(چوتھی قسط)
انسانی حقوق کے تناظر نے اسرائیل کے حقِ دفاع سے متعلق دعووں کو مزید بے وزن کردیا۔ مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق سے متعلق اسرائیل کے مرکزِ اطلاعات B’Tselem نے یکم جنوری سے 26 دسمبر 2008ء کے درمیان مرتب کی جانے والی رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے 455 فلسطینیوں کو ہلاک کیا جن میں سے 175 غیر متحارب یعنی سویلین تھے۔ دوسری طرف حماس اور دیگر گروپس کے فلسطینی جاں بازوں نے 31 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا جن میں 21 سویلین تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے حقِ دفاع کے تحت اسرائیل نے حماس کے خلاف جو جنگی کارروائیاں کیں اُن میں مارے جانے والے افراد کا تناسب 1:15 تھا، یعنی مجموعی طور پر اسرائیلی فورسز نے ایک اسرائیلی کے عوض 15 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ سویلین ہلاکتوں کا تناسب 1:8 تھا، یعنی ایک غیر متحارب اسرائیلی کے عوض 8 غیر متحارب فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا۔ 2008ء میں اسرائیلی قابض فورسز نے صرف غزہ میں بمباری سے 158 غیر متحارب فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ حماس کے راکٹ حملوں سے صرف 7 غیر متحارب اسرائیلی مارے گئے۔ 2006ء میں فلسطینیوں نے صرف ایک اسرائیلی فوجی کو یرغمال بنایا تھا جبکہ اسرائیل نے کم و بیش 8 ہزار فلسطینیوں کو سیاسی قیدی کے نام پر حراستی مراکز میں رکھا۔ ان میں 60 خواتین اور390 بچے بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر 548 فلسطینیوں کو، کوئی الزام عائد کیے بغیر، حراستی مراکز میں رکھا گیا۔ ان میں سے 42 کو2 سال سے بھی زائد مدت کے لیے زیرِ حراست رکھا گیا۔ غزہ میں مزاحمت کا گلا گھونٹنے کے نام پر اسرائیلی فورسز نے جو اقدامات کیے وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مشتمل تھے۔ دنیا بھر کے مبصرین اور تجزیہ کاروں نے اتفاقِ رائے سے کہا کہ فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دی گئی ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ستمبر 2008ء میں عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں کہا کہ غزہ کا علاقہ کبھی تجارتی مرکز تھا مگر اب ایسی چار دیواری میں تبدیل ہوچکا ہے جو صرف عطیات کی بنیاد پر جی رہی ہے۔ اُسی سال دسمبر کے وسط میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے رابطہ کار دفتر (OCHA) نے بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے غیر معمولی ناکہ بندی جیسی کیفیت نے غزہ میں انسانی احترام کے حوالے سے ایسا بحران پیدا کردیا ہے جس کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں، معیارِ زندگی برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے اور بنیادی ڈھانچا انتہائی نوعیت کی تباہی سے دوچار ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ غزہ کے باشندے بنیادی اشیاء و خدمات کے شدید فقدان کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آج اگر غزہ کے شہریوں کو روزانہ 16 گھنٹے تک بجلی سے محروم رہنا پڑتا ہے، ہفتے میں ایک بار صرف چند گھنٹوں کے لیے ایسا پانی آتا ہے جس کا 80 فیصد حصہ پینے کے قابل نہیں اور جسے پی کر لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں، آج اگر غزہ کا ہر دوسرا شہری بے روزگار ہے اور خوراک کی شدید قلت سے دوچار ہے، اگر غزہ میں 20 فیصد انتہائی ضروری دواؤں کا اسٹاک صفر کے مقام پر ہے، آج اگر غزہ کے 20 فیصد مریض کینسر اور اختلاجِ قلب میں مبتلا ہیں، آج اگر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور انہیں علاج کے لیے غزہ سے نکل کر کسی اور ملک جانے کی سہولت فراہم نہیں کی جارہی، اور اگر آج غزہ کے شہریوں کا زندگی سے تعلق محض ایک دھاگے جیسا رہ گیا ہے تو اِس کا سبب اسرائیلی فورسز کی طرف سے غزہ کا محاصرہ ہے۔ رپورٹ کے آخر میں OCHA نے لکھا کہ آج غزہ کے شہری خود کو ہر اعتبار سے محصور اور محبوس سمجھنے پر مجبور ہیں۔ اگر 2008ء کی انسانی حقوق کی بیلنس شیٹ کا جائزہ لیا جائے اور اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کو بھی ایک طرف ہٹادیں تو کیا اسرائیلیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کا اپنے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانا زیادہ باجواز نہ تھا؟
دوسرا باب : ردِ عرب، ردِ امن
آپریشن کاسٹ لیڈ اسرائیل کے لیے تعلقاتِ عامہ کے حوالے سے ایک بہت بڑی ناکامی پر منتج ہوا۔ جو کچھ بھی اسرائیلیوں نے کیا اُس سے ہٹ کر اور اُس کے برعکس بھی وہ ایسا بہت کچھ کرسکتے تھے جس سے معاملات نہ بگڑتے اور امن یوں تباہ نہ ہوتا۔ مغربی میڈیا، تجزیہ کار اور سفارت کار غزہ میں بہت بڑے پیمانے پر واقع ہونے والی ہلاکتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کو نظرانداز نہیں کرسکتے تھے۔ اسرائیل نے اپنا دفاع ممکن بنانے کے نام پر جو کچھ بھی کیا اُس کے نتیجے میں بیرونِ ملک اُس کی ساکھ خراب ہوئی اور اُس کے خلاف شدید ردِعمل بھی آیا۔ یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ غزہ میں اس قدر تباہی کا بنیادی مقصد ووٹ بینک مضبوط بنانا تھا۔ اور غزہ پر اسرائیلی لشکر کشی کے دوران اسرائیل میں رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا کہ 90 فیصد اسرائیلی حماس کو نشانہ بنانے اور غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوںکے حق میں تھے۔ اسرائیلی فورسز کے آپریشن کاسٹ لیڈ کو اسرائیلی عوام کی اکثریت کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ دی ایسوسی ایشن فار سول رائٹس اِن اسرائیل نے بعد میں کہا کہ غزہ کے معاملے میں ضبط و تحمل سے کم ترین سطح پر کام لیا گیا۔ اسرائیلی صحافی گڈین لیوی نے کہا کہ اسرائیل نے ڈھائی سال قبل، جب انتخابات کا موسم نہ تھا، لبنان کے خلاف ایسی ہی جنگ چھیڑی تھی۔ بات دراصل یہ ہے کہ اسرائیل نے چند عشروں کے دوران جس طرح کی کارروائیاں فلسطینیوں کے خلاف کی ہیں اُنہیں دیکھتے ہوئے کوئی بھی غیر جانب دار مبصر اِسی نتیجے پر پہنچے گا کہ شاید سیاسی فائدہ اٹھایا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر لشکرکشی کا بظاہر انتخابات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک طرف تو فلسطینیوں کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ اُن کی طرف سے جارحیت کسی بھی حال میں اور کسی بھی سطح پر برداشت نہیں کرے گی، اور دوسری طرف وہ فلسطینیوں کی ایسی سفارت کاری کو قبول کرنے کو تیار نہیں جس کا بظاہر صرف یہ مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طور اسرائیل کو جھکایا جائے۔ نیویارک ٹائمز کے مشرق وسطیٰ کے نمائندے اور تجزیہ کار ایتھان برونر نے لکھا کہ اسرائیلی حکمراں طبقے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ اسرائیل کے دشمن اُسے کمزور سمجھ رہے ہیں اور اُس کے خلاف جارحیت پر بھی تُل سکتے ہیں، اس لیے اُنہیں بتانا لازم تھا کہ اسرائیل اب بھی طاقتور ہے اور اُس کے خلاف کسی بھی سطح کی اور کسی بھی نوعیت کی جارحیت کے بارے میں سوچنے سے پہلے اُس کا انجام سوچ لیا جائے۔ 1967ء میں عرب ریاستوں سے جنگ کے بعد سے اب تک اسرائیل کے نظریۂ دفاع میں ردِّ جارحیت کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسرائیلی پالیسی ساز لشکرکشی پر تُل جانے کے مقابلے میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ دشمنوں کو مرعوب رکھا جائے، اور اس کے لیے وقتاً فوقتاً عسکری کارروائیاں ناگزیر ہیں۔ غزہ کے خلاف اسرائیلی فورسز کی کارروائیاں بھی اِسی سیاق و سباق میں ہیں۔ 1967ء کے بعد سے اب تک اسرائیل کی ہر حکومت اس بات کے لیے کوشاں رہی ہے کہ کسی نہ کسی طور فلسطینیوں اور تمام پڑوسیوں کو یہ پیغام دیا جاتا رہے کہ اسرائیل طاقتور ہے اور اُس کے خلاف کسی بھی نوع کی جارحیت سے قبل انجام کے بارے میں ضرور سوچا جائے۔ 1967ء میں بھی عام اسرائیلی تھوڑا بہت ذہنی دباؤ محسوس کررہے تھے، تاہم ملک کے وجود کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہ تھا۔ جب اسرائیل نے مئی 1967ء میں شام پر حملے کی تیاری کی تب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے سینائی کے علاقے میں فوجیں تعینات کردیں اور اعلان کیا کہ آبنائے طیران سے اسرائیلی جہازوں کو گزرنے نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ مصر نے چند ماہ قبل ہی شام سے دفاعی معاہدہ کیا تھا۔ اس اقدام پر اسرائیلی وزیر خارجہ ایبا ایبان نے کہا کہ اس محاصرے کے باعث اسرائیلی ایک پھیپھڑے سے سانس لینے پر مجبور ہیں۔ ویسے اُس زمانے میں اسرائیل تیل منگوانے کے سوا، جس کا اچھا خاصا ذخیرہ اس کے پاس تھا، آبنائے طیران کا کچھ خاص استعمال کرتا نہیں تھا۔ مصر نے آبنائے طیران سے اسرائیلی جہازوں کو گزرنے نہ دینے کا اعلان ضرور کیا تھا تاہم اس فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا، اور اعلان کیے جانے کے بعد بھی کئی دن تک وہاں سے اسرائیلی جہاز گزرتے رہے۔ ایسے میں اسرائیل کا یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد تھا کہ اُسے مصر کی طرف سے حملے کا خطرہ لاحق تھا۔ امریکہ کے کئی خفیہ اداروں نے اپنی جامع رپورٹس میں بتایا تھا کہ مصر کا اسرائیل پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا، اور اگر وہ تنہا یا چند عرب ممالک کو ساتھ ملاکر ایسا کرتا بھی تو اسرائیل میں اِتنی طاقت تھی کہ وہ مصر کو، اُس وقت کے امریکی صدر لِنڈن بی جانسن کے الفاظ میں، اچھی طرح سبق سکھا سکتا تھا، اُس کے سارے کَس بَل نکال سکتا تھا۔ یکم جون 1967ء کو اسرائیل کی مرکزی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ نے امریکی حکام کو بتایا کہ امریکی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کی سیکورٹی رپورٹس اور ان کی تشریح کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ خود اسرائیل کو بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ مصر کے صدر جمال عبدالناصر لشکر کشی کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، اور اگر مصری افواج کو حملے کا حکم دے بھی دیتے تو اسرائیل منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں تھا۔ اسرائیل کا مسئلہ کچھ اور تھا۔ اس وقت عرب دنیا میں قوم پرستی نقطۂ عروج پر تھی۔ جمال عبدالناصر اور ان کے ہم خیال قائدین نے پوری عرب دنیا میں یہ تاثر عام کردیا تھا کہ اسرائیل کسی بھی اعتبار سے کوئی بڑا خطرہ نہیں اور اُس سے ڈرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ اسرائیلی قیادت کو یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں اس تاثر اور تصور سے متاثر ہوکر اس کے خلاف لشکرکشی کا نہ سوچا جائے۔ ایسے میں لازم ہوگیا تھا کہ عرب دنیا کو اسرائیل بتائے کہ اُس میں اب بھی بہت دم خم ہے اور وہ کسی بھی قسم کی اور کسی بھی سطح کی جنگ لڑنے کی سکت رکھتا ہے۔ ڈویژنل کمانڈر ایریل شیرون نے حملے میں پہل کرنے کے حوالے سے کابینہ کے چند ارکان کی طرف سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے پر اُنہیں لتاڑا اور کہا کہ اسرائیل نے بڑھ کر حملہ نہ کیا تو یہ تاثر مستحکم ہوجائے گاکہ اُس کی ردِّ جارحیت کی صلاحیت اِتنی کمزور پڑچکی ہے کہ اب کوئی بھی اُسے آسانی سے نشانہ بناسکتا ہے۔ ایریل شیرون کا کہنا تھا کہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار یہ ہے کہ اہلِ عرب کے دلوں میں ہمارا خوف بیٹھا رہے۔ اسرائیلی حکومت اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کا خوف ہی عربوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتا ہے۔ (جاری ہے)