کارپوریٹ فارمنگ دراصل چھوٹے ہاریوں (کسانوں) اور آبادگاروں کے خلاف منصوبہ ہے
معروف دانش ور اور کالم نگار نصیر میمن نے بروز اتوار 10 دسمبر 2023ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’پی ڈی ایم کی حکومت میں جب معاشی بحران اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا اور آئی ایم ایف کا قرضہ منظور نہ ہونے کی صورت میں ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا تھا تو ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ملک کو طویل المیعاد سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بھاری بھرکم قرضے اور خسارے پر مبنی بجٹ کو سنبھالنا اب قابو سے باہر ہوچکا ہے۔ براہِ راست سرمایہ کاری جو 2007ء میں 3.67 ارب ڈالر تھی، وہ 2022ء میں کم ہوکر 1.3 ارب ڈالر تک آگئی (میکرو ٹرینڈز ویب سائیٹ)۔ اس صورتِ حال کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت کی جانب سے اسپیشل انویسٹمنٹ کی منظوری کے لیے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل (SIFC) بنائی گئی۔ 5 اگست 2023ء کو گزٹ آف پاکستان کے نوٹیفکیشن کے مطابق 3اگست 2023ء کو ملک کے صدر نے اس ادارے کے قیام کے بارے میں پارلیمنٹ کے ایکٹ کی منظوری دی۔ ملک کے وزیراعظم کو اس کونسل کا صدر مقرر کیا گیا۔ اس ادارے کے کام کے دائرے میں ڈیفنس، زراعت، انفرااسٹرکچر، لاجسٹکس، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونی کیشن اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری اور نج کاری کو تقویت دینا قرار دیا گیا۔ یہ شعبہ جات بطور حوالہ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ادارے کا دائرۂ کار محض انہی امور تک محدود نہیں رہے گا اور وفاقی حکومت کو مزید شعبے شامل کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق یہ کونسل بااختیار ہوگی جو ریگولیٹری اداروں، سرکاری اداروں اور وفاقی حکومت کے محکموں کو تجاویز، مشورے اور سفارشات، نیز ہدایات دے سکے گی۔ وفاقی حکومت اس سفارش پر خاص احکامات کے تحت کونسل کو ضوابط پر مبنی ضروریات اور امور کی انجام دہی کے لیے مطلوبہ ضروریات کی تکمیل سے چھوٹ بھی دے سکتی ہے۔ اس ادارے کے ارکان اور اس کے کنسلٹنٹس کو کسی بھی عمل، ضابطے کی عمل داری کو نظرانداز کرنے یا کام کے دوران بھول چوک پر کسی بھی کارروائی سے بھی تحفظ مہیا کیا گیا ہے۔
روزنامہ ’’ڈان‘‘ نے 28 اپریل کو اپنے اداریے میں لکھا کہ جس قدر عالمِ عجلت میں حکومت، فوج کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی اس کونسل کو تشکیل دے رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ہم بہت جلد ملک میں عرب سرمایہ کاروں کو آتے ہوئے دیکھیں گے۔ 21 جولائی کے روزنامہ ڈان کے مطابق نئے سال کا بجٹ منظور ہوتے ہی وفاقی حکومت نے اس کونسل کے لیے 20 کروڑ روپے کی رقم بھی منظور کر ڈالی۔ 2 جون 2023ء کو قائم ہونے والے اس ادارے کو ایک دم آگے بڑھا دیا گیا۔ 22 جون کے روزنامہ بزنس ریکارڈر کے مطابق وفاقی حکومت نے کونسل کے تحت تین اہم کمیٹیاں قائم کیں جن میں سے ایک اہم کمیٹی یعنی اپیکس کمیٹی میں وزیراعظم کے ساتھ ساتھ فوج کے سربراہ کو بھی ممبر بنادیا گیا۔
12 جولائی 2022ء کو ڈان میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت Green Pakistean Initiative کے تحت 44 لاکھ ایکڑ زمین پر جدید زراعت متعارف کروانے پر کام کر رہی ہے جس کے تحت آئندہ پانچ برس میں زرعی شعبوں میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی اور اس کی وجہ سے 40 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے اس بارے میں کہا کہ اس طرح کی کارپوریٹ فارمنگ جنرل پرویزمشرف کے دورِ حکومت میں متعارف کروا کے اس نوع کی باتیں کی گئی تھیں۔ کسان کمیٹی نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ دراصل چھوٹے ہاریوں (کسانوں) اور آبادگاروں کے خلاف منصوبہ ہے۔ اس دوران میڈیا اداروں اور ویب سائٹس کے توسط سے اس نئے ماڈل کی مشہوری کے لیے بیانات اور اس کے حق میں مضامین چھپنے کا روایتی سلسلہ بھی شروع ہوگیا جن میں اس نئے ادارے کے ذریعے بڑی سرمایہ کاری کی امیدیں ابھاری گئیں اور بار بار یہی کہا گیا کہ بہت جلد اس کونسل کے ذریعے 70 ارب ڈالر کی ملک میں سرمایہ کاری ہونے والی ہے۔ 15 ستمبر کو روزنامہ ڈان نے اپنے ایڈیٹوریل میں اس معاملے سے متعلق سوالات اٹھائے۔ اداریے میں سوال کیا گیا کہ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے؟ اور سرمایہ کاری کہاں کہاں پر کی جائے گی؟ دریں اثنا فوج کے سربراہ نے کراچی اور لاہور میں سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے ساتھ اجلاسوں کا انعقاد بھی کیا۔ 5 ستمبر 2023ء کو روزنامہ ڈان میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کراچی میں 50 کاروباری شخصیات کے ساتھ 4 گھنٹوں تک ایک اجلاس میں شرکت کی۔ انہوں نے سرمایہ کاری کے بارے میں بتایا کہ متحدہ عرب امارات 25 ارب ڈالر، قطر اور کویت 25 تا 30 ارب ڈالر سرمایہ کاری کریں گے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر سے 75 تا 100 ارب ڈالر کی ملک میں کُل سرمایہ کاری کروانے کے لیے کوشش کی جارہی ہے۔ اسی اثناء میں جنرل عاصم منیر کے حکم پر ڈالرز کے کالے کاروبار (سیاہ دھن) اور اسمگلنگ کے خلاف ڈنڈا اٹھانے سے ڈالرز کے نرخ مستحکم ہونے کو کاروباری حلقوں نے کامیابی کی علامت قرار دیا۔ اس سارے عرصے کے دوران فوج کی مدد سے کارپوریٹ فارمنگ کا کام بھی چلتا رہا۔ بزنس ٹوڈے کی 20 مارچ 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کی نگران حکومت نے فوج کو کارپوریٹ فارمنگ کے لیے 45 ہزار 267 ایکڑ زمین بکھر، خوشاب اور ساہیوال میں دینے کا فیصلہ کیا۔ معاہدے کے مطابق اس منصوبے کی کمائی میں سے 20 فیصد زرعی شعبے میں ریسرچ پر خرچ کیا جائے گا، جب کہ حکومتِ پنجاب اور فوج کو 40-40 فیصد دیاجائے گا۔ 16 جولائی 2023ء کو روزنامہ دی نیوز کے ہفتہ وار ایڈیشن میں اقرار احمد خان کے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ وزیراعظم شہبازشریف اور فوج کے سربراہ کی موجودگی میں Green Pakistean Initiative کی شروعات کر دی گئی ہے۔ مضمون میں یہ بھی لکھا گیا کہ پاکستان میں 82 لاکھ ایکڑ زمین قابلِ کاشت ہے جس پر کاشت کاری نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کا 46.6 فیصد رقبہ بلوچستان میں، 19.5 فیصد سندھ میں، 17.8 فیصد پنجاب میں اور 16 فیصد کے پی کے میں واقع ہے۔ اس بارے میں بھی لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم (LIMS) متعارف کروایاگیا تھا۔
20 نومبر 2023ء کو روزنامہ بزنس ریکارڈر میں خبر چھپی کہ اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی نے ایک نجی ادارے گرین کارپوریٹ انیشئیٹو کو 20 ارب روپے قرضہ دینے کی منظوری دی ہے۔ یہ کمپنی اخباری اطلاعات کے مطابق حال ہی میں قائم کی گئی ہے جس میں اہم شراکت داری فوج کی ہے۔ اس کمپنی کے ذریعے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی امید کی جارہی ہے۔
4 دسمبر 2023ء کو یہ خبر سامنے آئی ہے کہ حکومتِ سندھ نے اس کمپنی کو صوبے کی 52 ہزار ایکڑ زمین دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں 28 ہزار ایکڑ خیرپور، 10 ہزار ایکڑ مٹھی، 9 ہزار ایکڑ دادو، ساڑھے 3 ہزار ایکڑ سجاول اور ہزار ہزار ایکڑ بدین اور ٹھٹہ میں واقع ہے۔ یہ زمین قانون کی چھتری تلے دی جا رہی ہے۔ سندھ حکومت نے اس بارے میں اسٹینٹ آف کنڈیشنز بھی جاری کیں جس کے تحت یہ زمین بیس سال کی لیز پر دی جارہی ہے جسے زرعی تحقیق، زراعت اور مال مویشیوں کے لیے استعمال کیا جائے گا، اور اس سے حاصل شدہ منافع میں سے 33 فیصد حصہ حکومتِ سندھ کو ملے گا۔ جیو نیوز نے اپنی ویب سائیٹ پر اس معاہدے کے بارے میں دی گئی خبر میں بتایا ہے کہ گرین پاکستان انیشئیٹو نامی ادارے کی ویب سائیٹ بھی موجود نہیں ہے۔ اس دوران لاہور ہائی کورٹ میں کارپوریٹ فارمنگ کے لیے زمین فوج کو دینے کے فیصلے کو رد کردیا گیا۔ عدالت کا یہ تفصیلی فیصلہ قابلِ مطالعہ ہے۔ اس فیصلے کے بعض حصے قابلِ غور و فکر ہیں۔ عدالت نے کہا کہ جس غیر ضروری عجلت کے ساتھ زمین دیے جانے کے فیصلے کو مختلف مراحل میں منظور کرایا گیا ہے یہ امر پریشان کن ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ غیر آباد زمین کو آباد کرنے میں فوج کے زبردست تجربے پر مبنی دعوے کا اعداد و شمار کے ذریعے سے کسی نوع کا کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آرمی ایکٹ میں فوج کی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ذمہ داریاں واضح کردی گئی ہیں، اور اس سے زیادہ کوئی بھی کام وفاقی حکومت کی ہدایات یا منظوری کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اصولی طور پر فوج کے عملے کا سویلین آبادی یا انتظامیہ کے ساتھ مستقل طور پر کوئی بھی کام کرنا اصولوں کے برعکس ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نگران حکومت نے اپنے قانونی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہ کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی فیصلے میں کئی حوالے دیے گئے ہیں۔ ان بنیادوں پر عدالت نے سرکاری زمین فوج کو دینے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے زمین واپس حکومت کو دینے/ اس کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔18 جولائی کو بزنس ریکارڈر کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کی ڈویژنل بینچ نے سرکاری اپیل پر اس فیصلے کو معطل کردیا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی پالیسی کے مطابق نگران حکومت کو اس طرح کا فیصلہ کرنے کا اختیار ملا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ پی ڈی ایم سرکار نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں نگران حکومت کو اہمیت کے حامل منصوبوں کے بارے میں فیصلے کرنے کے اختیارات تفویض کردیے تھے۔ قانونی بحث اپنی جگہ پر، لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کئی اہم سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
سندھ میں نگران حکومت کی جانب سے اسی طرح سے 52 ہزار ایکڑ زمین ایک ایسی نجی کمپنی کو دینا جس کے قیام کو ابھی بہ مشکل چند ہی ماہ ہوئے ہیں، خود کارپوریٹ قوانین کے لحاظ سے بھی سوالیہ نشان ہے۔ سندھ کی زمین لگاتار بحریہ، ڈی ایچ اے اور دیگر ملکی اداروں کو مختلف اسکیموں کے لیے دینے پر سندھ میں تشویش موجود ہے۔ جس منصوبے کے لیے نجی کمپنی کو یہ زمین دی گئی ہے اس کی تو فزیبلٹی بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ بھی پتا نہیں ہے کہ اس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سندھ سے بھی کوئی ممبر شامل ہے یا نہیں؟ اس اسکیم کی تفصیلات بھی تاحال سامنے نہیں آسکی ہیں کہ اس پر کوئی رائے قائم کی جائے۔ یہ سارا عمل شفافیت کے بھی کسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ زمین کے معاملات سارے ملک میں اور خصوصاً سندھ میں تو حد درجہ حساس ہیں۔ ایسے فیصلوں پر کم از کم عوامی سطح پر آگہی فراہم کرنا اور صوبوں کے عوام کو اعتماد میں لینا ناگزیر تھا۔ اگرچہ زمین کی یہ منتقلی نگران حکومت کی کابینہ نے کی ہے، لیکن اس کی بنیاد پی ڈی ایم کی حکومت کے وقت پڑ چکی تھی اور اس کے بارے میں کیے جانے والے فیصلے میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں ہی شامل ہیں۔ ان اداروں کے قیام اور ان کے اختیارات کے بارے میں فیصلے تو سابقہ حکومت کے دور میں ہی ہوچکے تھے۔ پی پی پی سندھ کی زمینیں سخاوت کے ساتھ مختلف رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز کو دیتی رہی ہے اور یہ حکومت حاصل کرنے اور اسے چلانے کا نسخہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی زمین کی اس منتقلی پر پیپلزپارٹی، جی ڈی اے اور سندھ کے اکثر قوم پرست حلقے آواز اٹھاتے نظر نہیں آتے۔ اس حوالے سے تھوڑی بہت آہ و زاری اور واویلا سندھی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر سننے میں آتا رہتا ہے، لیکن اس سے سیاسی حلقے متحرک نہیں ہوتے۔ ملک میں سیکورٹی کی نازک ذمہ داری کاندھوں پر ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی معاملات میں بھی قیادت کا ذمہ اٹھانا کس قدر درست فیصلہ ہے؟ اس بارے میں حکومت اور اداروں کو ازخود ہی سوچنا چاہیے۔ البتہ ماضی کے تجربات اس بارے میں زیادہ حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ہمارے ملک کو امن وامان کے حوالے سے سنگین چیلنج درپیش ہیں، فورسز کا دفاع سے دھیان ہٹاکر انہیں کاروباری معاملات میں شریک کرنا کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہے۔ یہ امور سرانجام دینا سویلین حکومت کی ذمہ داری ہے، اور سویلین حکومتوں ہی کو ایسے کام کرنے چاہئیں۔ ملک میں نئے انتخابات کروا کر بغیر کسی مداخلت کے سویلین حکومت کو جمہوری انداز میں چلنے دیا جائے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں، عالمی امدادی اداروں اور حکومتوں کا ملک کے بارے میں اعتماد بحال ہوسکے۔ معاشی ترقی کے لیے ہمہ جہت جمہوریت اور سیاسی استحکام بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں کوئی بھی ادارہ ملکی معیشت کو اس بحران سے نہیں نکال سکتا۔‘‘
(عرضِ مترجم: نصیر میمن نے اس کالم میں سندھ کی زمین کے حوالے سے جن خدشات، تحفظات اور خطرات کا اظہار کیا ہے وہ توجہ کے متقاضی اور سندھ کے اہلِ دانش و بینش کی سوچ کا مظہر ہیں، لہٰذا انہیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔)