ترکیہ تو دل کی دھڑکن ہے ہی، برادر محترم ڈاکٹر خلیل طوقار سے تعلقِ خاطر اور پاکستان میں ان کی موجودگی نے اسے مزید بامعنی بنادیا ہے۔ تخلیقی مزاج رکھنے والے کسی بھی ادیب اور دانشور کی طرح وہ نازک مزاج ہیں۔ موسم اور حالات ان کی راہ روکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ دیوانوں کی طرح کام میں جتے رہتے ہیں۔ 2017ء میں وہ تشریف لائے تو لاہور میں انہوں نے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ قائم کیا۔ یوں یہاں شاندار تہذیبی گہماگہمی پیدا کردی۔ اُس زمانے میں انہوں نے جن سرگرمیوں کی بنیاد رکھی وہ ادارہ جاتی حیثیت اختیار کرگئیں۔ خوش قسمتی سے اب وہ سال بھر سے پھر پاکستان میں ہیں اور اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی شاخیں اسلام آباد اور کراچی میں قائم کردی ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں پے درپے ایسے پروگرام کیے ہیں جن کی معنویت اور ان کا تعلق ہمارے بلکہ مسلم دنیا کے حالات سے بھی غیر معمولی ہے۔ حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے علامہ اقبال اور ترک قومی ترانے کے خالق محمد عاکف ایرصوئے کے فکری مشترکات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا اور مجھے ایک ذمے داری سونپی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا اس وقت نو استعماریت کا شکار ہے۔ کیا اقبال اور عاکف کے افکار میں اس چیلنج کا جواب بھی موجود ہے یا نہیں؟ تمہیں اس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے۔
یہی ذمے داری تھی جسے پورا کرنے کے لیے مجھے ان دونوں بزرگوں کے افکار سے رجوع کرنا پڑا، اور سچ یہ ہے کہ یہ مطالعہ میرے لیے نعمت بن گیا کیونکہ یہ حقیقت پہلی بار کھل کر سامنے آئی کہ ہمارے یہاں اقبال اور ترکیہ میں عاکف کا اصل کارنامہ کیا ہے اور نواستعماریت یعنی خاص طور پر نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والے چیلنجز میں یہ دونوں بزرگ ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں۔
اقبال کے عہد سے قبل مسلم برصغیر ایک بہت بڑے نظریاتی مخمصے سے دوچار تھا۔ انگریزوں کے برِصغیر میں قوت پکڑنے اور خاص طور پر 1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانوں میں دو طرح کا ردعمل پیدا ہوا۔ اول: انگریزوں سے مکمل فاصلہ اور نئی تہذیب و ترقی اور افکار و نظریات سے لاتعلقی۔ دوم: ان کے سامنے مکمل سپردگی تاکہ وہ انہیں دشمن سمجھنے کے بجائے ان کے بارے میں مشفقانہ طرزعمل اختیار کریں۔ سرسید کی اس حکمت عملی سے سب سے بڑا اختلاف شبلی نعمانی نے کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ سرسید کی حکمت عملی یوں مناسب نہیں کہ اس کے نتیجے میں یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس نظام سے نکلے ہوئے مسلمان کا رشتہ اپنے عقیدے اور تہذیب سے کمزور ہوجائے گا۔ اس کے ردعمل میں علامہ شبلی نعمانی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ دنیا کی دیگر اقوام کی ترقی یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتی جائیں اور دنیوی ترقی کے ہر موقع سے استفادہ کریں۔ اس کے مقابلے میں مسلمان کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتا چلا جائے یہاں تک کہ صحابہ کے عہد میں داخل ہو جائے۔ مسلم برصغیر کا مسلمان ان دو نظریات کے بیچ ہچکولے کھا رہا تھا کہ اقبال کا سورج طلوع ہوا۔
ایک ممتاز مستشرق ولفرڈ کینٹ اسمتھ نے لکھا ہے کہ اقبال نے مسلمانوں کو اسی نظریاتی الجھن سے نکال کر درست راہ پر گامزن کردیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال نے یہ سوال اٹھایا کہ صحابہ کے عہد میں سانس لینا تو سعادت کی بات ہے لیکن نئے عہد کے جو چیلنجز پیدا ہو رہےہیں ان کا جواب کیا ہے؟ اس سوال کا جواب نہ جدت پسندوں کے پاس تھا اور نہ قدامت پسندوں کے پاس۔ یوں اقبال اپنے عہد کے اہلِ فکر کو ہی نہیں بلکہ عام آدمی کو بھی متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اقبال کی فکر کو چند نکات میں سمیٹا جائے تو وہ یوں ہو گی، انہوں نے اپنی قوم کو مشورہ دیا کہ وہ ردِعمل کی کیفیات سے نکلے۔ ردِعمل کی کیفیات سے کیا مراد ہے؟ اسے ہم برصغیر میں تحریک ِخلافت کے اہم واقعے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ترکیہ میں اس زمانے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے زیادہ آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے۔ ترکیہ میں مصطفیٰ کمال اتا ترک نے خلافت کا خاتمہ کر کے جدید ترکی کی بنیاد رکھی تو برصغیر میں اس کا شدید ردعمل پیدا ہوا۔ اس ردِعمل اور جذباتی کیفیت کا اندازہ تند و تیز تحریک ِخلافت سے کیا جاسکتا ہے۔ برصغیر کے صرف 3 مسلمان تھے جنہوں نے اس تحریک سے فاصلہ رکھا۔ ان میں ایک علامہ اقبال تھے جنہوں نے ترکی میں ابھرتے ہوئے نئے سورج کا خیر مقدم کیا۔ وہ جو دینی معاملات میں اجتہاد کی ذمے داری پارلیمنٹ کے سپرد کرتے ہیں، اس کا سبب بھی ترکی میں آنے والے اس انقلاب میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ تحریک ِخلافت سے دور رہنے والی دوسری 2 شخصیات میں قائداعظم محمد علی جناح اور مولانا اشرف علی تھانوی تھے۔
اقبال اپنی قوم کو صرف جذبات کی آندھی سے ہی بچانا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ اسے مسلح تصادم میں الجھنے سے بھی روکتے تھے۔ 1857ء کا واقعہ ہو یا تحریک مجاہدین کی شدت پسندی، وہ ہر دو کو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلے میں انہوں نے جو تصور پیش کیا اس کی بنیاد ابن ماجہ کی اس حدیث پر رکھی کہ دانائی مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی تہذیب اور عقیدے کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے جدید ترین تعلیم حاصل کرے اور علم کی اس طاقت کو وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرے۔ اسی طرح وہ اپنی قوم کو آئین اور قانون کی پابندی کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے :
دہر میں عیش و آرام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
بالکل اقبال ہی کی طرح ترکیہ میں محمد عاکف ایرصوئے نے بھی اپنی قوم کو یہی راہ دکھائی۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنی قوم کی توجہ غیر دانشمندانہ جوش و خروش اور مسلح تصادم سے آئینی اور پارلیمانی جدوجہد کی طرف مبذول کرا دی اور اسی مقصد کے لیے قائداعظم کو لندن سے واپس لائے۔
اقبال اور عاکف کو جسمانی طور پر گزرے ایک صدی گزرتی ہے۔ اس عرصے میں دنیا میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں، خاص طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد۔ نائن الیون کے واقعات اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں القاعدہ اور تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اسی قسم کا مزاج رکھنے والی بہت سی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ٹی ٹی پی وغیرہ کو بھی اسی ذیل میں رکھنا چاہیے۔ یہ لوگ بھی ماضی کی طرح دیوار سے سر ٹکرا دینے پر یقین رکھتے ہیں اور اس نظریے کو باطل بلکہ کفر قرار دیتے ہیں جو انہیں فہم و فراست کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دے۔ اس طرز عمل نے مغربی طاقتوں کے لیے بہت آسانی پیدا کردی ہے، بالکل اسی طرح جیسے 1857ء کی جنگ ِآزادی کے بعد انگریزوں کو یہ آسانی میسر آ گئی تھی کہ وہ اپنے مخالفین خاص طور پر مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں۔ لہٰذا ماضی میں جس اقبال اور عاکف نے بتایا تھا کامیابی غیظ و غضب کے بجائے دانشمندی اور علم و حکمت میں ہے، بالکل اسی طرح موجودہ عہد میں بھی کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ موجودہ دور میں مسلمانوں کے مسلح گروہوں نے افغانستان، عراق، شام، پاکستان، حتیٰ کہ غزہ، فلسطین اور اسرائیل میں بھی زور آزمائی کر کے دیکھ لی۔ نتیجہ سوائے تباہی کے اور کیا نکلا؟ مسلمانوں کے لیے نجات کی راہ آج بھی وہی ہے جس کی نشاندہی صدی بھر قبل اقبال نے یہاں اور ترکیہ میں عاکف نے کی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا میں شعوری سطح پر ایسی تحریک پیدا کی جائے۔ یہی تحریک انہیں تباہی کے راستے سے ہٹا کر کامیابی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔
(اتوار 7 جنوری 2024)