یروشلم سے یروشلم تک

جن قوموں کو اللہ نے ہدایتِ الٰہی سے سرفراز کیا، ان کے درمیان اپنے رسولوں کو مبعوث کیا، ان پر اپنی کتاب اتاری اور دعوتِ حق کی ذمہ داریاں ان کو تفویض کیں تاکہ وہ راہِ راست کی طرف اقوامِ عالم کی رہنمائی و قیادت کا فریضہ انجام دیں، ان میں سب سے پہلے یہ فضیلت بنی اسرائیل کو عطا کی گئی۔ قرآن میں بنی اسرائیل کے عروج و زوال کی ایک تفصیلی روداد موجود ہے۔ ان کی تاریخ کے مختلف ادوار پر قرآن نے بڑی وضاحت سے تبصرہ کیا ہے اور ان کے جرائم کو ایک ایک کرکے گنایا ہے۔ کتابِ پاک کا بڑا حصہ اسی قوم کے تذکرے کے لیے مخصوص ہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کی سرگزشت پر اسی لیے اتنی زیادہ توجہ کی کہ ہمیشہ ایک نمونۂ عبرت کے طور پر مسلمانوں کے سامنے رہے۔ وہ اپنی زندگی کے اجتماعی سفر کے ہر مرحلے پر اس قوم کی سرگزشت کو دیکھ دیکھ کر حق و باطل کا امتیاز کرتے رہیں، ہر اُس خطرناک مقام پر احتیاط سے قدم اٹھائیں جہاں جہاں اس قوم نے لغزش کھائی اور راہِ راست سے بھٹک بھٹک گئی۔

قرآن نے یہودیوں کے زوال کے جو اسباب بیان کیے ہیں ان میں سب سے بڑا جرم یہی ہے کہ انہوں نے اپنی ریاستوں میں شریعتِ موسوی کو معطل کردیا اور مشرک سلطنتوں کی طرح دنیا اور مفاد پرست مذہبی پیشوائوں اور ظالم و جابر حکمرانوں کے خودساختہ احکام و قوانین کو شریعتِ موسوی کے علی الرغم اپنے ملک کا دستور اور قانون بنالیا۔ اپنے من مانے قوانین کو نافذ کرنے کے لیے انہوں نے پہلے تو موسیٰ علیہ السلام کی سنت کی پیروی کو غیر ضروری قرار دیا اور اپنے نبی کی حدیث و سنت سے ہٹ کر کتابِ الٰہی توریت کے احکام و قوانین کی من مانی تعبیریں کرنے لگے، اور ان کی خواہشِ نفس پر آیاتِ الٰہی، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم اور اللہ کے نازل کردہ احکام بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہ سکے۔

بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے اور بعد میں پیدا ہونے والے ان کے مختلف گروہوں کو باہم جوڑ کر رکھنے والی چیز ایک ہی تھی اور وہ شریعتِ موسوی تھی۔ جب یہ رشتہ ٹوٹ گیا تو ان کا باہمی اتحاد نہیں رہا، اور اسرائیلی سلطنت خودمختار ریاستوں میں بٹ گئی اور ان کے درمیان ایک مدت تک جنگ و جدل ہوتا رہا اور انہوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے ہمسایہ مشرک قوموں سے مدد حاصل کی۔ اپنے موحد اور مسلم دینی بھائیوں کے خلاف بت پرست، ستارہ پرست مشرکوں سے دوستی اور رفاقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرک قوموں نے جو اُن کی دشمن تھیں اسرائیلی ریاستوں کو سیاسی گرفت میں لے لیا بلکہ مشرک اقوام سے میل جول کے نتیجے میں ان کی مشرکانہ اور فلسفیانہ تہذیب بھی توحید پرست اسرائیلی معاشرے میں سرایت کر گئی۔ مشرکانہ رسم و رواج اس درجہ مقبول ہوئے کہ بنی اسرائیل عَلانیہ بت پرستی جیسے گھنائونے جرم تک کے مرتکب ہونے لگے۔

یہ بنی اسرائیل کی اخلاقی اور تہذیبی شکست تھی جو بڑی تیزی سے ان کو سیاسی زوال کی طرف لے گئی۔ چنانچہ بہت جلد دوسری غالب قومیں قہر الٰہی بن کر اطراف و اکناف سے ان پر ٹوٹ پڑیں، تاآنکہ بابلیوں کے تندخو بادشاہ بخت نصر نے مقدس شہر یروشلم کو لوٹ لیا، اس کو تباہ و برباد کردیا، ہیکل سلیمانی کو منہدم کروا دیا اور اسرائیلی قبیلوں کو غلام بناکر لے گیا اور اپنی سلطنت کے دور دراز علاقوں میں ان کو منتشر و پراگندہ کردیا۔ اس کے بعد دوبارہ جب اللہ نے ان پر رحم فرمایا اور وہ اس اسیری سے نجات پاکر یروشلم لوٹ آئے اور انہوں نے عہد کیا کہ وہ اللہ کے وفادار رہیں گے اور حضرت عزیز نے تورات کے منتشر نسخوں کو جمع کرکے شریعتِ موسوی کی تجدید کی اور بنی اسرائیل نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا اور دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے غلبے و اقتدار کو حاصل کرلیا، مگر دوبارہ عہدِ الٰہی سے منحرف ہوئے اور آخرت کو بھول کر دنیا میں غرق ہو گئے، طرح طرح کی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی برائیوں کا شکار ہو گئے، یہاں تک کہ ان کے ایک قبیلے نے حضرت عزیز کو ابن اللہ بنا کر ان کو الوہیت میں شریک کر دیا اور ان کے گناہوں سے یروشلم کی زمین ناپاک ہو گئی اور ان کے مظالم سے خداوند کی مخلوق چیخ اٹھی تو اللہ کا عذاب مشرک رومیوں کی یلغار کی صورت میں نازل ہوا۔ رومی فاتحوں نے ان کو ذلیل و خوار کیا، ان کے شہروں پر قبضہ کر لیا اور مدتوں تک ان کو اپنا غلام بنائے رکھا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک دنیا کی تمام قوموں میں بنی اسرائیل ہی واحد مسلمان قوم تھی جو حق پر ہونے کا دعویٰ کرتی تھی۔ اس پر نازاں تھی کہ اللہ نے اس کے درمیان رسولوں کو مبعوث کیا اور اپنی کتاب اور ہدایت نازل کی، اور فخر کرتی تھی کہ وہ صاحبِ کتاب اور صاحبِ شریعت امت ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسول سے اور شریعتِ الٰہی سے اس نسبت کے باوجود خونخوار بابلیوں اور ظالم رومیوں کے مقابلے میں خداوند خدا نے اس اکلوتی موحد قوم کی کوئی مدد نہیں کی اور اُن کو اُن کے دشمنوں کے سامنے بے یارومددگار چھوڑ دیا کہ وہ اپنی بغاوتوں، نافرمانیوں، گمراہیوں اور بدکاریوں کا خوب جی بھر کر خمیازہ بھگتیں اور اپنے اعمال کی سزا پائیں۔

قرآن نے یہ ساری سرگزشت اپنے صحیفوں میں پیش کی ہے تاکہ امتِ مسلمہ کے لیے یہ ایک ایسا آئینہ ہو جس میں وہ اپنے افکار و اعمال، اقوال و رجحان کا جائزہ لیتی رہے۔ اگر وہ بھی بنی اسرائیل کی طرح اپنے رسول کی شریعت سے منحرف ہوگی، آپس میں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے گی، اپنوں کو زیر کرنے کے لیے دوسروں کے لشکروں کو چڑھا لائے گی، آخرت کو بھول کر دنیا میں غرق ہوجائے گی، عیش و عشرت، فسق و فجور، حرصِ زر، ہوسِ اقتدار میں اندھی بن جائے گی، اپنے شعار ترک کرکے کافرانہ و فاسقانہ تہذیب اور اغیار کے طرزِ حیات کو اپنالے گی، بنی اسرائیل کی طرح حق کی طرف بلانے والوں کو طنز و استہزا، تادیب اور تعذیب کا نشانہ بنائے گی اور جس طرح انہوں نے اپنے نبیوں کو قتل کیا تھا وہ بھی دینِ حق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو پھانسیوں پر چڑھائے گی اور جس طرح انہوں نے دینی مرکزیت کے بجائے قومی اور نسلی عصبیت کو ابھارا تھا وہ بھی اسلام کے جذبۂ ملّی کو ختم کرکے قوم پرستی اور نسل پرستی کو مرکز و محور بنا لے گی تو اسے بھی اسی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جس سے وہ پہلی مسلم قوم یعنی امتِ موسوی گزر چکی ہے۔