انتخابات کا موسم اور افواہیں

ملک میں انتخابات کا موسم چل رہا ہے لیکن افواہوں کے ٹڈی دل بھی حملہ آور ہیں۔ آج کل تو انتخابی ماحول ہے، عام دنوں میں بھی کوئی ایک افواہ معاشی ترازو کا پلڑا ایسا جھکا دیتی ہے کہ اسے دوبارہ توازن میں لانے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ افواہ الیکشن کمیشن کے حوالے سے رہی، اور اسی دوران سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان کا استعفیٰ بھی آگیا اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان سے متعلق بھی افواہیں گردش میں رہیں۔ وجہ تو معلوم نہیں تاہم دو واقعات ہیں جنہیں اگر جوڑ کر دیکھا جائے توبات کچھ سمجھ میں آسکتی ہے۔ پہلی وجہ سینیٹ کی قرارداد ہے جس میں انتخابات ملتوی کرنے کا کہا گیا، دوسرا واقعہ جس کی تصدیق کا ذریعہ بھی الیکشن کمیشن ہے لیکن وہ خاموش ہے، جب تک الیکشن کمیشن تصدیق نہیں کرتا یہ بھی افواہ ہی رہے گی کہ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین نے انہیں توہین الیکشن کمیشن کیس میں وقت آنے پر فکس اپ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں، بہرحال یہ بات تو سچ ہے کہ حالیہ دنوں ہونے والی کچھ سیاسی پیش رفت نے بہت سے پاکستانیوں کو پریشان کردیا ہے۔ پاکستان میں طویل سیاسی عدم استحکام کا ممکنہ طور پر سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہوا ہے۔ معاشی مشکلات سے سب سے زیادہ پریشانی کم آمدنی والوں کو ہوئی ہے۔مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے معاشی بحران کو مزید بڑھادیا ہے۔ لیکن معیشت اسی وقت ٹھیک ہوسکتی ہے جب پاکستان سیاسی طور پر مستحکم ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر انتخابات منصفانہ طریقے پر ہوئے تو مقننہ میں طے ہوگا کہ اقتدار پر کون فائز ہوگا۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس مرتبہ ووٹنگ کم ہوگی ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابات میں کوئی ایک سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور قومی حکومت بنے گی، ساری سیاسی جماعتیں اس دائرے کے لیے تیار ہیں جس میں وہ کام کریں گی۔ مدر آف آل ڈیلز یہ ہے کہ ایلیٹ اور اسٹریٹ میں اتنا بڑا فاصلہ نہیں رہ سکتا، اس فاصلے کو ختم کرنا ہے، اور جو زیادہ فیورٹ تھے اب وہ تھوڑے کم رہ گئے ہیں۔ یہ پیاروں کی لڑائی ہے جس میں کہا جاتا ہے تم واپس آ جاؤ کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لگ رہا ہے جیسے منظم طریقے سے بے دست و پا کرنے کی منصوبہ بندی کہیں ہوچکی ہے تاکہ عوام کو مستقبل کا سیاسی تعین کرنے کے کردار سے محروم کردیا جائے، لیکن وہ گروہ جن کی معلومات کا بنیادی ذریعہ سوشل میڈیا ہے، ان کا خیال ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی غیر یقینی پن کی دوسری بڑی وجہ ناراض نوجوان آبادی ہے، یہی نوجوان سوشل میڈیا کے رسیا ہیں۔ ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا پرپیش کی جانے والی ہر چیز درست ہو۔ یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ ہماری سیاست پر اشرافیہ کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ اسے آئینی اور قانونی تقاضوں جو ایک جمہوری ریاست کی بنیاد ہیں، سے کوئی سروکار نہیں، اور یہ پاکستانی تاریخ کو سیاسی حماقتوں سے پاک بھی نہیں کرناچاہتی۔ حکمران اشرافیہ ہمیشہ حزبِ اختلاف کو ’’سماج دشمن‘‘ سمجھتی ہے۔

اگرچہ بار بار کہا جارہا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے لیکن سینیٹ میں پاس ہونے والی قرارداد کے بعد افواہیں اونٹ کو کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دے رہی ہیں۔ 8 فروری کو طے شدہ انتخابات کے التوا کی قرارداد پیش کیے جانے کا واقعہ ہضم نہیں ہورہا ہے کہ کسی کے اشارے پر تھا یا کسی نے اپنی انا کی تسکین کے لیے ملک کے اہم ترین آئینی ایوان کو استعمال کیا اور محض 12 ارکان کی حمایت سے قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد کا پیش ہونا اور پاس کرلیا جانا گہری منصوبہ بندی اور جمہوریت کے خلاف واقعی ایک سازش تھی اور ہے۔ اس کا ماسٹر مائنڈکون ہے، اسے تلاش کرنا جمہوریت دوست میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا اخلاقی فرض ہے۔ اس قرارداد کو لانے اور پاس کرنے کا فیصلہ کہاں ہوا؟ اس کا کوئی علم نہیں، تاہم اس قرارداد کے محرک اس روز چیئرمین سینیٹ کے آفس میں، چیئرمین سینیٹ کی موجودگی میں کسی غیر روایتی مشاورتی مجلس میں ضرور موجود تھے۔ پارلیمانی روایت یہی رہی ہے کہ جب بھی کوئی قرارداد پیش کرنا ہو تو اس کے لیے باقاعدہ رولز موجود ہیں، اور ہر قرارداد پر چاہے اس کے محرک اپوزیشن ارکان ہی کیوں نہ ہو، پہلے اتفاقِ رائے پیدا کیا جاتا ہے، پھر قرار داد کی روح اور منشا دیکھ کر حکومت ہی اس کی نوک پلک سنوارتی ہے اور اتفاقِ رائے کے بعد ایوان میں پیش کرتی ہے۔ اس قرارداد میں ایسی کوئی مشق اختیار نہیں کی گئی۔ اب قرارداد کی منظوری کے بعد یہ بحث بھی لاحاصل ہے کہ کس نے خاموشی اختیارکی اور کس نے کورم کی نشاندہی نہیں کی۔ یہ بات حقیقت ہے کہ اگر کورم کی نشان دہی ہوجاتی تو چیئرمین سینیٹ کو ایوان کا اجلاس ہی برخاست کرنا پڑجاتا۔ لیکن ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ سینیٹ میں اگلے ہی روز ہفتے کو ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں پاکستان کے اندر عام انتخابات کو بلاتاخیر آٹھ فروری کی اعلان کردہ تاریخ پر کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جبکہ انتخابات کے التوا سے متعلق سینیٹ میں قرارداد منظور کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست بھی دائر کی گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر سینیٹ میں الیکشن سے متعلق قرارداد کو سینیٹ سے مذاق سمجھتے ہیں، وہ سینیٹر مشتاق احمد خان کی قرارداد پر اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرائیں گے۔

ویسے تو نااہلی فیصلے میں عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف پر عمل نہیں ہوسکتا، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت مسقبل میں اب کوئی نااہلی نہیں ہوگی لیکن اس ہفتے کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں نے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر مکمل نظرثانی کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ تینوں جماعتیں آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر مکمل نظرثانی کی ضرورت محسوس کررہی ہیں۔ تینوں الیکشن ملتوی کروانے کی سینیٹ میں منظور ہونے والی قرارداد کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بھی بنائیں گی۔ جہاں تک قرارداد پر ردعمل کا تعلق ہے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی پیش کردہ نئی قرارداد میں کہا گیا کہ الیکشن کا انعقاد آئینی ضرورت ہے اور انتخابات کو وقت پر ہونا چاہیے۔ نئی قرارداد میں جمعہ کو الیکشن ملتوی کرانے کے حوالے سے منظور ہونے والی ایک قرارداد کو ’غیر آئینی اور غیر جمہوری‘ قرار دیا گیا۔ سینیٹر مشتاق احمد کی قرارداد کے مطابق: ’’یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد وقت پر کرائیں‘‘۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کے انعقاد کا کہا ہے، جبکہ ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا گیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ یعنی یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مانڈوی والا نے سینیٹر مشتاق احمد کی قرارداد کی مکمل حمایت کی، وہ کہتے ہیں ’’لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انتخابات کے التوا کی قرارداد بالکل غلط تھی، اسے ختم کیا جانا اچھا ہوگا، سینیٹر مشتاق احمد نے ایک قرارداد کا مسودہ سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرایا ہے کہ الیکشن اپنے طے شدہ وقت پر کرائے جائیں، مگر اب تو سینیٹ کا اجلاس جب ہوگا تو یہ زیر غور آئے گی، ارکانِ سینیٹ کی بڑی تعداد غیر حاضر پاکر یہ قرارداد جس نے بھی پیش کرنی تھی، اس نے موقع ملتے ہی یہ کام کردیا، یہ معاملہ اب ضرور اپنے نتائج لائے گا، یہ معاملہ اب الیکشن کمیشن میں ضرور جائے گا کیونکہ سینیٹ سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرکے حکومت، الیکشن کمیشن اور ایوانِ صدر کو آگاہ کردیا ہے اور اس قرارداد پر عمل درآمد کی رپورٹ مانگ لی ہے۔‘‘

خیبرپختون خواسے سینیٹ کے آزاد رکن دلاور خان نے چیئرمین سینیٹ کی اجازت سے قرارداد پیش کی جس میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ’’امن وامان کی صورت حال اور خراب موسم کے باعث انتخابات ملتوی کیے جائیں اورماحول سازگارہونے کے بعد نیااانتخابی شیڈول جاری کیا جائے‘‘۔مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ نے قرارداد کی مخالفت کی جبکہ پی ٹی آئی کے رکن گردیپ سنگھ اور پیپلزپارٹی کے سینیٹر بہرہ مندتنگی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ سینیٹر کہدہ بابر کا مؤقف ہے کہ قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر کوئی کفر نہیں کیا۔ قرارداد کے وقت ایوان میں سینیٹرز کہدہ بابر، پرنس عمر، نصیب اللہ بازئی، ہلال الرحمان، منظور کاکڑ، ثمینہ زہری، ثنا جمالی، ہدایت اللہ، کامل علی آغا،پی ٹی آئی کے سینیٹرگردیپ سنگھ، پیپلزپارٹی کے رکن بہرہ مند تنگی اور مسلم لیگ (ن) کے رکن افنان اللہ موجود تھے۔وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ چونکہ بلوچستان عوامی پارٹی سے ہیں لہٰذا فنی طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ سینیٹر دلاور خان کی قرارداد کو باپ پارٹی نے حمایت دی۔ نگران حکومت کے ایک وزیر، جو کسی سیاسی جماعت کے رکن نہیں ہیں، وہ نجی محفلوں میں کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ’’ہم کہیں نہیںجارہے‘‘۔ ان کا بار بار دہرایا جانے والا یہ جملہ قرارداد کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو تھیلے میں موجود بلی کا دھڑ تو نظر آہی جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس قرارداد پر پہلا ردعمل الیکشن کمیشن نے دیا کہ ’’سینیٹ قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں، عام انتخابات 8 فروری ہی کو ہوں گے، سپریم کورٹ کے سوا کسی کے احکامات الیکشن شیڈول پر اثرانداز نہیں ہوسکتے، سینیٹ کی قرارداد کا الیکشن شیڈول پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن انتخابات سے متعلق ابہام کی کیفیت کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکمت عملی ہی یہ ہو کہ ابہام موجود رکھا جائے اور اسی ماحول میں انتخابات کرا دیے جائیں۔ ابھی انتخابات نہیں ہوئے، اور کوئی فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ کون حکومت بنائے گا، تاہم پہلے سے ہی سوچا جارہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اِس بار ماضی جیسی غلطیاں نہیں دہرائے گی، شہبازشریف وزیراعظم اور عسکری قیادت کے مابین پل کا کردار ادا کریں گے تاکہ دونوں مل کر ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جائیں۔ یہ بھی کہا اور سوچا جارہا ہے کہ ملک میں گرین انقلاب لانے کی کوشش بہترین نتائج لارہی ہے اور 3 سال میں ملک بحران سے نکل آئے گا اور زرعی اور معاشی انقلاب آجائے گا۔ یہ اگر سوچ ہے یا منصوبہ بندی، یا جیسی بھی شکل ہے، ملک کی معیشت کے استحکام کی کوشش ہے۔ لیکن یہ کوششیں افواہوں اور انتخابات ملتوی کرنے کی قراردادوں کی زد میں کیوں ہیں؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے ہمیں اپنے ماضی سے مستقبل تک کے سفر کا ایک ہلکا سا جائزہ لینا ہوگا۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ عمران حکومت ایک ہائبرڈ نظام تھا، مستقبل میں سوپر ہائبرڈ نظام آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی رائے سے بالا بالا سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد پاس ہوگئی جس کی صرف جے یو آئی نے حمایت کی، باقی تمام جماعتیں تحفظات ظاہر