نقاط19 (جولائی 2023ء) نئے ادب کا ترجمان (ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے) خصوصی شمارہ

’نقاط‘ کے اس خاص شمارے کو اس اہم سوال کے لیے وقف کیا گیا کہ ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اگرچہ یہ شمارہ خالص ادب کا نمائندہ نہیں مگر اس شمارے کے اِس سوال کا ادب سے گہرا اور بنیادی تعلق ہے۔ ہمارے خواب، ہماری خواہشیں اور مقاصد سب اسی ایک مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دانش ور حضرات نے جن مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، ان سب پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔

ہم بہ حیثیت سماج ہر لمحہ تاثراتی اور جذباتی صورتِ حال میں گھرے رہتے ہیں، اور یہ ہم سب کا روزمرہ کا مسئلہ اور تجربہ ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بنیادی مسائل کا تعین خالصتاً فلسفیانہ کارگزاری ہے۔ فلسفیانہ عمل اپنی اصل میں منطقی اور عقلی ہوتا ہے، جو تاثر کے مقابلے میں زیادہ گہرا، عمیق اور معروضی ہے۔ ہمارے بہت سے سرسری مسائل شاید وقتی اہمیت کے باوجود بنیادی مسائل نہیں ہیں۔

ظواہر سے اصل تک رسائی کا مطالبہ ہر سماج میں دانش ور طبقے کی موجودگی کا جواز ہے۔ دانش ور سماجی حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور مختلف ظواہر کی تہہ میں کارفرما آئیڈیالوجی تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ دانش ورانہ سطح پر مسائل کی شناخت کا مرحلہ متنوع فکری تناظرات کا حامل ہوسکتا ہے۔ زندگی کی رنگارنگی اور خود سماجی مسائل کی پیچیدگی، رسائی کے مختلف النوع فکری طریقوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس شمارے کے محتویات میں ڈاکٹر ناصر عباس نیرنے ہمارے سماج کے بنیادی مسائل کی طرف گہرائی سے راہ نمائی فرمائی ہے۔ سید کاشف رضا نے زندگی کے ایک منفی اور قدامت پرستانہ رویّے کو پاکستانی سماج کا بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے۔ افتخار بیگ اور توقیر ساجد کھرل بھی ذہنی پسماندگی کو بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ نعیم بیگ نے تعلیمی فقدان سے جنم لینے والی صورتِ حال پر بات چیت کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق عادل مسائل کی اصل وجہ طاقت ور طبقات کے منفی اثرات کو قرار دیتے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ریاست اپنے عوام پر جو ذمہ داریاں عائد کرتی ہے، ان کے بدلے میں وہ انہیں کچھ یقین دہانیاں کراتی ہے جیسے جان کے تحفظ کی یقین دہانی، روٹی، کپڑا اور مکان کے تحفظ کی یقین دہانی وغیرہ۔ عوام ان یقین دہانیوں پر اعتماد کرکے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں لیکن طاقت ور طبقات کو اپنے دیئے ہوئے وسائل پر اللے تللے کرتے دیکھتے ہیں تو ان میں ایک خوف ناک احساس جنم لیتا ہے، یہی احساس ہے جس کے نتیجے میں عوام کا اپنے ملک پر ملکیت کا احساس کمزور ہوتے ہوئے بالآخر معدوم ہوجاتا ہے۔ طارق ہاشمی نے غیر تخلیقی ماحول کو مسائل کی بنیاد قرار دیا ہے۔ نسیم سید نے سماج میں مکالمے کی تہذیب سے ناواقفیت پر توجہ مرکوز کی ہے۔ حفیظ خان مایوسی، جب کہ آغا ندیم سحر مایوسی اور اس کے نتیجے میں خودکشی کو بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ حمزہ یعقوب نے سماجی بیگانگی کے نتیجے میں افراد کے باہمی بیگانہ پن کو بنیادی مسئلہ قرار دیا ہے۔ افشاں نور نے تنہائی کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ ضیا المصطفیٰ ترک نے سماج میں فرد کے انہونی خوف کو بنیادی موضوع بنایا ہے۔ تنویر زمان نے منصوبہ بندی کے فقدان کو مسئلہ قرار دیا ہے اور صائمہ کاردار نے اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر زور دیا ہے۔ محمد علی سید نے عدالتی نظام کی کمزوریوں کو آشکار کیا ہے، جب کہ سید عون ساجد نے قانون شکن ذہنیت کو مسئلہ قرار دیا ہے۔ عثمان اعجاز اور منظور اعجاز نے کمزور معیشت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو بہت اہم مسئلہ لکھا ہے۔ فارینہ الماس نے مذہبی انتہا پسندی کے رویّے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یاسر اقبال مسالک میں بکھری ہوئی قوم کا المیہ بیان کرتے ہیں۔ فیاض ندیم اپنی نسلوں کی خودغرضانہ تربیت کا بڑوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ تقی سید، حنا جمشید، صفیہ حیات، اصغر بشیر، محمد شعیب، نوید نسیم، پروین طاہر، عبداللہ اور قاسم یعقوب نے ہمارے بنیادی مسائل کو بہت سلجھے ہوئے اور آسان انداز میں بیان کیا ہے۔

نقاط کا یہ شمارہ ہمارے سماجی مسائل پر مباحثے کا دعوت نامہ ہے۔ شمارہ سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوا ہے۔