مذہب اور سائنس کی باہمی مخالفت دونوں کی ماہیت میں مُضمر ہے۔ مذہب صرف ایمانیات اور عبادات کا ایک نظام ہی نہیں، بلکہ کائنات کی ایک تفسیر اور مظاہرِ فطرت کی ایک تشریح بھی ہے، اور وہ یہ تشریح ایسے اسباب کے حوالے سے کرتا ہے جن کی تحقیق حسّی مشاہدے اور عقلی تجربے کی مدد سے نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے الفاظ میں وہ فطری واقعات و اشیاء کو مافوق الفطرت اسباب سے منسوب کرتا ہے۔ اِس کے برعکس سائنس کا طریقِ کار یہ ہے کہ وہ حسّی مشاہدے سے فطری دُنیا کے واقعات و اشیاء کا مطالعہ کرکے عقلی تجربوں کی مدد سے اُن کے فطری اسباب دریافت کرتی ہے، اور اِس مشاہدے و تجربے کی بنا پر اُن کے کردار کے متعلق قوانین وضع کرتی ہے۔ اس کے لیے فطری دُنیا کے متعلق ہر نظریہ مشاہدے اور تجربے کا موضوع ہے۔ مافوق الفطرت واقعات و اشیاء اس کے دائرۂ کار سے خارج ہیں۔ جب وہ مافوق الفطری واقعات و اشیاء کو فطری قوانین سے جانچنے کی کوشش کرتی ہے تو جس طرح مذہب فطری دُنیا پر مافوق الفطری قوانین عائد کرکے سائنس کی اقلیم پر حملہ آور ہوتا ہے، اسی طرح وہ مذہب کی اقلیم میں مداخلت ِ بے جا کرتی ہے۔ بیسویں صدی میں سائنس اور عیسوی مذہب کے درمیان ایک قسم کا سمجھوتا ہوگیا ہے، جس کے تحت دونوں ایک دوسرے کی سرحد کا احترام کرتے ہیں۔ سائنس فطری امور کے متعلق عیسوی مذہب کے مافوق الفطری عقائد کو اس مواد میں شامل نہیں کرتی جس کی بنیاد پر وہ اپنے نظریے قائم کرتی ہے، لیکن صریحاً ان کی تردید بھی نہیں کرتی۔
اِسی طرح عیسوی دینیات نے سائنس کے اُن نظریوں کو جو عیسوی عقائد سے متصادم ہیں، غلط ثابت کرنے کی کوشش ترک کردی ہے، بلکہ تاویل کی مدد سے دونوں میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسلام کے لیے یہ مسئلہ اِتنا شدید نہیں، کیوں کہ وہ سائنس کو اپنا مخالف نہیں بلکہ اپنا معاوِن سمجھتا ہے، اور فطر ت کو خدا کی عادت کہہ کر اِنسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ اُس کا مطالعہ کرکے خدا کی حکمتوں سے آگاہی حاصل کریں۔ یعنی وہ فطری مظاہر کو مافوق الفطرت حقیقتوں کی نشانیاں و آیات کہہ کر انسانی ذہن کو محسوس سے غیر محسوس، معروف سے غیر معروف اور عقل سے اِلہام کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر دُنیا کا کوئی مذہب اس کا مستحق ہے کہ اُسے دین ِ فطرت کہا جائے تو وہ اِسلام ہے، لیکن اِس سے زیادہ تاریخ کی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ بعض مسلم معاشروں کے کلچر نے اِس دین ِ فطرت کو جو سب سے بڑی مافوق الفطرت حقیقت یعنی خدا کو بھی عقل سے پہچاننے کی دعوت دیتا ہے، ابتدائی اِنسانوں کا جادو بنالیا ہے، جس کے لیے ہر چیز مافوق الفطرت اور ماورائے عقل ہے۔
( محمد ہادی حسین،تخلیقی ادب ،کراچی، شمارہ: 5۔ ص: 476)
مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔