کشمیر پر ہندوتوا کا زعفرانی رنگ چڑھانے کی مہم پورے زوروں پر ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے بھارتی آئین کی دفعہ 370کے خاتمے کے فیصلے کی توثیق کے بعد اس مہم میں تیزی آنے لگی ہے۔ اس فیصلے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں ایک ہندو وزیراعلیٰ لانے کا راستہ بھی تیزی سے صاف کیا جارہا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا نے دو بل منظور کیے ہیں جن کا مقصد مقبو ضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مسلم اکثریتی نمائندگی کو کم کرنا اور مقبوضہ علاقے میں تمام چھوٹے اور بڑے سرکاری عہدوں پر تقرری کے لیے بیرونی لوگوں کے لیے دروازے کھولنا ہے۔
لوک سبھا نے جموں و کشمیر تنظیم نو ترمیمی بل کی منظوری دی ہے جس کا مقصد کشمیری مہاجر برادری اور بے گھر افراد کے نام پر غیر مسلموں کے لیے کشمیر اسمبلی کی تین نشستیں بڑھانا ہے۔ اس کے علاوہ لوک سبھا نے جموں و کشمیر ریزرویشن ترمیمی بل بھی منظور کیا ہے، جس کا مقصد ’’تقرریوں اور تعیناتیوں میں ریزرویشن کے اہل افراد کی کیٹگری کی ازسرنو وضاحت کرنا‘‘ ہے۔ لوک سبھا میں برائے نام بحث کے بعد ان متنازع بلوں کو منظور کیاگیا۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس موقع پر کہا کہ ان بلوں سے بے گھر افراد کو قانون سازی کے عمل میں بامعنی نمائندگی ملے گی۔ امیت شاہ نے بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان اور اس کے بعد مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لے جانے پر کڑی تنقید کی۔ تاہم اُن کا یہ دعویٰ اس حقیقت کا واضح اعتراف ہے کہ جموں و کشمیر بین الاقوامی طورپر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہندو توا رنگ میں رنگنے کی کوششیں جاری رکھتے ہوئے بارہ مولہ قصبے کے علاقے جانبازپورہ میں واقع جہلم اسٹیڈیم کانام بدل کر بھارتی فوج کے سابق سربراہ اور سابق چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کے نام پر رکھنے کی منظوری دی گئی۔
مقبوضہ علاقے کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جہلم اسٹیڈیم جانباز پورہ کا نام بدل کر ’’جنرل بپن راوت اسٹیڈیم‘‘رکھنے کی منظوری دی گئی ہے۔
جنرل بپن راوت نے جو آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے سے متاثر تھے، کشمیر کی تحریکِ آزادی کو دبانے کے لیے بھارتی آرمی چیف اور بعد میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے طور پر بے گناہ کشمیریوں کا قتلِ عام تیز کیا تھا۔ جنرل راوت،ان کی اہلیہ اور 11 دیگر افراد 2021ء میں ریاست تامل ناڈو میں فوجی ہیلی کاپٹرحادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اہم عمارتوں، سڑکوں اور مقامات کو حملوں میں ہلاک ہونے والی بھارتی اہم شخصیات کے ساتھ ساتھ فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ناموں سے منسوب کررہی ہے۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد کشمیر کی مسلم شناخت ختم کرنا ہے۔
بھا رتی ہندو توا رجیم مقبوضہ کشمیرکے عوام کو زیر عتاب رکھنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کررہا ہے۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت نے جموں خطے کے ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہندوتوا سے متاثر خواتین کو دہشت گرد گروہ ویلیج ڈیفنس گارڈز (VDGs) میں شامل کرنا شروع کردیا ہے۔ ابتدائی طور پر 250کے ایک گروپ کو وی ڈی جی ممبر بننے کے لیے تربیت دی جارہی ہے۔ پہاڑی ضلع ڈوڈہ کی یہ خواتین مقامی آبادی میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے فائرنگ اور دیگر حربوں کی تربیت حاصل کررہی ہیں۔ اس وقت 6000سے زائد وی ڈی جی ممبرز فعال ہیں جنہیں مودی حکومت باقاعدگی سے ادائیگی کرتی ہے۔ ڈوڈہ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے کہا کہ یہ وی ڈی جی ممبرز اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور ملک دشمن عناصر(آزادی پسند لوگوں) پر نظر رکھنے میں پولیس اور دیگر بھارتی فورسز کی مدد کررہے ہیں۔ ایس ایس پی نے کہا کہ پولیس نے ڈوڈہ، بھدرواہ اور گندوہ میں فائرنگ رینج قائم کیے ہیں جہاں ان وی ڈی جی ارکان کو تربیت دی جارہی ہے اور جہاں وہ فائرنگ کی مشق کرتے ہیں۔