اردو زبان کا مسئلہ

پاکستان میں سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ وہی سلوک ہوا ہے جو غالب کے زمانے میں نواب، طوائف کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ طوائف کو نواب کی ذاتی زندگی میں تو دخل ہوتا تھا مگر اس کی اجتماعی گھریلو زندگی سے طوائف کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا،، گھر میں اس کی قانونی بیوی ہی کا حکم چلتا تھا۔ اردو کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اسے انفرادی سطح پر تو پذیرائی حاصل ہے مگر اجتماعی سرکاری زندگی میں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں، بلکہ اردو کا حال تو طوائف سے بھی برا ہے۔ اردو کو قانونی حیثیت حاصل ہے مگر اس کی جگہ سرکاری سطح پر انگریزی براجمان ہے۔ سرکاری سطح پر انگریزی کا معاملہ محبت کی شادی والا ہے، جبکہ اردو سوکن کے طور پر لی جارہی ہے۔ ایسی سوکن کے طور پر، جسے اجتماعی خاندانی نظام نے سرکاری نظام پر اس کی مرضی کے بغیر ٹھونس دیا ہو۔

اس اقتباس میں ممکن ہے بعض لوگوں کو انگریزی کے خلاف بغض بھرا نظر آئے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ زبانوں اور رنگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں کہا ہے، اس لیے کسی زبان سے نفرت کرنا یا تعصب برتنا اللہ کی نشانیوں کے ساتھ نفرت کرنا اور تعصب برتنا ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ ہم انگریزی کو استعماری قوتوں کی ایک ایسی یادگار سمجھتے ہیں جس کو ہمارے طبقہ امرا نے ایک قوم کی عظیم اکثریت کے استحصال کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ زبان کا یہ استعمال خود اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کے مترادف ہے۔ چناں چہ انگریزی کے خلاف عوامی سطح پر جو جذبات پائے جاتے ہیں ان کا ادبار اسی طبقہ امرا کو اٹھانا ہوگا۔

اس استحصالی طبقے کی جانب سے اردو پر آزادی سے لے کر اب تک جو اعتراضات وارد ہوئے ہیں ان کا مسلسل بڑا مثبت جواب دیا جاتا رہا ہے، تاہم اس جواب کو اس طبقے نے کبھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔

ہمارے یہاں انگریزی کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں جو جواز دیے جاتے ہیں ان میں سب سے اہم جواز یہ ہے یعنی:

-1 انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔

اس کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ اگر آپ کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنا ہے تو پھر انگریزی کو اس کا موجودہ مرتبہ دیے بغیر چارہ نہیں۔

اس کے جواب میں اردو داں طبقے کی جانب سے جو عوام کی عظیم اکثریت کا نمائندہ ہے، یہ جواب دیا جاتا ہے کہ اردو میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بننے کے تمام تر امکانات موجود ہیں، اور یہ کہ ماضیِ قریب میں اردو سائنس اور طب وغیرہ کی زبان رہ چکی ہے۔ اس جواب کے دوسرے حصے میں یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ دنیا کی ہر قوم نے اپنی زبان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم پیدا کرکے ترقی کی ہے۔ اس سلسلے میں روس، جاپان اور چین وغیرہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

خیر چلیے، ہم یہی سائنس اور ٹیکنالوجی سیکھیں گے اور اس کے تمام کافرانہ رجحانات کے ساتھ سیکھیں گے۔ سوال یہ ہے کہ علم کی بنیاد کس پر ہے؟ خیال پر! خیال کا تعلق کس چیز سے ہے؟ سوچنے کے عمل سے! سوچنے کے عمل کا تعلق کس چیز سے ہے؟ زبان سے، ہم زبان کی مدد سے سوچتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سوچنے کے خیال کا تعلق جس زبان سے ہوتا ہے وہ کون سی زبان ہوتی ہے؟ زبان کی دو موٹی موٹی اقسام ہیں:

-1 تخلیقی زبان۔ (یہاں تخلیقی زبان کی اصطلاح میں نے وسیع معنوں میں استعمال کی ہے)

-2 عام بول چال کی زبان۔

سوچنے کے عمل کا تعلق عام بول چال کی زبان سے نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی زبان سے ہوتا ہے۔ تخلیقی زبان اظہار کی ایک اعلیٰ ترین سطح کی حامل ہے، اور یہ وہ زبان ہوتی ہے جو کسی شخص کے خون میں شامل ہو، اور خون میں وہی زبان شامل ہوسکتی ہے جو اس شخص کی تہذیب اور ثقافت سے پھوٹی ہو۔ اب انگریزی ایک ایسی زبان ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت میں ایک بیرونی بلکہ استحصالی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی زبان کس طرح ہماری تخلیقی زبان بن سکتی ہے؟ بلکہ انگریزی کی بات تو چھوڑیے، دنیا کی کوئی بھی زبان ہمارے لیے وہ نہیں ہوسکتی جو اردو زبان ہے، کیوں کہ یہ وہ زبان ہے جو اس علاقے کی اجتماعی تہذیب و ثقافت کے اجتماعی دور کے عمل سے ظہور میں آئی ہے۔

یہ عام تجزیہ ہے کہ وہ صاحبان بھی جو پہلے درجے سے لے کر اعلیٰ ترین درجے تک انگریزی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، سوچتے اردو ہی میں ہیں۔ ان میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو انگریزی میں سوچنے کے قابل ہوتے ہیں، اور ان افراد کے سوچنے کے عمل کا تعلق عام زندگی سے ہوتا ہے، اعلیٰ تخلیقی خیالات سے نہیں۔ عام معاملات کے بارے میں سوچنا اور اس کا اظہار کرنا اور بات ہے، اور تخلیقی سطح پر سوچنا اور اس کا اظہار کرنا دوسری بات۔ زبان پر گرفت کا ایک مظہر یہ ہوتا ہے کہ آپ اس زبان میں تصرف کرسکیں۔ ہم چاہے جتنی اچھی انگریزی جان جائیں مگر اس میں تصرف نہیں کرسکتے۔ یہ ہماری تہذیبی مجبوری ہے۔ اسی طرح کوئی انگریز چاہے جتنی اچھی اردو جان لے مگر وہ اردو میں تصرف کے قابل نہیں ہوسکتا، اور اگر یہ صورت پیدا بھی ہوجائے تو یہ ایک استثنیٰ ہوگا اور عام زندگی کے اصول مستثنیات کے لیے نہیں بنائے جاتے۔

”انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے“۔ یہ فقرہ کچھ اس طرح کہا جاتا ہے جیسے انسانی زندگی سائنس اور ٹیکنالوجی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، اور پوری زندگی کا مقصد صرف سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے۔

یہ بات تو ایک معمولی فہم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی انسانی زندگی کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق خارجی ماحول یا بیرونی دنیا سے ہے، زیادہ صاف الفاظ میں مادی دنیا سے ہے۔ سائنس بنیادی طور پر مادی ماحول کو بہتر بنانے کا ایک آلہ ہے۔ انسان کی باطنی زندگی اور تہذیبی و ثقافتی زندگی سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ انسانی زندگی کا یہی حصہ اہم ترین اور بنیادی ہے، اور یہ حصہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا حصہ بھی ہے۔

اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سائنس کا ہماری مذہبی زندگی سے تو اتنا بھی تعلق نہیں جتنا تہذیبی یا ثقافتی زندگی سے ہوسکتا ہے۔ ہماری یہی زندگی (یعنی مذہبی زندگی) ہمارے لیے سب کچھ ہے، اس میں تہذیب بھی شامل ہے اور ثقافت بھی۔ مذہبی نقطہ نظر کے مطابق انسانی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ کمپیوٹر، روبوٹ اور ایٹم بم بنانا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں جو سائنس پیدا ہوئی وہ اسلام کے مجموعی دائرئہ علم کا ایک حصہ تھی، بجائے خود ایک علم نہیں۔ اور اس کا مقصد بھی کائنات میں خدا کی نشانیاں تلاش کرنا تھا، گو اس کا تعلق عام زندگی کے فائدے سے بھی تھا۔ اسلام کیا، دوسری قدیم تہذیبوں میں بھی یہی صورت تھی۔ خود یونان میں سائنس فلسفے کا ایک حصہ تھی اور فلسفہ صداقت کی محبت اور اس کی تلاش کا نام تھا، بجائے خود صداقت نہیں جیسا کہ جدید فلسفہ بن چکا ہے۔

اس گفتگو کا مطلب یہ بتانے کے سوا کچھ نہیں کہ زبان کا یہ مسئلہ کہاں کہاں تک جاتا ہے، یعنی یہ بحث صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی کہ ہمیں اردو اپنانی چاہیے یا انگریزی۔

اس سلسلے کی تیسری بات یہ ہے کہ سائنس کی اپنی ایک علیحدہ زبان ہے جو عام زبان سے مختلف ہے۔ یہ عام طور پر اصطلاحات کی یا تکنیکی زبان ہے۔ خود انگریزی میں بھی سائنس کی زبان عام انگریزی زبان سے مختلف زبان ہے۔ چناں چہ اس موضوع پر انگریزی کی حمایت میں گفتگو کرنے والوں سے یہ ضرور پوچھ لینا چاہیے کہ وہ کون سی انگریزی زبان کی حمایت کرتے ہیں؟ عام انگریزی زبان کی یا اُس انگریزی زبان کی جس میں سائنسی علم پایا جاتا ہے؟ مجھے امید ہے کہ اگر ہم ان حضرات سے یہ کہیں کہ چلیے ہم اپنے طلبہ کو سائنسی علوم سائنسی انگریزی میں پڑھائیں گے اور دیگر علوم اردو میں، تو یہ اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ اور اگر آپ ان سے یہ کہیں کہ اعلیٰ ملازمتوں کے لیے ہونے والے مقابلے کے امتحانات چوں کہ سائنسی علم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اس لیے ہم انہیں انگریزی کے بجائے اردو میں منعقد کرائیں گے تو اس کے لیے بھی یہ ہرگز تیار نہیں ہوں گے، کیوں کہ انگریزی کی حمایت سے ان کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ ان کی آل اولاد کی اجارہ داری بیوروکریسی وغیرہ میں برقرار رہے۔ انگریزی کے سائنسی علوم کی جہت والا معاملہ تو یہ حضرات صرف خلطِ مبحث کے لیے اٹھاتے ہیں۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اب دنیا میں سائنسی علوم اتنی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں کہ ہر روز درجنوں کتابیں مارکیٹ میں آجاتی ہیں اس لیے ان کا ترجمہ ناممکن ہے، تو میرے خیال میں یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے دنیا کے 10 سب سے بڑے سائنس دان بھی انگریزی میں چھپنے والی ہر کتاب پڑھتے ہوں گے؟

جی نہیں، بلکہ اعلیٰ ترین سطح پر جا کر آدمی مطالعے کے ضمن میں انتخابی ہوجاتا ہے، وہ صرف وہی چیزیں پڑھتا ہے جو اس کے کام سے براہِ راست تعلق رکھتی ہیں، اور جو چیزیں اس کے کام سے براہِ راست تعلق رکھتی ہیں وہ بہت زیادہ نہیں ہوتیں۔ چناں چہ ان کا ترجمہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اور یہ بھی کیا ضروری ہے کہ پوری کتاب ترجمہ کی جائے؟ ہم کیوں نا اس کے مرکزی خیال کا ترجمہ کریں یا صرف اس کی تلخیص کردیں۔ ان حضرات سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ جاپان جس نے سائنس کے میدان میں بھی حیرت انگیز ترقی کی ہے اُس کے کتنے سائنس دان ایسے ہوں گے جنہوں نے انگریزی میں چھپنے والی کتب سے استفادہ کیا ہوگا؟ یہی بات چین کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔

جہاں تک اردو زبان کی استعداد کا معاملہ ہے تو اردو کے موجودہ علمی ذخیرے کو دیکھ کر معمولی علم رکھنے والا شخص بھی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اس زبان میں ہر طرح کے مفاہیم بیان کرنے کی صلاحیت ہے، اور جو صلاحیت اس میں نہیں ہے وہ آسانی سے پیدا ہوسکتی ہے۔

سائنسی علم تخلیقی علم نہیں ہوتا بلکہ یہ دریافت اور ایجاد کا علم ہوتا ہے۔ چناں چہ اس کی عام سطح پر ایک معمولی وضاحتی اور بیانیہ زبان کافی ہوتی ہے، تاہم اعلیٰ ترین سطح پر جہاں سائنس نظری علم کی دنیا میں داخل ہوتی ہے وہاں ریاضیاتی فارمولے کام آتے ہیں جن کا عام زبان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تاہم عام سطح کی زبان اتنی معمولی ہوتی ہے کہ اسے سائنس کا طالب علم آسانی کے ساتھ سیکھ سکتا ہے، اور اگر اُس میں اس زبان کی کافی استعداد موجود نہ ہو تو 4، 6 ماہ کے خصوصی کورس کے ذریعے اس میں یہ استعداد پیدا کی جاسکتی ہے۔

تاہم میری اس گفتگو کا مطلب یہ نہیں کہ انگریزی کو دیس نکالا دے دینا چاہیے۔ ہمیں خدا کی اس نشانی کو بھی جتنا ممکن ہو سیکھنا چاہیے، مگر خدا کی نشانی اور علم کی زبان کے طور پر… استحصال کے ذریعے اور اہلیت کی علامت کے طور پر نہیں۔ انگریزی کیا، ہمیں دنیا کی دوسری زبانیں بھی سیکھنی اور بولنی چاہئیں، بلکہ سب سے پہلے تو خود اردو سیکھنی چاہیے، کیوں کہ ہمیں اردو بھی کون سی بہت اچھی آتی ہے!

اردو زبان اور برصغیر

اردو زبان برصغیر کی ایک ہزار سالہ مسلم تاریخ اور تہذیب کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی آخری علامت ہے، اور نہایت طاقتور۔ اور طاقتور اس لیے کہ اب صرف یہی باقی ہے، کیونکہ پاکستان جس تہذیبی خلا سے دوچار ہے اس میں ماضی ایک زندہ روایت، تاریخی تسلسل اور ثقافتی شناخت کے طور پر باقی نہیں ہے۔ ہم اپنے ماضی پر شرمندہ، جدیدیت کے دریوزہ گر اور استعماری جدیدیت کے دل دادہ ہیں۔ تہذیبی ملبے کے اس ڈھیر میں تاریخی تسلسل کی واحد واقعیت اور علامت اردو ہے۔ برصغیر میں ہمارا تہذیبی بحران اس قدر مکمل ہے کہ اس کھنڈر میں کچھ دریدہ، کچھ سلامت بچنے والی واحد چیز اب یہی اردو ہے جو اس ویرانے کے ہول سے بھوت بن گئی ہے، اور بھوت بھی ایسا کہ آتا بھی نہیں اور جاتا بھی نہیں، لیکن اس کا بسیرا اب ہمارے گھر میں مستقل ہے۔ اب چارہ صرف یہ ہے کہ یا اس کا اتارا (exorcization) ہوجائے، یا اسے قومی ارادے کے دم درود اور سیاسی فیصلے کے تعویذ سے گھر میں پکا اتار لیا جائے تاکہ ہم بھی سُکھی ہوجائیں اور اس کی تڑپ بھی جاتی رہے۔

اردو کے بارے میں ایک بات کا ذکر کرنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں جب مسلمانوں کی زبانوں پر ”سسٹم“ کے تقاضے شدید ہوئے تو عربی، فارسی اور ترکی جیسی زبانیں بھی پاؤں پر کھڑی نہ رہ سکیں، اور ان کی جمالیات اور شعریات ہی فنا ہوگئی، یہاں تک کہ ترکوں نے اپنے ماضی سے نجات کے لیے ترکی زبان کو زندہ درگورِ شعور کردیا اور اس کے پاؤں میں ٹوپی اور سر پر پتلون چڑ ھادی، اور ایرانی جو نستعلیق کے موجد اور عاشق تھے، اس سے دست بردار ہوگئے اور فارسی نے ایک کریہہ نسخ کا لبادہ اوڑھ لیا۔ لیکن اردو نے کئی دہائیوں تک ”سسٹم“ اور ”مشین“ کے آگے مزاحمت کی اور کئی سیاسی کوششوں کے باوجود اہلِ اردو نے نستعلیق کو چھوڑنا قبول نہ کیا۔ اردو کی اس مزاحمت میں اردو صحافت کا کردار بہت اہم ہے کہ بڑے پیمانے پر اردو آج بھی نستعلیق کے ساتھ زندہ ہے جو فارسی سے کہیں بڑھ کر اب اس کی بنیادی شناخت کا حصہ ہے۔ اردو میں نستعلیق کی ontology اور ادب کی شعریات ہمیں جس حریم حقائق تک رسائی دیتی ہے اس کے فکری پہلوؤں کو دیکھنے کی ضرورت آج کہیں زیادہ گہری اور شدید ہوگئی ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ جدید عہد میں زبانیں بنتی کم ہیں اور بنائی زیادہ جاتی ہیں، یعنی جس طرح کی سیاسی، معاشی یا تہذیبی ضروریات ہوتی ہیں وہ زبان میں داخل کرلی جاتی ہیں۔ لیکن زبان کی نئی تشکیل میں اہم ترین عنصر یہ ہے کہ آپ اپنے ماضی کو کیسے دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی زبانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، یا انہوں نے اپنی زبانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس میں اُن کا ماضی کی طرف رویہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات کہنا کہ زبان یا تو جدید تقاضے پورے کرے گی یا صرف ماضی کے.. انتہائی لغو بات ہے، کیونکہ ماضی اور حال کا ہر تصور زبان کے بغیر بے معنی ہے۔ جدید عبرانی کے مسئلے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اہلِ یہود اپنے چاک در چاک ماضی کو بھی اس قدر اہم سمجھتے تھے کہ انہوں نے مُردہ عبرانی کو مرقد سے نکال کر، جھاڑ پھٹک کے اس میں ایک سیاسی روح پھونک کر زندہ کردیا جو اب ایک ترقی یافتہ زبان ہے اور اہلِ یہود کی جدید اور تہذیبی ضروریات کو پورا کررہی ہے۔ دوسری طرف مسلمان اپنے ماضی پر ہی شرمندہ ہیں اس لیے اپنی زبانوں کے ساتھ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ ان کے لیے باعثِ شرم ہونے کے بجائے باعثِ فخر ہے۔ لیکن اس رویّے سے مسلمانوں کو نہ ماضی سے نجات مل سکی اور نہ ترقی کا منصوبہ آگے بڑھے گا۔ ماضی سے نفرت اور مستقبل سے غفلت، حال کو عبرت بنادیتی ہے۔ ہم ذرا بھی بصیرت سے کام لیں تو اردو کا معاملہ کچھ مشکل نہیں ہے۔ برصغیر میں اپنی تاریخ اور عصری ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک سیاسی فیصلے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ چیز زیربحث رہی کہ آیا اردو قومی زبان کے طور پر ہماری ضروریات پوری کرسکتی ہے یا نہیں، تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لیکن جونہی ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی قومی اور تہذیبی ضروریات اس زبان سے پوری کرنی ہیں تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔

(”اردو زبان، پاکستانی قومیت اور ہمارا تہذیبی شعور“ اداریہ سہ ماہی ”جی“ لاہور- جنوری، اپریل2014ء)