برادرم نصیر احمد سلیمی کا مولانا ظفر احمد انصاری کے متعلق دو قسطوں میں ایک مضمون ’’ایک عہد۔ایک تاریخ‘‘کے عنوان سے ہفتہ وار’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں شائع ہوا ہے، جس کی دوسری قسط 10نومبر 2023ء کو شائع ہوئی۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے لیے جن لوگوں نے اہم و کلیدی کردار ادا کیا ہے ان میں بلاشبہ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے نصیر احمد سلیمی نے لکھا ہے ’’اب یہ بھی کوئی راز نہیں ہے کہ قراردادِ مقاصد کا انگریزی ڈرافٹ مولانا ظفر احمد انصاری صاحب نے ہی تیار کیا تھا‘‘۔ حالانکہ قراردادِ مقاصد کا انگریزی متن اور اس کا اردو ترجمہ بھی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے تیار کیا تھا، اس لیے کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی انگریزی میں ہی لکھتے تھے۔ ان کی اس سے قبل بھی تمام تر تصانیف انگریزی میں ہی ہیں۔ ویسے تو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی سے میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ان کے انتقال تک یہ تعلق قائم رہا۔ ان سے میں نے دوبارانٹرویو کیے۔ ایک انٹرویو ان کی تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق تھا اور ایک تحریک ِپاکستان سے متعلق۔ میں نے مولانا ظفر احمد انصاری سے بھی ایک اہم و یادگار انٹرویو کیا تھا جو ہفتہ وار ’’چٹان‘‘ لاہور کے کراچی نمبر میں 30 دسمبر 1973ء کو شائع ہوا تھا، لیکن میں اِس وقت قراردادِ مقاصد کے متن کی تحریر سے متعلق ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے اس کارنامے پر اپنی بات کی سچائی کے ثبوت میں ممتاز سینئر صحافی سجاد میرکے ایک یادگار انٹرویو سے قرارداد ِ مقاصد سے متعلق سوال وجواب من وعن پیش کررہا ہوں۔ یہ انٹرویو ہفتہ وار’’زندگی‘‘ لاہور کے ستمبر 1973ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا (جس کے اُس وقت ایڈیٹر مجیب الرحمٰن شامی تھے)۔ (واضح رہے کہ میں اپنی کتاب ’’معمارانِ جلیس‘‘ (مطبوعہ۔ اکتوبر 2018ء) میں بھی پانچ سال قبل اسے شائع کرچکا ہوں۔
س: پاکستان کی اس دستوریہ نے لیاقت علی خان کے زمانے میں جو قراردادِ مقاصد منظور کی، جسے اتنا تقدس حاصل ہوا کہ بعد میں ہر آئین میں شامل کی گئی، اس قرارداد کی منظوری کیسے ہوئی، آپ تو پس منظر کے واقعات سے آگاہ ہوںگے؟
ج: اسمبلی میں آنے سے پہلے اس قرارداد پر پارٹی میٹنگ میںبحث ہوئی تھی، میں آپ کو اس کی روداد سناتا ہوں۔ اس کام کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کے ارکان میں مولانا شبیر احمد عثمانی، سر ظفر اللہ، غلام محمد اور میں شامل تھے۔ غلام محمد سیکولر ذہن رکھتے تھے۔ بحث کے دوران میں غلام محمد نے کوئی بات ایسی کہی جس کی دلیل شرعی تھی۔ میں نے اس پر ٹکڑا لگایا، جیسا کہ ابھی مولانا غلام محمد نے فرمایا۔ عثمانی صاحب برجستہ بولے:’’ڈاکٹر صاحب آپ اگر انہیں مولاناکہتے ہیں، تو مجھے مسٹر کہیے‘‘۔ دونوں نقطہ ہائے نظر میں بڑا اختلاف تھا۔ غلام محمد ایک مرتبہ جوش میں یہاں تک کہہ گئے کو مولوی صاحبان چاہتے ہیں کہ وہ وزیر بن جائیں۔ علامہ عثمانی نے فوراًبڑا مناسب جواب دیا ’’مولوی یہ نہیںچاہتے کہ وہ وزیر بنیں، مگر یہ ضرور چاہتے ہیں کہ وزیر مولوی بنیں۔‘‘ خیر بہت ردوکد کے بعد مجھے فخر ہے کہ غلام محمد اور مولانا عثمانی دونوں کے نقطہ ہائے نظر میںیگا نگت پیدا کرنے میںمیری مساعی کا بہت دخل تھا۔بات خود ستائی تک آپہنچی، بہر حال وہیں میں نے قرار داد کا مسودہ تیار کیا جس پر اتفاقِ رائے ہوگیا، اس کے بعد واقعہ کچھ یوںہو ا کہ ہمارے محکمہ اطلاعات نے اس کا ترجمہ کیا جو درست نہ تھا، قانونی نکات اس ترجمے میںمسخ ہوکر رہ گئے تھے۔ میںانٹیلی جنس اسکول کوارٹر میں رہتاتھا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح نماز کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احتشام الحق تھانوی اور غالباً مولانا ظفراحمد انصاری میرے پاس پہنچے۔ مولانا عثمانی کہنے لگے ’’اس قرار دادِ مقاصد میںتو ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوا ہے۔ آپ نے کیا کہا تھا اور یہاں کیا لکھا ہے‘‘۔ میںنے دیکھا ترجمہ غلط تھا۔ میںنے وہیںبیٹھ کر ترجمہ کیا۔ مولانا مطمئن ہوگئے۔ اس کے بعد مولانا کی کیفیت یہ ہوگئی کہ جب بھی کوئی ترجمہ پیش کیاجاتا تو وہ کہتے میں نہیں مانوں گا جب تک ڈاکٹر قریشی ترجمہ دیکھ نہیں لیتے۔