انتخابات کا التوا کا شور: حالات کی خرابی یا تحریک انصاف کا خوف

عیاں ہے کہ نیت 8 فروری2024ء کو انتخابات نہ کرانے کی ہے۔ بعینہٖ جمعیت علماء اسلام اور اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی راہِ فرار بھی سمجھ سے بالاتر نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور مولانا فضل الرحمٰن پر تحریک انصاف کا خوف طاری ہے۔ لرزہ مسلم لیگ نواز اور عوامی نیشنل پارٹی پر بھی ہے۔ یہاں چاہا جارہا ہے کہ مقتدرہ پوری طاقت سے تحریک انصاف کو کچلنے کی کوشش کرے تاکہ ان جماعتوں کے لیے سیاسی میدان میں مشکل نہ رہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مقتدرہ مجموعی سیاسی عمل کے خلاف بندوبست کا سوچ رہی ہے۔ اسے محض جمہوریت کے لیبل کی ضرورت ہے۔ اس طرح پورے نظام کی کلید اُس کے ہاتھ میں ہوگی۔

بلوچستان کے اندر گزشتہ دور اور اب نگران حکومتوں کا تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے۔ اس عمل میں سیاسی جماعتیں دانستہ و نادانستہ استعمال ہوئیں۔ عام انتخابات کے بارے میں پاکستان کی اعلیٰ عدالت کے احکامات نہیں مانے گئے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے2023ء کے ماہ اپریل کی 30 تاریخ، پھر 14مئی، اس کے بعد 8اکتوبر2023ء کو انتخابات کرانے کا کہا، مگر کسی نے پرِکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ چناں چہ اب طے شدہ شیڈول سبوتاژ کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ 5 جنوری2024ء کو سینیٹ آف پاکستان میں 8 فروری کے طے شدہ عام انتخابات کے التوا کی قرارداد کی منظوری مکروہ ارادوں کا اظہار ہے۔ اور یہ سب کچھ اچانک نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کرایا گیا ہے جس کے ذریعے موضوع پر بولنے اور غور کرنے کا در کھولا گیا ہے۔ ایوانِ بالا کے 12ارکان کی حمایت سے منظور کرائی جانے والی یہ قرارداد صوبہ خیبر پختون خوا سے ایک آزاد رکن دلاور خان نے پیش کی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی اور تحریک انصاف کے سینیٹر گردیپ سنگھ نے رائے شماری میں حصہ نہ لے کر دراصل قرارداد منظور کرانے میں ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے ان ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کردیا ہے۔ بلوچستان کی بلوچستان عوامی پارٹی(بے اے پی) مکروہ کھیل کا حصہ بنی ہے۔ اس جماعت کی تشکیل کی غرض و غایت اسی طرح کے اہداف اور مقاصد کے لیے کی گئی ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ خود چیئرمین سینیٹ گویا اس سازش کے سرغنہ دوئم ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی التواء کے کسی بھی منصوبے کی مخالف ہیں، تاہم ضروری ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اس قرارداد کو پیش کرنے والے چہروں کے خلاف عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کریں، کیوں کہ چیئرمین سینیٹ اور تخریبی تھیوری کا حصہ بننے والے سینیٹرز توہینِ عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ آفرین ہے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان پر کہ جنہوں نے انتخابات وقت پر کرانے کی قرارداد سینیٹ میں جمع کرائی۔ الیکشن کے التوا کی قرارداد کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر ہوچکی ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سینیٹ کی منظور کردہ قرارداد توہینِ عدالت کے زمرے میں آتی ہے اور یہ قرارداد آئین کی بھی خلاف ورزی ہے، چیئرمین سینیٹ اور جن اراکین نے قرارداد پاس کی ہے اُن کے خلاف آرٹیکل 6 یعنی غداری کا مقدمہ بناکر کارروائی کی جائے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ایک سینیٹر منظور کاکڑ نے قرارداد کے حق میں دلیل دی ہے کہ اگر انتخابی مہم کے دوران سیاسی پارٹی کا کوئی کارکن شہید ہوتا ہے تو اس کے گھر والوں کی کفالت کون کرے گا؟ کوئی ان سے سوال کرے کہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر 80 ہزار سے زائد پاکستانی عوام اور فورسز کے اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں، ان کی کفالت کون کررہا ہے؟ یہاں دلیل سیکورٹی تھریٹس اور امن کے خراب حالات کی دی گئی ہے، حالاں کہ2008ء اور2013ءمیں حالات اس سے بدتر تھے۔ بلوچستان کے اندر تو اُس زمانے میں مغرب کے بعد پولیس اہلکار وسط شہر کے اندر بھی گشت نہیں کرتے تھے۔ قومی شاہراہوں پر رات کو سفر نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ دور ہدفی قتل، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور گولے برسانے کا تھا، مگر پھر بھی انتخابات کا انعقاد ہوگیا۔ دراصل اب کا عذر خراب حالات نہیں بلکہ تحریک انصاف کا خوف ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اطلاع ویسی ہی ہوگی، جس طرح رانا ثناءاللہ کی گاڑی میں منشیات کی موجودگی کی اطلاع دی گئی تھی، اور تحریک انصاف نے حق سمجھ کر رانا ثناء اللہ کو گرفتار کرلیا اور اُس وقت کے وفاقی وزیر شہریار آفریدی نے قرآن کی قسم اٹھا کر کہا تھا کہ ہیروئن رانا ثناءاللہ کی گاڑی میں موجود تھی۔ اس طرح رانا ثناء اللہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گئے۔ چناں چہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس کو آنکھیں بند کرکے تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ انتخابات ملتوی کرانے کی نیت رکھنے والوں نے خواتین کو بھی جیلوں میں ٹھونسا ہے۔ خدیجہ شاہ کو11دسمبر کو لاہور پولیس سے اپنی تحویل میں لے کر کوئٹہ پولیس نے بلوچستان منتقل کیاتھا۔ وہ تقریباً دو ہفتے کوئٹہ میں قید رہیں، پھر رہا کردی گئیں۔ انہیں تھانہ بجلی روڈ میں 9 مئی کو کوئٹہ میں ہونےوالے پُرتشدد احتجاج کے بعد پہلے سے درج مقدمے میں پکڑا گیااور الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے لاہور سے بیٹھ کر سوشل میڈیا پر لوگوں کو پُرتشدد احتجاج پر اکسایا۔ کوئٹہ پولیس اس بابت عدالت میں کوئی شواہد پیش نہیں کرسکی جس پر انسداد دہشت گردی عدالت کوئٹہ نے انہیں بری کرکے رہا کرنے کا حکم دیا۔

پیپلز پارٹی ان دنوں پھر جمہوریت اور آئین کا بڑے زور شور سے راگ الاپ رہی ہے۔ یہ صادق سنجرانی پیپلزپارٹی کا ہی تحفہ ہیں۔ حالیہ دنوں مقتدر ہ کے چند پرزے پیپلز پارٹی میں جمع کرائے گئے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو،تربت سے ظہور بلیدی، ڈیرہ بگٹی سے سرفراز بگٹی ، کوہلو سے نصیب اللہ مری ،سبی سے سرفراز ڈومکی اور دیگر کے بارے میں غور کیا جائے کہ یہ پرزے کس کے تابع ہوں گے! اسلام آباد میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاجی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ مدعا لاپتا افراد کی بازیابی کا ہے۔ پیپلز پارٹی کے نواب زادہ جمال رئیسانی مقابل میں جاکر بیٹھ گئے۔ جمال رئیسانی این اے264کوئٹہ سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ مقتدر ہ کے بندے ہیں۔ نہ ہوتے تو بغیر شناختی کارڈ کے نگراں صوبائی وزیر نہ بنتے، کیونکہ انہوں نے حال ہی میں الیکشن لڑنے کی خاطر پاکستان کا شناختی کارڈ حاصل کیا ہے۔ووٹر لسٹ میں اب تک نام بھی درج نہیں ہے، اس بناءپر کاغذاتِ نامزدگی الیکشن ٹریبونل نے مسترد کردیئے۔ سرفراز بگٹی بلوچستان میں فوجی آپریشن کے پُر زورداعی اور حامی ہیں۔ وہ بیرونِ ملک بیٹھے بلوچ رہنماؤں سے بات چیت کے سخت مخالف ہیں۔چناں چہ پیپلز پارٹی نے ان سب کو اپنے ہاں اکٹھا کر رکھا ہے اور بات بلوچستان کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کرتی ہے۔ گویا یہ لوگ آصف علی زرداری کے بجائے اداروں کے حکم کے پابندہیں۔ یہاں تک کہ ثناءاللہ زہری پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مشکل وقت میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیںگے۔ پیپلز پارٹی میں حال ہی میں شامل ہونے والے کئی لوگ توٹکٹوں کی تقسیم پر بھی علیحدہ ہوگئے ہیں۔ سابق صوبائی وزراءمستونگ سے نواب محمد خان شاہوانی اور نصیرآباد سے سکندر عمرانی ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہے ہیں۔ نواب محمد خان شاہوانی نے تو پارٹی کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی تو ہے ہی باج گزار۔ اور یہ جو مسلم لیگ نواز کے اندر ایک تعداد جمع ہے وہ بھی میاں نوازشریف یاشہبازشریف کے بجائے اپنے اصل قائدین کے حکم کے تابع ہے۔ یہ جمع ہونا اور اکٹھا ہونا محض اقتدار کی چالیں اور بھاگ دوڑ ہے۔ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں خواہ بلوچستان نیشنل پارٹی ہو یا پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی یا نیشنل پارٹی.. سب پر جملہ حقائق واضح ہیں۔ 8فروری کے متوقع انتخابات کتنے شفاف اور کتنے غیر جانب دارانہ ہوں گے، یہ حقیقت ان جماعتوں پر واضح ہے۔ ان جماعتوں کی مصلحتیں بھی مخفی نہیں ہیں۔ حاضر وقت دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کے وقار کی حفاظت کا حقیقی نعرہ اگر کوئی جماعت لگارہی ہے تو وہ جماعت اسلامی پاکستان ہے۔ باقی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور مقتدرہ کی تھالی میں اکٹھی ہوتی رہی ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان ایوانِ بالا میں دستور کی بالادستی کی جنگ کے سرخیل ہیں۔