قومی زبان اردو نافذ کرکے ہم پاکستان کے تصور اور قیام کو مکمل کرسکتے ہیں
تحریک و قیام پاکستان اور ان کی بنیادوں اور ان کے اسباب و پس منظر پر 1947ء اور اس کے بعد ہی نہیں بلکہ قریباً سو سالوں سے اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ ان سب کی اگر بالارادہ فہرست بھی بنانا چاہیں تو یہ کام ناممکن رہے گا۔ تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کو تو جو کامیابی ملنی چاہیے تھی وہ ایک حد تک ملی ہے، لیکن جو ملک پاکستان کے نام پر بنا ہے یہ اپنے حقیقی نظریے اور اس کے مقاصد کے مطابق ہرگز نہیں۔ جب تک اسلامی نظریے کے مطابق اس ملک کی تشکیل نہیں ہوتی اور یہاں اسلامی نظریۂ مملکت قائم نہیں ہوتا اس ملک کو قیام پاکستان سے قبل اور تشکیل کے عرصے میں موجود نظریے اور مقاصد کے مطابق نہیں دیکھا جاسکتا۔
اسی لیے اس ملک کی قومی زبان کے پسِ پشت بھی ایک واضح نظریہ کہ اس ملک کی قومی زبان اردو ہوگی، قیامِ پاکستان سے قبل ہی ایک واضح نظریے کے طور پر مسلمہ حیثیت اختیار کرچکا تھا، چناں چہ قیام پاکستان سے قبل ہی قائدین و رہنماؤں کا یہ پختہ یقین و نظریہ رہا کہ اس ملک کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ اس بارے میں کبھی کسی جانب سے کوئی ابہام یا اختلاف نمایاں نہیں رہا، اور روزِ اوّل سے اردو زبان ہی بطور قومی زبان اس ملک کی بنیاد میں شامل نظریہ رہا۔ قومی زبان یا اردو کا نفاذ یا اسے پاکستان کی قومی زبان بنانے کا نظریہ بھی نظریہ پاکستان کی طرح ایک محکم و مستحکم نظریہ رہا ہے، لیکن پاکستان کے قیام میں تو قوم کا باشعور طبقہ ہی نہیں عوام بھی مستعد و سرگرم رہے اور قیام کو ایک حقیقی روپ دینے میں بالآخر کامیابی حاصل کی، لیکن یہی عوام قومی زبان کے نفاذ میں بوجوہ وہ کامیابی کماحقہ حاصل نہ کرسکے جو اس کا حق تھا۔
ویسے ایک زاویہ نظر سے دیکھیں تو قیام پاکستان تو کامیابی کی منزل پاچکا ہے لیکن اپنے حقیقی مقصد کے حصول یا اسلامی مملکت بننے کے مرحلے سے ابھی بہت دور ہی ہے، اور ملک کی موجودہ قیادت کے اسلام اور اسلامی معاشرت و شعائر کے درمیان واقع فاصلوں کو دیکھتے ہوئے کہا نہیں جاسکتا کہ یہ ملک اسلام کے مکمل نفاذ کی منزل تک اندریں حالات کبھی پہنچ سکے گا۔ کچھ ایسی ہی بے اطمینانی قومی زبان کے نفاذ کے تعلق سے بھی ہے۔ راقم الحروف نے جب جب موقع ملا ہے یا ضرورت محسوس کی ہے اس موضوع پر یا نفاذِ اردو کی ضرورت پر چھوٹے بڑے پیمانے پر بہت کچھ لکھا ہے جو مضامین، مقالات اور کتابوں کی صورت میں ان چالیس پچاس سالوں میں چھپتا رہا ہے۔ اس موضوع پر لکھنے کا باقاعدہ آغاز تو اپنے پی ایچ ڈی کے سندی مقالعے بعنوان: ”تحریکِ آزادی میں اردو کاحصہ“ (1975ء)اور جس کی تمہید میں بھی ایک مقالہ ایم اے اردو کے لیے ”تحریکِ پاکستان کا لسانی پس منظر“(1969ء) لکھا اور پھر متعدد چھوٹے بڑے متنوع مضامین و مقالات میں یہ تسلسل جاری ہی رہا، اور اب بھی کسی حد تک جاری ہے۔ دیگر متعدد اہلِ قلم، دانشور اور مفکرین و ماہرینِ اردو نے بھی متعدد صورتوں میں اردو کے نفاذ کے موضوعات پر اس کی حمایت و تائید میں بہت کچھ لکھا ہے اور یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں، اب بھی جاری ہے۔ کیوں کہ متعلقہ اربابِ اختیار، محکمے اور وزارتیں سب اس کے نفاذ کے لیے کماحقہ مستعد و سنجیدہ نہیں، اسی حوالے سے ڈاکٹر حسیب احمد صاحب نے بھی ایک نہایت پُراثر اور اردو کے نفاذ کے جواز و پس منظر اور ضرورت و اہمیت پر ایک بے حد مدلل کتابچہ: ”اردو کا نفاذ ناگزیر کیوں؟“ تحریر کیا ہے اور اپنے مطالب و مباحث پر اس موضوع پر موجود متعدد طویل و مختصر کتابوں اور مضامین و مقالات کے منظرعام پرآنے کے باوجود لکھا ہے اور واقعتاً موضوع اور مقاصد کا حق ادا بھی کردیا ہے۔
صاف لگتا ہے کہ موصوف نے اپنے اس مقصدِ اولیٰ کی کامیابی کی خاطر باقاعدہ ایک ادارہ: ”تحریکِ نفاذِ اردو پاکستان“ تشکیل دیا ہے، اور اس ادارے کے تحت اپنے رفقاءکے ساتھ مل کر اس تحریک کی کامیابی کے لیے عملی جدوجہد بھی روا رکھی ہے۔ مذکورہ بالا کتابچہ ان کے اسی ادارے کے تحت شائع ہوا ہے، اور اس ادارے کے قیام و پس منظر اور مقاصد و مدعا کو پیش کرنے کے ایک بنیادی وسیلے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ کتابچے کی پشت پر سب سے پہلے تو مولانا اشرف علی تھانوی کا 1939ء میں اردو زبان کی حفاظت و ترقی کے مقصد سے جاری کردہ وہ معروف فتویٰ تحریر کیا گیا ہے جو اُس زمانے میں بڑی شہرت کا حامل رہا اور بالعموم اب نایاب سمجھا جاتا تھا۔ اس فتوے کے بعد قائداعظم کے دو فرامین جو انھوں نے 21 اور 24 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیے تھے، اردو کے بطور قومی زبان نفاذ کے لیے بہترین اور نہایت مؤثر دلائل ہیں۔ پھر اس باب میں بطور تکملہ آئینِ پاکستان کی وہ شق نمبر 251بھی درج کردی ہے جس کے بعد کسی مزید دلیل یا شہادت کی ضرورت بظاہر نہیں رہتی۔ یہ کتابچہ بہت مختصر اور محض 16 صفحات پر مشتمل ہے جو فروری 2005ء میں قائم ”تحریکِ نفاذِ اردو“ کے اہتمام سے شائع ہوا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ جن اکابر نے اس تحریک کا اجرا کیا، ان میں ڈاکٹر سید مبین اختر کسی تعارف کے محتاج نہیں، اردو زبان کے نفاذ کے لیے ان کی مستقل اور مخلصانہ کوششیں اور جدوجہد بے مثال اور سبھی میں معروف رہی ہے اور وہ ایک دنیا کو متاثر کرتے رہے ہیں۔ یہ کاوش اس عمل کی ایک انتہا ہے۔ اس کتابچے کے سرورق کے اولین صفحے پر ‘”تحریکِ نفاذِ اردو“ کا تعارف تحریر کیا گیاہے اور قارئین کو دعوتِ فکروعمل دی گئی ہے جو حد درجہ معنی خیز اور متاثر کن ہے۔ اس عبارت کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ”ملک کی بقا اور مثالی ترقی کے لیے ذریعۂ تعلیم اردو ناگزیر ہے“۔ یہ سارا صفحہ جو تعارف اور دعوتِ فکر و عمل کے لیے مخصوص کیا گیا ہے خاص طور پر نوجوان قارئین کے لیے نہایت فکر انگیز اور سبق آموز ہے۔
کتابچے کے اختتامی سرورق کے اندرونی صفحے پر بھی اسی طرح نہایت معنی خیز عبارتیں تحریر ہیں جن کا سرعنوان یوں ہے کہ: پاکستان کی 90 فیصد آبادی جو کہنا چاہتی ہے کہہ نہیں سکتی! جو سمجھنا چاہتی ہے، سمجھ نہیں سکتی! کیوں کہ اُس کی زبان اردو ہے، جب کہ اقتدار کے ایوانوں کی زبان انگریزی، جو پاکستان کی اکثریت نہ بول سکتی ہے اور نہ ہی سمجھ سکتی ہے۔
قومی زبان کے نفاذ کی ضرورت و اہمیت پر مشتمل اس طرح کے فکرانگیز اور غور طلب موضوعات پر اظہارِ خیال کے بعد آخری دو صفحات پر فاضل مصنف نے ”نفاذِ اردو کے سلسلے میں کرنے کے کام“ کے بارے میں اپنی نہایت مناسب اور موزوں تجاویز درج کی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر اردو کے نفاذ کے عمل کو حقیقی روپ دیا جاسکتا ہے اور اردو مؤثر صورت میں ملک و معاشرے میں نافذ ہوسکتی ہے یا اپنا جائز مقام حاصل کرسکتی ہے۔ ایسے موضوعات اور مطالب کی حامل یہ تحریر اردو کی بطور قومی زبان تائید و حمایت کے بارے میں ایسے دلائل و خیالات کو پیش کرتی ہے جو حد درجہ موافق اور مؤثر ہیں۔ صورتِ حال، مسائل و امکانات اور ضرورتوں کے تعلق سے اس تصنیف میں جو کچھ تحریر کیا گیا ہے وہ اس موضوع پر موجود سیکڑوں ہزاروں صفحات پر مشتمل کتابوں میں اس قدر عمدگی اور سلیقے کے ساتھ نظر نہیں آتا جو اس مختصر ترین کتابچے میں سمیٹ دیا گیا ہے، جس سے استفادہ بھی آسان ہے اور جو اپنے موضوع اور مقصد کا حق ادا کرنے میں ہر طرح کامل و متاثر کُن ہے، بلکہ اس قابل بھی ہے کہ جو افراد اردو یا قومی زبان کے نفاذ کے حق میں ہیں وہ اس کتابچے کو حاصل کرکے اپنے طور پر اس کی اشاعت کرکے عام طور پر تقسیم کریں اور ہر پاکستانی تک اسے پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یہ مثبت و مؤثر کام افراد بھی کرسکتے ہیں اور ادارے بھی۔