پریشان حال کاشتکار و کسان کی کمر پر حکومت کا ایک اور چابک
پنجاب حکومت نے مختلف فصلوں کی آب پاشی کے لیے پانی کی قیمت 400 سے 2000 روپے فی ایکڑ سالانہ کردی ہے، جس کا اطلاق ربیع سیزن 24-2023ء سے ہوگا۔ 5 دسمبر 2023ء کو محکمۂ آب پاشی کے سیکرٹری کے دستخط شدہ پنجاب کے محکمۂ آب پاشی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ گورنر پنجاب آب پاشی کے مقاصد کے لیے اہم فصلوں کے لیے آبیانہ (پانی کے نرخ) پر نظرثانی کرنے پر خوش ہیں۔ خریف کی فصلوں کے لیے پانی کے نرخ بڑھ گئے ہیں جس میں گنے کی فصل 1600روپے فی ایکڑ، چاول 2000روپے، کپاس 1000روپے، سبزیاں 1200روپے، مکئی 1200 روپے، باغات 1000روپے اور پھل 1000روپے فی ایکڑ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت نے منظور شدہ باغات کے لیے پانی کی اضافی قیمت کے طور پر 2000روپے فی ایکڑ اور سرکاری لفٹ اریگیشن کے لیے ہر سال 2250روپے فی ایکڑ کی قیمت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
حکومتِ پنجاب نے آبیانہ میں یکمشت 400فیصد اضافہ کرکے پہلے سے پریشان کسانوں کی کمر پر چابک مارا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں کاشت کار طبقہ بدحالی کا شکار ہے، اگر مسائل کا ذکر کریں تو نہ ختم ہونے والی فہرست ہو گی۔
کسانوں کی تنظیمیں حکومتِ پنجاب کے ظالمانہ کسان اور زراعت دشمن فیصلے پر صدائے احتجاج بلند کریں اور کاشت کار بھی اس حوالے سے اپنے اپنے دیہاتوں میں پنچایت لگائیں۔ دوہزار روپے فی ایکڑ آبیانہ ٹیکس کی یہ ابتدا ہے، جے آئی کسان بورڈ پاکستان کو اس ضمن میں عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے۔
دوسری جانب عالمی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد کاشت کار ٹیکس نہیں دیتے، زرعی آمدن پر انکم ٹیکس وصولی کی بہتری سے ٹیکسوں کا حصہ ایک فیصد بڑھ سکتا ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث ٹیکس وصولی متاثر ہوئی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ٹیکس اصلاحات پر عمل درآمد سے معیشت میں ٹیکس کا حصہ 2 فیصد بڑھ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ11 کروڑ 40 لاکھ افراد برسرِ روزگار ہیں اور 80 لاکھ افراد انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، جب کہ پاکستان میں ایف بی آر کا ٹیکسوں کے لیے نظام تاحال پیچیدگیوں کا شکار ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کو مضحکہ خیز ہی کہا جا سکتا ہے کہ کاشت کار ٹیکس ادا کرے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کاشت کار فصل کی بوائی، دیکھ بھال، زرعی ادویہ کے اسپرے، کٹائی اور اپنی اجناس کی منتقلی تک کئی ٹیکس براہِ راست ادا کرتا ہے۔ چاول، گندم، کپاس، دالیں، پھل، سبزیاں، تیل دار اجناس، لائیواسٹاک، پولٹری، فشریز کے شعبے میں ہر زرعی مداخل کھادوں، بیج، ڈیزل، بجلی کے بلوں پر ٹیکس پہلے ادا کرتا ہے، اس کے بعد فصل کی امدادی قیمت کی ادائیگی کے وقت غلہ منڈیوں میں رجسٹرڈ آڑھتی کمیشن ایجنٹ بھی ٹیکس کاٹ کر کاشت کار کو اس کی فصل کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں شعبۂ زراعت میں کاشت کاروں کو ریلیف دینے کے لیے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ وزیراعظم سے یوریا کی قلت کو پوراکرنے کے لیے بات کی ہے، 2لاکھ ٹن اضافی یوریا کھاد باہر سے منگوالی ہے جو کہ 20دسمبر سے پہنچ جائے گی، جس سے کمی ختم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یوریا کھاد کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ نے کہا کہ10سال بعد پنجاب کی 1112نہروں کی بھل صفائی ہوگی، جوکہ 26دسمبر سے شروع ہوکر 20جنوری تک جاری رہے گی۔ انہوں نے تمام ڈویژنل کمشنرزکو مانیٹرنگ کا ٹاسک سونپ دیا اورکہاکہ نہروں کی بھل صفائی کے دوران کمشنرز فیلڈ میں رہ کر تمام امور کی نگرانی کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ بھل صفائی کے ساتھ نہروں کی مرمت پر بھی توجہ دی جائے، انتظامی افسران نہری پانی کی چوری کے سدباب کے لیے مؤثر ایکشن لیں۔ محسن نقوی کی زیر صدارت وزیراعلیٰ آفس میں اجلاس ہوا، جس میں بھل صفائی کے پروگرام اور پانی چوری کی روک تھام کے لیے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، سیکرٹریز زراعت، آب پاشی، خوراک، اطلاعات، کمشنر لاہور اور محکمہ زراعت کے افسران نے شرکت کی۔ صوبائی وزیر زراعت ایس ایم تنویر اورتمام ڈویژنل کمشنرز ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔
یہ اچھا قدم ہے، ہم اس کی تحسین کرتے ہیں۔ اس ضمن میں گزارش ہے کہ حکومت محکمۂ آب پاشی کو کثیر فنڈز کا اجرا کرے، کیوں کہ کئی بڑی، چھوٹی اور مائنر نہروں پر سول ورکس کی اشد ضرورت ہے۔ نارنگ منڈی میں سوہل مائینر کینال بی آر بی نہر سے نکلتی ہے، 22کلومیٹر لمبی سوہل ڈسٹری مغل والا جاکر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ اس نہر پر لائنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کھنڈا گاؤں پر پُل خستہ حالت میں ہے، اس پل کی سائیڈز والز گر چکی ہیں، اور یہ پل انتہائی خستہ حالی کا منظر پیش کررہا ہے، اگر یہ گر گیا تو کئی دیہات کا آپس میں رابطہ کٹ جائے گا۔ محکمہ اری گیشن کے ایکسین شاہدرہ ڈویژن، ایس ڈی او مریدکے سرکل نے اس ضمن میں سوہل ڈسٹری سمیت دیگر نہروں کی مرمت کے حوالے سے ورک پلان ترتیب دے دیا ہے۔ حکومتِ پنجاب سے عوامی مفاد میں گزارش ہے کہ محکمہ اری گیشن کو فنڈز کا جلد سے جلد اجرا کرے۔