دن چند ہی منٹ میں لبنان اور غزہ میں 300 سے زیادہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ اِسے اسرائیلی میڈیا نے بہت بڑی فوجی کامیابی گردانا۔ اسرائیلی فوج نے سویلین آبادی میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں سویلین ہلاکتیں بھی واقع ہوئیں۔ حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نام پر دراصل نہتے، لاتعلق اور بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اسرائیلی فوج کی سفاکی اور بے رحمی کی انتہا یہ تھی کہ حملہ صبح ساڑھے گیارہ بجے کیا گیا جب گلیاں اور سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، صبح کی شفٹ کے بچے اسکول سے واپس آرہے تھے اور دن کی شفٹ والے بچے اسکول جارہے تھے۔ ایسے میں اسرائیلی فضائیہ کی بمباری بہت بڑے پیمانے پر شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنی۔ اسٹرے ٹیجک امور کے ایک اسرائیلی ماہر نے ان کارروائیوں کا مشاہدہ کیا اور بتایا کہ یہ بات سراسر غلط تھی کہ اسرائیلی فوج نے جن عمارتوں کو نشانے پر لیا تھا اُن کے مکینوں کو پہلے سے مطلع نہیں کیا، اور ایسا اس لیے کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان یقینی بنانا تھا۔
دوسری طرف بینی مورس نے اسرائیلی فوج کی شاندار کامیابیوں کو سراہا اور امریکی تجزیہ کاروں نے اسرائیلی فوج کی قطعیت کی ستائش کی۔ اسرائیل کے معروف کالم نگار بی مائیکل نے اس بات پر شدید نکتہ چینی کی کہ ایک بھرپور شہری آبادی کے خلاف کارروائی میں ہیلی کاپٹر، گن شپ اور جیٹ طیارے بھی استعمال کیے گئے۔
(جاری ہے)