تتمہ دوم
فیلاکسینس آف ماباگ
ہم دیکھ چکے ہیں کہ لاطینی چرچ کے آگسٹن اور دیگر عیسائی مفکرین نے کس طرح ’’تصور‘‘ پر انتباہی رویہ ظاہر کیا ہے، یہ تقریباً مذمتی سا ہے۔ مشرقی عیسائی گرجا گھروں کے مفکرین بھی کچھ مختلف خیالات نہیں رکھتے، ان میں سب سے دلچسپ مثال فیلاکسینس آف ماباگ کی ہے جو پانچویں صدی عیسوی کے شامی چرچ کا پادری تھا۔ وہ سچ کی تفہیم پر، کہ جسے وہ روحانی دنیا میں دیکھتا ہے، اور ’غیرسچ‘ کی حسیاتی دنیا میں آدمی کے تخیل اور احساس کو ناقابلِ اصلاح سمجھتا ہے۔ یہ قطعی تقسیم کی علامت ہے۔
فیلاکسینس ایک خط میں پیٹریشس کو لکھتا ہے ”ایک بار جب فہم سچ کی اقلیم میں غور و فکر سے گزر چکا ہو، تو پھر وہ کسی پست اقلیم میں اتر کر غور و فکر نہیں کرتا۔ وہ جب روحانی جہت پر حسیاتی احساسات سے ماورا جاچکا ہو، تو پھر صرف روحانی دائرے میں ہی کافی ہوجاتا ہے“۔ فیلاکسینس ’’تصور‘‘ کی تنقید میں روحانی تناظر سے کام لیتا ہے اور معنی کی کئی پرتیں کھولتا ہے۔ سب سے پہلے وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ تصور کی ہمارے احساسات کے ساتھ ملی بھگت ہمیں اس قابل نہیں رہنے دیتی کہ اشیا کی حقیقت سمجھ سکیں، جیسی کہ وہ فی الحقیقت ہیں۔ اور اس طرح دنیا ہماری تصوراتی خواہشات پر تشکیل پاتی ہے۔ یہ ہمیں اشیا کا علم نہیں دیتی بلکہ سراب دکھاتی ہے۔ تصور ہمیں آئینوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔ تصور ایک اور زیادہ بڑے گناہ میں بھی دھکیل دیتا ہے، وہ یہ کہ اپنے ہی بنائے ہوئے تصورات سے فرار کی خودفریبی میں اس گمان کے ساتھ مبتلا رہتے ہیں کہ جیسے گویا الوہی سچ کی کھوج میں ہوں۔ یوں آدمی ایک دوغلے پن کی زد میں رہتا ہے۔ مگر جب تک آدمی کی خواہشات تصورات میں جکڑی رہتی ہیں، وہ نامراد رہتا ہے۔
فیلاکسینس ’’تصور‘‘ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ خلقی طور پر ’گمراہ کن‘ ہے۔ نہ صرف یہ کہ تصویری مواد بُرائی ہے بلکہ یہ اپنی فطرت میں ہی ایک بدی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آدمی کا تصور کرنا ہی برائی ہے۔ تصور کی خلقی کجی، دوسرے لفظوں میں اُس کا سچ کی پیشکش کا دعوٰی ہی جھوٹا ہے۔ اب جب کہ تصور کے اخلاقی اور غیر اخلاقی مواد کی تفریق ہی مٹادی گئی اور اسے اس کی فطرت میں ہی کج رو قرار دے دیا گیا، تو ’’تصور‘‘ کی مذمت میں ایک نئی روایت سامنے آئی۔ افلاطون اور ارسطو دونوں کی یونانی کلیات میں تصویروں کے اچھے برے استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ درحقیقت کم و بیش یہ بات کہی گئی تھی کہ تصویر یا تصور اپنی اصل میں غیرجانب دار ہے، اور اس کے خیر و شر کا انحصار پیشکش کی نوعیت پر تھا۔ یہاں تک کہ ارسطو نے تصویر کے ایسے مثبت کردار کی توصیف کی ہے جو ہمارے اعمال کے اچھے پہلو سامنے لاسکے۔ اسی طرح ربیوں کی روایت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تصور میں خیر اور شر دونوں کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس فیلاکسینس کوئی دفاعی صورت اختیار نہیں کرتا، صفائیاں یا حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ یہاں ’’تصور‘‘ مکمل بدی ہے۔ یہاں تصور کی پیشکش ہی جرم ہے۔ متبادل پیشکش کی یہ کوشش اپنی سرشت میں بت پرستانہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ فیلاکسینس کی ’’تصور‘‘ پر تنقید واقعاتی سے زیادہ تشکیلی ہے۔ یہاں تک کہ وہ یونانی فلسفے میں انسانی تخیل کو دی گئی محدود رعایتیں بھی ایک طرف کردیتا ہے (ارسطو کہتا ہے کہ تصویروں کے بغیر کوئی خیال قائم نہیں کیا جاسکتا)۔ فیلاکسینس ’’تصور‘‘ کا بنیادی ڈھانچہ ہی یہ کہہ کر ڈھا دیتا ہے کہ ناپختہ کاوش ہے۔ اُس کی تادیب نے آدمی کے ’’تخیل‘‘ کی پیشکش جس طرح مجروح کی، اُس کا ازمنہ وسطیٰ کے ابتدائی دور کی عظیم مذہبی بحثوں پرگہرا اثر پڑا۔ فیلاکسینس کی ’’تصور‘‘ پر یہ تنقید الٰہیات میں بلاشبہ نئے ڈھب کی چیز تھی، اور اُس کا اصرار تھا کہ مسیح میں خدا کا حلول ’’تخیل‘‘ کے مغالطوں کے خلاف ایک عظیم ہتھیار تھا۔ آدمی میں خدا کے حلول کے ساتھ ہی بت پرستی کے عہد کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا گیا۔ ایک بار جب ابدیت فرد میں ظہور کرچکی، تو پھر خیالی اور تصوراتی چیزوں میں مطلق حقیقت کی تلاش ’ضرورت‘ نہیں رہی۔ یہاں تک کہ یہودی روایت میں موجود الہامی خیالی پیکر کو بھی، کہ جس کا وہ قائل تھا، فضول قرار دیتا ہے۔
اب جب کہ خدا مسیح میں حلول کرکے اپنی حقیقت منکشف کرچکا، تو پھر وہی واحد سچائی ہے، اور کوئی بھی تصور یا تصویر خواہ کتنی ہی طلسماتی ہو، آدمی کے ذہن اور خدائی غور و فکر کے بیچ قبول نہیں کی جاسکتی۔ نتیجتاً مسیح کی تصویریں اور شبیہیں بنانے کی کوششیں بھی ممنوع قرار پاتی ہیں۔ اس طرح عیسائیت خدا کی شبیہوں پرپابندی میں سخت نظر آتی ہے، جب کہ عبرانی روایت اس معاملے میں نرم تھی۔ عیسائی عہد، کہ جس کا آغاز مسیح میں خدا کی روح حلول کرجانے کے عقیدے سے ہوتا ہے، فیلاکسینس اُس کی ثنا کرتا ہے اور ’تخیلاتی ہیولوں کے ظہور‘ کے مقابل ایک فیصلہ کن موڑ قرار دیتا ہے۔ عظیم دھوکا کہ جس کا فلسفے کو سامنا رہا اور جس کے سبب وہ وحی کی سچائیوں سے نظر پھیر گیا، یہ گمان تھا کہ محدود انسانی ذرائع سے سچ تک رسائی پاسکے گا۔ یہ صرف خواہشاتِ نفس کے پیچھے پڑکر راہ گم کردینا تھا۔ قدیم یونانی مفکرین اسی خام خیالی کا شکار تھے۔ فیلاکسینس اور ہم خیال مفکرین کے مطابق ایسا اس لیے ہوا کہ اُن تک وحی کی سچائی نہیں پہنچی تھی۔ خدائے واحد تک نارسائی نے فلسفیوں کو مصنوعی دنیا کی رنگا رنگی کے خواب و خیال میں بھٹکتا چھوڑدیا تھا۔ حالانکہ انہوں نے فی الحقیقت کبھی تصویرکشی اور بت نگاری نہ کی تھی۔ اُن کے انتہائی خیالات باطنی تصورات سے کچھ بھی بڑھ کر نہ تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکی کلچر آرٹ کے فروغ میں معاونت کی۔ مسیحی وحی سے محروم ’تصور‘ کی آرزو نے خود کو نہ ختم ہونے والی نقل در نقل میں مبتلا کیا۔ حقیقت آدمی پر صرف اُس وقت آشکار ہوئی کہ جب یسوع مسیح کا ظہورہوا۔ فیلاکسینس نے’’تصور‘‘ کو گناہِ آدم جیسا قرار دیا، کہ انسانی ذہن گناہِ اول کے ساتھ خرابی کا شکار ہوا اور یسوع مسیح علیہ السلام کی آمد نے اُسے پھر پہلی حالت پر لوٹادیا۔
فیلاکسینس اس بات کی تکرار کرتا ہے کہ آدمی تنہا اپنے قدموں پرسچ تک کا سفر طے نہیں کرسکتا۔ آدمی حقیقت نہیں دیکھتا بلکہ خدا اُسے حقیقت دکھاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سچ شناسی آدمی کی فکری استعداد ہی نہیں، یہ عالمِ مطلق ہی کا وصف ہے کہ آدمی کوسچ آشنا بنائے۔ فیلاکسینس کہتا ہے کہ ہم شاید یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کیسا نہیں ہے مگریہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیسا ہے۔
تتمہ سوم
’تصور‘ پر موسیٰ بن میمون کی رائے
اگرچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ عبرانی کلیے ’تصور‘ کی بابت کیا کہتے ہیں، یہ جاننا اہم ہوگا کہ ازمنہ وسطیٰ میں یہودی مفکرین نے اناجیلی اور ربانی تعلیمات کو یونانی فلسفوں سے کس طرح اور کتنی کامیابی سے ملایا۔ بارہویں صدی کے موسیٰ بن میمون کا کام قابلِ توجہ ہے۔ موسیٰ بن میمون کا عظیم علمی کام The Guide of the Perplexed چندمستثنیات کے ساتھ وجودی الٰہیاتی کہلایا جاسکتا ہے، کہ جس میں ارسطو کا فلسفہ اور اناجیلی روایت دونوں باہم ملتے ہیں۔ اُس کی تحریر کے اناجیلی مواد میں تلمودی ذرائع بڑا ماخذ ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد اُن لوگوں کے لیے رہنمائی ہے جو یونانی فلسفے اور روحانی قوانین کی گتھیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ یہ اخلاقی اور پیغمبرانہ تعلیمات میں مصالحت کی کوشش تھی، جسے محتاط غور و فکر اور معنوں کی سطحوں پر سمجھا اور سمجھایا گیا تھا۔ موسیٰ بن میمون اپنی گائیڈ اناجیل مقدس کی اس آیت سے کرتا ہے کہ ’’خدا نے جب آدم کو تخلیق کیا، اُسے اپنی صورت پرخلق کیا‘‘۔ یہاں image شبیہ یا صورت کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ مگر یہ یہاں مادی صورت نہیں ہے۔ یہ کسی شبیہ اور ساخت کی بات بھی نہیں ہے،۔
بلکہ یہ روحانی تعلق ہے۔ اب کیونکہ آدمی خدا کی صورت پر خلق ہوا ہے اس لیے وہ خدا سے روحانی نسبت میں ہے، مگر بُت خدا سے ایسی کوئی نسبت نہیں رکھتے اس لیے ملعون قرار پاتے ہیں۔ ہم بتوں میں کیا تلاش کرتے ہیں؟ ابن میمون کہتا ہے کہ بتوں میں ہم خدا کی صورت یا ساخت نہیں بلکہ روحانی متبادل ہی ڈھونڈتے رہے ہیں۔ ایک بار جب آدمی نے اپنے بنائے ہوئے بتوں اور شبیہوں میں خدا ڈھونڈنا چاہا تو وہ بت پرستی میں پڑگیا۔ یہی وہ بات تھی کہ جس پرخدا نے بنی اسرائیل کو سرزنش کی کہ ”تم لوگ آخر مجھے کس صورت میں پاسکتے ہو؟“(Isaiah, 40:25)۔ خدا یہاں اس ناممکن کی توثیق کررہا ہے کہ ’’الوہیت‘‘ کو کسی بھی ظاہری صورت یا ساخت میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کہتا ہے کہ بت پرستی دراصل آدمی کی اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی ہے۔ وہ قصہ آدم وحوا کی شرح میں لکھتا ہے کہ پھل کا کھالینا محض ہمیشگی کے علم کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ پھل اشتہا انگیز بھی تھا۔ دوسرے لفظوں میں آدمی کی بت پرستی میں اُس کی فطرت کے پست جنسی محرکات شامل ہیں۔
موسیٰ بن میمون سختی سے ’تصور‘ کی خودمختاری رد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’تصور‘ قطعی طور پر اس کا اہل نہیں کہ حقیقی اور غیر حقیقی میں امتیاز کرسکے۔ ’تصور‘ ہمیں بت پرستی کے کھیل میں دھکیل دیتا ہے، اور یہ اُن ہلاکت خیز غلطیوں میں سے ایک ہے جو آدمی سے ’تصور‘ کی پیروی میں سرزد ہوئیں۔