آپ قائدآباد، گولیمار، لالوکھیت اور ہزاروں فٹ پاتھ کی جھونپڑیوں کی طرف سے ایک مرتبہ گزر جایئے، کیڑوں مکوڑوں کی طرح بچوں کی ایک بڑی تعداد آپ کو دوڑتی بھاگتی، گالیاں بکتی اور نالیوں میں لوٹتی نظر آئے گی۔
وہ ایک دوسرے پر کیچڑ پھینکنے اور مارکٹائی میں مصروف ہوں گے۔ ممکن ہے ان میں کوئی نواب زادہ، کوئی خواجہ زادہ، کوئی امیرزادہ اور کوئی شہزادہ نہ ہو۔ لیکن وہ سب آدمی زادے ہیں!
وہ سب غریب زادے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان غریبوں کے لیے بنا ہے، یہ غریبوں کا ہے، لیکن ان کے لیے کوئی مدرسہ نہیں، کوئی تربیت گاہ نہیں، اور جو برائے نام کچھ ہیں بھی تو ناکافی، اور جن کی فیس غریب زادے یقیناً ادا نہیں کرپاتے۔ جہاں پہنچ کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن یہ محسوس کرسکیں کہ یہ ایک مہذب ملک کے باشندے اور ایک شائستہ قوم کے فرد ہیں۔ وہ دور سے ثروت اور دولت کے نظارے دیکھتے اور خود کو ایک ذلیل دنیا میں محسوس کرنے لگتے ہیں اور شدید ترین کمتری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے!! ”وزیراعظم…ہاں وزیراعظم… کیسا ہوتا ہے وزیراعظم…!!‘‘ وہ وزیراعظم کو اپنا بھائی نہیں اپنا خدا سمجھنے لگتے ہیں جس نے ان کے باپوں کو جھونپڑیاں الاٹ کردی ہیں اور جو انہیں بیک جنبش نظر جیل بھیج سکتا ہے!! وہ یقیناً محسوس کرتے ہیں کہ ’’حکومت‘‘ ان سے تعاون نہیں کررہی ہے، اور خود کو حکومت سے تعاون پر نہیں اس سے ڈرنے پر مجبور پاتے ہیں، اور یہ ڈر انہیں حکومت سے متنفر کردے گا۔ قانون انہیں سزا دے سکتا ہے، محبت پر مجبور نہیں کرسکتا۔ وہ بڑے ہوکر تفوق و برتری حاصل کرنے کے لیے (جو ہر انسان کی فطرت ہے) صرف قتل و غارت، چوری ڈاکہ اور وہ سارے جرائم کرسکتے ہیں جو انہیں ان کی نظروں میں ہیرو بنادیتے ہیں۔ وہ قیادت، وزارت اور سفارت کے خواب دیکھنا جانتے ہی نہیں۔ بقول الفرڈاڈلر کے: دنیا کا ہر جرم فرد میں تعاون کی کمی اور حصولِ برتری کا نتیجہ ہوتا ہے!!
یہی آج کے بچے کل بڑے ہوکر پاکستان کے شہری بھی بنیں گے اور سپاہی بھی۔ یہ جن سانچوں میں ڈھل چکے ہیں اور ان کا طرزِ زندگی جو خاص شکل اختیار کرچکا ہے اس سے کوئی اچھی توقع رکھنا ممکن ہے دلچسپ ہو، لیکن سچ یقیناً نہیں ہوسکتی!
کراچی کے روزناموں میں جرم و گناہ کے جو واقعات روزانہ پڑھے جاتے ہیں اکثریت ان جھونپڑیوں اور فٹ پاتھوں ہی کی ہوتی ہے۔ کیا موجودہ ماحول میں ان میں کسی کمی کی امید کی جاسکتی ہے؟ یقیناً صحیح طریقوں پر غور و فکر کرنے والے اربابِ شعور ان میں بہت زیادہ اضافوں کی امید رکھتے ہیں!
آج ان جھونپڑیوں اور فٹ پاتھوں پر رہنے والوں کو نظر انداز بھی کردیجیے، لیکن کل ان کی اولاد کا کیا ہوگا؟
یہ فٹ پاتھوں اور جھونپڑیوں میں پرورش پائے ہوئے بچے بڑے ہوکر شدید ترین جنسی طوفانوں اور عظیم ترین مجرمانہ ہیجانوں کے ذہنی و نفسی مریض ہوں گے۔ یہ اپنی جنسیت و مجرمیت کے اظہار و آسودگی میں سماج سے کوئی مروت روانہ رکھیں گے، اس لیے کہ اپنی آنکھوں سے کلیوں کو جھومتے اور گلوں کو لچکتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ ان کو قطعاً کوئی احساس نہیں ہوگا کہ ’’پردگی‘‘ بھی کوئی رسم ہوتی ہے۔ جذبات کو دبا لینے اور اعمال کو چھپا لینے کا بھی کوئی مقام ہوتا ہے!
اڈلر آدمی کے طرزِ حیات پر بڑا زور دیتا ہے، اس کا خیال ہے کہ چوروں، ڈاکوئوں، لچّوں کے جرائم کی صرف یہ وجہ ہے کہ ان کا طرز زندگی غلط ہے، اور یہ کہ انہوں نے زندگی کے معنی غلط سمجھے ہیں!
آدمی پر بلاواسطہ کوئی ایسی وحی نازل نہیں ہوتی کہ وہ زندگی کے صحیح معنی سمجھ لے۔ وہ جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے اپنے ماحول سے اخذ کرتا ہے۔ پھر یہ کہ اسے جو کچھ ملتا ہے اس کا بیشتر حصہ آدمی اپنی عمر کے ابتدائی پانچ چھ سال میں حاصل کرلیتا ہے، اور انہی تجربات کی روشنی میں اپنی ساری زندگی کا محل تعمیر کرتا ہے۔ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ لامکانیاں اور یہ بے سروسامانیاں ہمارے بچوں کو زندگی کے کوئی اچھے معنی سمجھا رہی ہیں اور آئندہ جوانیوں کی جولانیاں انہیں کسی ’’اچھے ڈھرے‘‘ پر ڈالیں گی!
اگر یہ مسئلہ چند دنوں یا چند مہینوں کا ہوتا تو لوگ جبلتوں کا منہ اخلاقی قدروں کے دھاگوں سے باندھے رکھتے، لیکن برسوں کی مدت! آخر یہ کچے دھاگے کب تک مضبوط ثابت ہوں گے!!
(سائیکولوجی، جون 1952ء)
مجلس اقبال
اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تُو
ترے لیے ہے میرا شعلہ نوا قندیل
علامہ اقبال امت ِ واحدہ یا ملّتِ اسلامیہ کی متحدہ قوت سے کٹے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ میرے کلام سے رہنمائی حاصل کرو، اس لیے کہ غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اپنے ملّی قافلے سے کٹ کر تم قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ ایسے میں میرے کلام کی روشنیاں چراغِ راہ بن کر تمہاری رہنمائی کرتی اور تمہارے دلوں کو ایمانی جذبوں اور آزادی کے لطف سے روشناس کراتی ہیں۔ یوں وہ اپنے اشعار کو اندھیری راہ میں جذبے اور روشنیاں بخشنے والے چراغ قرار دیتے ہیں۔