’’طوفان الاقصیٰ‘‘ اسرائیل کے زوال کا آغاز

اللہ کی جانب سے طوفان ِاقصیٰ امت کی بیداری کا ایک موقع ہے، ڈاکٹر عزام الایوبی

طوفان اقصیٰ نے مختلف طوفانوں کے دروازے کھول دیے ہیں، ڈاکٹر ابراہیم عباس مہنا
مسجد اقصیٰ کی آزادی کیلئے آپ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرتے رہیں ،ڈاکٹر خالد قدومی
مرکز تعلیم و تحقیقی اسلام آباد اور شعبہ امور خارجہ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ایوان صنعت و تجارت اسلام میں سیمینار کا انعقاد
فلسطین اور لبنان سے مہمانوں کی شرکت

بروز منگل 2 جنوری2024ء کو مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد اور شعبہ امور خارجہ جماعت اسلامی پاکستان کے اشتراک سے اسلام آباد چیمبر آف کامرس میں ’’طوفان اقصیٰ: مسئلہ فلسطین اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں قومی اور بین الاقوامی شخصیات نے طوفان اقصیٰ کی حقیقت اور اقوامِ عالم پر اس کے اثرات سے متعلق گفتگو کی جس کا درج خلاصہ ذیل ہے۔

آغاز میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے قائم مقام صدر اظہر اسلام نے عرب دنیا سے آئے ہوئے مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہا، اور طوفان اقصیٰ سیمینار میں شرکت پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے غزہ کی موجودہ صورتِ حال سے متعلق کہا کہ اس وقت غزہ دردناک صورتِ حال سے گزر رہا ہے۔12 ہزار سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں، جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ درندگی طویل عرصے سے جاری ہے، اس کے مقابلے میں حماس کے مجاہدین ثابت قدم ہیں، اور اللہ رب العالمین پر توکل، اس پر بھروسے اور اعتماد کی عملی صورت پیش کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت مجموعی طور پر مسلم امہ اہلِ فلسطین کی مدد کا حق ادا نہیں کررہی۔ ہم آپ کے سامنے شرمندہ ہیں۔ ہم آپ (فلسطین اور لبنان سے آئے ہوئے مہمانان) سے پوچھتے ہیں کہ ہم آپ کی کس طرح مدد کرسکتے ہیں؟

مرکز تعلیم و تحقیق کے مدیر مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمٰن نے پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ طوفان اقصیٰ سیمینار کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسئلہ فلسطین سے متعلق پھیلائے جانے والے شبہات کو سمجھ سکیں، اور فلسطین کی آزادی میں اپنا حقیقی کردار ادا کرسکیں۔ ہمارے مہمانان گرامی طوفان اقصیٰ سے حاصل ہونے والے فوائد کے عالم اسلام اور مغرب پر مرتب ہونے والے اثرات کو آپ کے سامنے تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔

ہیئۃ علماء فلسطین کے رہنما ڈاکٹر ابراہیم عباس مہنا نے ’’رسائل من طوفان الاقصیٰ‘‘ (طوفان اقصیٰ سے حاصل ہونے والے دروس/ اسباق) کے موضوع پر گفتگو کی جس کا اردو ترجمہ راقم الحروف نے کیا، جس کے نکات ذیل ہیں:

حقیقت یہ ہے کہ طوفان اقصیٰ نے مختلف طوفانوں کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس لیے کہ کتائب القسام کے مجاہدین نے اقصیٰ کے حصول اور اس کو صہیونیوں سے آزاد کرانے کے لیے 7 اکتوبر 2023ء کو اس کا آغاز کیا، تاکہ فلسطین کی آزادی کی تحریک بھرپور قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آسکے۔ فلسطین کے علاوہ دیگر ممالک میں موجود مسلمان مزید طوفانوں کا آغاز کرکے اس تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ سب سے پہلے طوفان الاعلام (یعنی میڈیا کے ذریعے اس مسئلے کی حقیقت بیان کرنا) کا آغاز کیا جائے، اس لیے کہ میڈیا اس وقت کا سب سے کارگر اور مؤثر ہتھیار ہے۔ اسرائیل اس کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور پیدا کررہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کا حق دار ہے اور حماس کے مجاہدین نے طوفان اقصیٰ کا آغاز کرکے اس پر ظلم وستم کا آغاز کیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی خیانت کو ہم سب مل کر اپنے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے دنیا کے سامنے بیان کریں، اور یہ حقیقت واضح کریں کہ اسرائیل75 سالوں سے اہلِ فلسطین پر ظلم ڈھا رہا ہے، اس نے اپنی طاقت کی بنا پر فلسطین پر قبضہ جمایا ہوا ہے، اور اہلِ فلسطین اور غزہ کے باسی فلسطین (جو امتِ مسلمہ کی مشترکہ ملکیت ہے) کے حصول کے لیے قربانیاں پیش کررہے ہیں، لیکن اتنے ظلم وستم میں زندگی گزارنے کے بعد بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

اسی طرح ہم طوفانِ مالی کا آغاز کریں، جس کا مقصد یہ ہوکہ ہم اس عظیم جہاد میں اپنی استطاعت کے مطابق مال دے کر اپنا کردار کریں، اور یہ بات ہمارے ذہنوں میں مستحضر رہے کہ ہم فلسطین کے مسلمانوں کی اپنے مال سے جو مدد کرتے ہیں وہ اس نیت سے نہ ہو کہ ہم ان کو صدقہ، زکوٰۃ دے رہے ہیں، بلکہ اس نیت کے ساتھ ہو کہ ہم اس تحریک میں جہاد بالمال کے ذریعے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس لیے کہ اہلِ فلسطین اور کتائب القسام کے مجاہدین پوری امت کی جانب سے اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے، اس مال کی بدولت جہاں وہ زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرتے ہیں وہیں اسے تعلیم وتعلم، مجاہدین کی تربیت، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت اور اسرائیل کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے مختلف آلاتِ جنگ کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گویا کہ آپ کا یہ مال ان کی تمام ضروریات میں استعمال ہوتا ہے اور آپ اس تحریک میں جہاد بالمال کے ذریعے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اس لیے انفرادی واجتماعی طور پر ہمیں اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ جہاد بالمال کی تحریک کو طوفانِ اقصیٰ کی طرح اپنے معاشرے میں وسیع کریں تاکہ اہلِ فلسطین کی احسن انداز میں معاونت کی جاسکے اور ہم اپنے مال کے ذریعے سے اس عظیم جہاد میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

طوفانِ اقصیٰ سے قرآن وسنت کی تعلیم کے طوفان کا آغاز کرنے کا سبق ملتا ہے، اس لیے کہ اہلِ غزہ کی اس ثابت قدمی اور استقامت کی پشت پر قرآن وسنت کی تعلیم ہی ہے جس کی بنیاد پر ان کے والدین اور اساتذہ نے ان کی تربیت کی ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’دروازے میں قدم رکھتے ہی یقیناً تم غالب آجاؤ گے، اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے‘‘(سورۃ المائدہ:32)۔اس آیت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدینِ غزہ نے طوفانِ اقصیٰ کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں اسرائیل کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔ گویا کہ مجاہدینِ کرام کی بہادری وشجاعت کی پشت پر قرآن حکیم کی یہ آیاتِ مبارکہ ہی ہیں جن پر یقین کرتے ہوئے بے سروسامانی کے عالم میں وہ دشمن کو سبق سکھارہے ہیں۔ اس لیے طوفانِ اقصیٰ سے یہ سبق ملتا ہے کہ امتِ مسلمہ انفرادی واجتماعی سطح پر قرآن وسنت کی تعلیم کو اپنی ذات، گھر، محلہ اور ملک میں پھیلانے کی سعی کرے، تاکہ اللہ رب العزت کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہو اور اس کے دین کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہم تیار رہیں۔

طوفانِ اقصیٰ سے اتحاد واتفاق کی دعوت پھیلانے کا سبق ملتا ہے۔ اس لیے کہ آج اسرائیل کی پشت پرامریکہ،فرانس،برطانیہ وغیرہ موجود ہیں اور آپس میں متحد ہوچکے ہیں۔ اس نازک صورت حال میں امت کو اتحاد واتفاق کا پیکر بننا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج امت کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہم ان تمام مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ طوفانِ اقصیٰ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس طرح کفار باطل پر ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے متفق ہیں،اُن سے بڑھ کر ہمیں اتحاد واتفاق کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا، اس لیے کہ ہم حق پر ہیں اور یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔

اسی طرح ایک اہم کام یہ کرنا ہے کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے مظاہروں، سیمینارز و دیگر ذرائع سے اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیل کے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، اور فلسطین کو اُس کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے حکومتی سطح پر اپناکردار ادا کریں۔ طوفانِ اقصیٰ کے بعد اس امر کا مشاہد ہ کیا گیا کہ تمام ممالک کے عوام نے اہلِ فلسطین کے حق میں بھرپور مظاہرے کیے اور اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچائی۔ اس عمل کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومتی سطح پر اسرائیل سے نجات کی کوششیں کی جاسکیں۔

جماعت اسلامی لبنان کے امینِ عام ڈاکٹر عزام ایوبی نے ’’ہل کان قرار طوفان الاقصیٰ صحیحا أو متسرعا‘‘ (کیا طوفان اقصیٰ کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے؟) کے موضوع پر گفتگو کی جس کا ترجمہ پروفیسر ڈاکٹرحبیب الرحمٰن عاصم نے کیا، جو درج ذیل ہے:

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اتنی وقیع،خوبصورت اور جامع گفتگو کا مختصر خلاصہ کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے سلام سے آغاز کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کا فیصلہ غالباً جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے، انسانوں کے درمیان کسی بھی بات پر اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن غزوہ بدر سے ہمیں ایک چیز کا پتا چلتا ہے کہ جو اقلیت میں ہوں بعض اوقات ان کا فیصلہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی خواہش تھی کہ قافلے پر قبضہ کرلیں، یہ آسان بھی ہے اور مال بھی زیادہ مل جائے گا۔ لیکن اللہ کا فیصلہ اور تھا۔ اللہ کا فیصلہ تھا کہ باطل کی جڑ کو کاٹ دیا جائے۔ اس لیے اللہ نے قریش کے لشکر سے مقابلے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا، اور یقیناً زمانے نے ثابت کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر جو عمل کیا وہ عمل صرف ایک قریش کا لشکر تباہ کرنے کا نہیں تھا، بلکہ دنیا کی دو سپر پاورز اس کے نتیجے میں تباہ و برباد ہوگئیں۔ ایران اور روم مقبوضہ بن کے رہ گئے۔ یہ طوفان الاقصیٰٰ جو ہے لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ عام شہریوں کو ہلاکت میں ڈال دیا، مصیبتیں مول لے لیں۔ لیکن اسلام حقیقت میں کبھی بھی عقل کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا، یہ عین عقل کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ہم اس کا استعمال صحیح کرتے نہیں ہیں۔ ہم جب بھی جائزہ لیتے ہیں تو دو قوتوں کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں یعنی اسلحے کے اعتبار سے، مادیت کے اعتبار سے، تعداد کے اعتبار سے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں تقابل کرنے کے لیے ایک اور بھی اصول عطا کیا ہے، اور وہ یہ کہ دونوں لشکروں میں جو لوگ ہیں، جو افراد لڑنے کے لیے ہیں ان کی ذاتی حیثیت کیا ہے۔ مجاہدین اسلحے اور مادی اعتبار سے یقیناً اُن سے بہت کم ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ربانیون قرار دیا ہے اور ایمان ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ اور ہمارا ایمان ابھی مکمل نہیں ہوا، بظاہر ہم اس کا دعویٰ تو کررہے ہیں لیکن حقیقت میں یہ دعویٰ سچ پر مبنی نہیں ہے۔ دعویٰ یہ ہونا چاہیے کہ اگر اللہ پر ایمان ہے تو مدد صرف اور صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے اور نصرت صرف اور صرف اسی کی وجہ سے ملتی ہے۔ بعض لوگ یہ بھی پڑھتے ہوں گے کہ بدر میں تو فرشتے آگئے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ فرشتوں کی وجہ سے بدر کے مجاہدین کو نصرت نہیں ملی تھی، یا کامیابی میسر نہیں آئی تھی، یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے باقاعدہ ان کی مدد کی گئی تھی۔ شرط یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکار پر لبیک کہا جائے۔ جب تک لبیک نہیں کہا جائے گا، کامیابی نہیں ملے گی۔

سامعین ِ گرامی! ہمارا ایمان ہے کہ عمر اور زندگی کا ایک وقت متعین ہے، موت لکھی جا چکی ہے، رزق لکھا جا چکا ہے، اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا ہے کہ کوئی نفس بھی اُس وقت تک موت کو گلے نہیں لگائے گا جب تک کہ وہ اپنا رزق پورا نہیں کرلیتا۔ اس لیے جو رزق ملنا ہے وہ تو ملنا ہی ہے، اور جو زندگی لکھی گئی ہے وہ زندگی تو ملنی ہی ہے تو پھر موت سے ڈرنا کیسا، اور رزق کے بھاگ جانے اور ختم ہوجانے کا خوف کیسا!

اللہ تعالیٰ نے ’’تمہارے باپ، تمہاری اولاد، تمہارے خاندان، تمہاری تجارت ‘‘ کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ’’ اگر یہ اللہ کے مقابلے میں تمہیں زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو کہ اللہ کوئی ایسا فیصلہ کر دے‘‘۔ اور پھر آخر میں کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم فاسقوں والی زندگی بسر کررہے ہیں! سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: جس قوم نے جہاد چھوڑ دیا ذلت اس کے مقدر میں لکھ دی گئی۔

سامعین ِ گرامی! ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ لڑائی اور فساد ہمارا مطمح نظر نہیں ہے، ہم سلامتی چاہتے ہیں۔ لیکن جو سلامتی چاہتے ہیں انہیں جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سلامتی ہمارے بستروں میں ہمیں میسر نہیں آئے گی۔

اگر ایسا ہے اور ہم اسی طریقے سے انتظار کرتے رہے تو جان لیجیے ہم جن حقوق کی بات کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ملنے چاہئیں وہ ایک ایک کرکے دشمن ہم سے چھین لے گا۔ یقین جانیے یہ طوفان الاقصیٰٰ کا فیصلہ جلد بازی کا فیصلہ نہیں تھا۔ کیا فلسطین کا مسئلہ آج پیدا ہوا ہے؟ پچھتر برس ہوگئے ہیں اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے، اور اس میں ایک بہت بڑی تعداد فلسطینیوں کی، مسلمانوں کی، غزہ میں رہنے والے لوگوں کی شہادت پاچکی ہے، اور سولہ برس جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ غزہ میں باقاعدہ جمہوریت قائم کی گئی، اسی کے مطابق انتخابات کرائے گئے۔ جس جمہوریت پر پورا یورپ سر دھنتا ہے اور لوگوں کو اس پر آمادہ کرتا ہے ہم نے تو اس پر عمل کرکے دکھا دیا، اور اس کے مطابق جس کے پاس اکثریت تھی اس کی حکومت بننی چاہیے تھی ، لیکن پورا عالم اس کے خلاف ہوگیا اور غزہ کو ایک جیل بنادیا گیا، حالانکہ دو تہائی اکثریت غزہ کے رہنے والوں کو میسر آ چکی تھی، اور اسی حصار میں رہتے ہوئے ایک نسل جوان ہو چکی ہے، پانچ ملین لوگ غزہ میں رہتے ہیں لیکن غزہ ایک بہت بڑی جیل بن چکا ہے، ہر روز جو لوگ کام کرنے کے لیے آتے اور جاتے ہیں وہ ذلت آمیز نگرانی میں آتے جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ کہا کہ تم تیاری کرو اور ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق تیاری کی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان درست ہے ’’ واعدوا لھم ما استطعتم‘‘۔ ہمارے پاس جو طاقت تھی وہ ہم نے پوری کی اور اس کے مطابق پھر ہم نے اپنے طوفان کا آغاز کیا۔ کیا اس بات کی گواہی نہیں مل رہی کہ تین ماہ ہوگئے ہیں اسرائیل اپنے ایک ہدف کو بھی پورا نہیں کرسکا، جبکہ اس کے مقابلے میں 1967ء میں اسرائیل نے مصر پر جب حملہ کیا تھا تو پانچ دن میں وہ اتنے بڑے علاقے پر قبضہ کر چکا تھا جو غزہ سے 20 گنا زیادہ اپنی تعداد کے اعتبار سے اور مسافت کے اعتبار سے بنتا ہے۔ تو کامیاب ہم ہیں، اس لیے کہ تین ماہ ہوگئے ایک بہت بڑی طاقت ہونے کے باوجود اسرائیل اپنے کسی ہدف کو پورا نہیں کر سکا۔ ہم نے مجاہدین تیار کیے ہیں، محض توپ چلانے والے نہیں پیدا کیے۔ ہمیں امت کے طور پر سوچنا چاہیے۔ صرف غزہ اور اسرائیل ہمارا مسئلہ نہیں ہے، اگرچہ اِس وقت ہم اسی کے بارے میں بات کررہے ہیں لیکن کشمیر، روہنگیا، افریقہ اور مختلف مقامات پر امتِ مسلمہ کو جن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیا ہم انہیں فراموش کرسکتے ہیں؟ نہیں کرسکتے۔ دشمن سمجھتا ہے کہ وہ ہمارے کسی بھی حصے کو ہڑپ کرلے، نقصان پہنچادے، یا ہمیں اذیت پہنچائے، ہماری طرف سے کوئی مدافعت نہیں ہوگی، یا ہماری طرف سے کوئی مقابلہ نہیں ہوگا، اس لیے وہ ایک ایک کرکے اپنے مظالم میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ اس لیے ہم نے ایک طوفان اٹھایا ہے، اور یہ طوفان یقیناً آگے بڑھے گا۔ ہم پوری دنیا کو حرکت میں لانا چاہتے ہیں، امت سے تو آغاز کررہے ہیں۔ اگر امت اتفاق کرلے اور اس کے اندر ایمان والی یہ طاقت پیدا ہوجائے تو ہمارے پاس ہر اعتبار سے وہ تمام ذرائع موجود ہیں، پیٹرول اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر چیزیں ہمارے پاس ہیں، مسافت کے اعتبار سے، علاقوں کے اعتبار سے اگر ہم دنیا کے راستے بند کرنا چاہیں تو دنیا بند ہوکر رہ جائے۔ امت کو سوچنے کا انداز بدلنا چاہیے، ہمیں ایک امت کے طور پر سوچنا چاہیے۔ ہمارا خدا، ہمارا رسولؐ، ہماری کتاب، ہمارا دین، ہماری ثقافت سب ایک ہے لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ مغرب متحد ہورہا ہے اور ہم مختلف فرقوں اور ٹکڑوں میں بٹ کے اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر ہم اسی طرح ڈرتے رہے تو جان بھی جائے گی، مال بھی جائے گا، ساتھ ہی عزت بھی جائے گی۔ قاعدہ یہ ہے کہ حق اور باطل کے معرکے میں اپنے آپ کو کمزور مت کرو۔ خود کو کمزور کرو گے تو ایسا نہیں ہے کہ صرف تمہیں تکلیف ہوگی یا تمہیں تکلیف ہوتی ہے۔ جنگ کے دوران اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کردیا ہے کہ اگر تم مرتے ہو تو وہ بھی تو مرتے ہیں، تمہیں اذیت پہنچتی ہے تو وہ بھی تو اذیت میں جاتے ہیں۔ ہمارے لیے کہا ہے کہ تم ظلم کا ساتھ نہیں دو گے۔ صبر جو ہمیں عطا کیا گیا، ثبات و استقامت جو ہمیں عطا کی گئی وہ اُن کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں امت کے طور پر سوچنا ہے اور غزہ اور فلسطین جو کہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے مسئلے کا، اس کو جانیے اور امت کے طور پر کھڑا ہونے، طاقتور ہونے اور استقامت کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپنے اندر جرأت پیدا کیجیے۔

جنوبی ایشیا میں حماس کے رہنما ڈاکٹر خالد قدومی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں مجاہدین اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کررہے ہیں اور اہلِ پاکستان اپنی زبان، قلم اور مال کے ذریعے سے اس جہاد میں حصہ ڈال رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طوفانِ اقصیٰ سے اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔ برّی جنگ میں مجاہدین نے اُس کو شکست دے دی ہے۔ لیکن اس نازک صورتِ حال میں امتِ مسلمہ کو اہلِ فلسطین کی مدد و نصرت کا حق ادا کرنا ہوگا۔ افسوس کہ ہمارے حکمران اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں کرسکے۔

پروگرام کے آخر میں ڈائریکٹر شعبہ امور ِ خارجہ جماعت ِ اسلامی پاکستان آصف لقمان قاضی نے مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ ہم اہل ِ فلسطین کے ساتھ ہیں، ان کے ساتھ ہم ہر قسم کا تعاون کریں گے، اور پوری پاکستانی قوم ان کے دکھ درد میں شریک ہے، اور جب تک فلسطین آزاد نہیں ہوجاتا تب تک وہ ان کے ساتھ اس جہاد میں اپنے مال، قلم اور زبان سے اپنا حصہ ڈالتی رہے گی۔