یہ کتاب غزہ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اِس میں وہ سب کچھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو غزہ سے کیا گیا ہے۔ آج کل کسی بھی مظلوم کے ردِعمل کے بارے میں بولنے کا فیشن سا چل پڑا ہے مگر کوئی بھی اُن حالات کے بارے میں کچھ سوچنے اور کہنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا جو اُس مظلوم کو شدید ردِعمل پر اُکساتے ہیں۔ فریڈرک ڈگلس نے سخت نامساعد حالات جھیل کر اپنے آپ کو ایک ایسے انسان کے سامنے کھڑا کیا جو غلاموں کی تجارت کرتا تھا اور اُس سے بھی گندا سلوک ہی روا رکھتا تھا۔ نیلسن منڈیلا نے عزتِ نفس مجروح کرنے والے سلوک کے باوجود اپنے وجود کا احترام برقرار رکھا اور آخرِکار اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔ بہرکیف، اگر یہ لوگ غیر معمولی تھے اور غیر معمولی حالات کا سامنا کرکے بھی کامیابی سے ہم کنار ہوئے تب بھی ہمیں سوچنا ہوگا کہ اِنہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والے حالات اور اُن حالات پر اثرانداز ہونے والے عوامل اِن کے بس سے باہر کی بات تھے۔ سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے غزہ کو ایک اوپن ایئر جیل قرار دیا تھا۔ اسرائیلی وارڈن اس کا انچارج ہے۔ ریاستی پروپیگنڈا مشینری جو کچھ کہتی ہے اور اُس مشینری کے پُرزے جو کچھ بیان کرتے ہیں اُس کی رُو سے اسرائیل ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف ردِعمل ظاہر کررہا ہوتا ہے یا پھر جوابی کارروائی کررہا ہوتا ہے۔ غزہ کی غیر انسانی اقتصادی ناکہ بندی ہی اسرائیل کے پیدا کردہ اُن حالات کی نشاندہی کرتی ہے جنہوں نے فلسطینیوں کو شدید ردِعمل پر اُکسایا، اور نہ ہی فلسطینیوں پر وقفے وقفے سے کی جانے والے انتہائی غیر انسانی بمباری ہی کچھ بیان کر پاتی ہے۔ اسرائیل کے اہم سیاسی اور اسٹرے ٹیجک فیصلوں کی کوکھ سے فلسطینیوں کے لیے حالات کی خرابی نے جنم لیا ہے۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے کئی مواقع پر حماس کی ’’بے عملی‘‘ پر شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ حماس نے اسرائیلی قیادت اور فوج کو کبھی غزہ پر حملہ کرنے کا جواز فراہم نہیں کیا۔ حماس کے خلاف کارروائیاں اسرائیل کی سیاسی ضرورت رہی ہیں نہ کہ فوجی۔ اگر غزہ اپنے آپ کو سمندر میں غرق کرلے یا اپنا مقدر اسرائیل کے ہاتھ میں دے دے تو اسرائیلی فوج کبھی غزہ کے خلاف انسانیت سوز اقدامات نہیں کرے گی۔ اِن آپشنز سے ہٹ کر غزہ کے لوگ صرف وہی کچھ کرسکتے ہیں جو ایسی کسی بھی صورتِ حال سے دوچار افراد کیا کرتے ہیں، یعنی مزاحمت۔ اسرائیل کی فوج دنیا کی بہترین فوجوں میں سے ہے۔ اُس کا یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ کسی پہاڑی سے داغے جانے والے چند راکٹ یا گولے اُس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ معمولی حملے خطرہ ثابت ہوسکتے تھے اگر یہ اُس طاقت (اسرائیل) کی گمراہ کن پروپیگنڈا مشینری کا ثمرہ نہ ہوتے۔
اس کتاب کا موضوع غزہ کی شہادت پر کی جانے والی سیاست ہے۔ غزہ کے لیے انتہائی نوعیت کی معاشی مشکلات کا جو بیج بویا گیا تھا وہ اب تن آور درخت بن چکا ہے۔ غزہ کی معیشت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے اور بہت کچھ شایع بھی ہوتا رہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی معیشت میں حقیقت کم اور فسانہ زیادہ ہے۔ عالمی بینک نے 2015-16ء میں بتایا تھا کہ غزہ کی معیشت (خام قومی پیداوار) کا 90 فیصد تک مدار عالمی بینک کی طرف سے دی جانے والی امداد، دیگر امدادی اداروں کی فراہم کردہ رقوم، فلسطینی اتھارٹی کی حکومت کے محصولات اور ترسیلاتِ زر پر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں نے غزہ کی معیشت سے متعلق رپورٹس مرتب کی ہیں وہ اچھی نیت رکھتے ہوں اور بالکل درست تصویر پیش کرنا چاہتے ہوں، تاہم آخرِکار وہ اسرائیل کے کہے پر عمل کرتے ہوئے پائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی بقا ممکن ہوسکی ہے تو اِس بات سے کہ عالمی برادری کے شور و غوغا کے باوصف اسرائیلی حکومت وقتاً فوقتاً اپنی گرفت ڈھیلی کرتی رہی ہے۔ حقیقی مخمصہ یہ ہے کہ غزہ کی معیشت سے متعلق ہر نئی رپورٹ کے اجرا کے ساتھ ہی اُس کی ’’جامع ترقی‘‘ کی منزل قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ غزہ سے متعلق اقتصادی رپورٹس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ اگر درست ہوتا تو غزہ کے مکینوں، بالخصوص بچوں کو بہتر حالات میں زندگی بسر کرنے کا موقع ضرور ملتا۔ بہرکیف، اِن اقتصادی رپورٹس سے اچھا خاصا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غزہ سے کیا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ یہ ریکارڈ غزہ کے شہیدوں کے حق میں اور اُن پر ستم ڈھانے والوں کے مظالم کے خلاف ٹھوس گواہی کا درجہ رکھتا ہے۔ بنیادی حقوق سے متعلق ریکارڈ، جس کی بنیاد پر یہ کتاب لکھی گئی ہے، بتاتا ہے کہ غزہ کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ غزہ میں بنیادی حقوق غصب کرنے سے متعلق رپورٹس اِتنی زیادہ ہیں کہ اُن سے درمیانے درجے کا ایک کتب خانہ بھرسکتا ہے۔ ان رپورٹس سے غزہ پر ڈھائے جانے والے تمام مظالم کے بارے میں سبھی کچھ جانا جاسکتا ہے۔ اِن رپورٹس کو پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف تو سہنے والوں نے کیا سہا ہے اور دوسری طرف ظلم ڈھانے والے سفّاکی اور بے رحمی کے معاملے میں کس کس حد سے گزرے ہیں۔ خیر، بنیادی حقوق سے متعلق یہ ریکارڈ چند ماہرین کے سوا نامعلوم اور بے خواندہ ہے اور تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ بنیادی حقوق کے ماہرین بھی بہت حد تک اسرائیلی ہتھکنڈوں ہی کا شکار ہوئے ہیں۔ بنیادی حقوق سے متعلق یہ رپورٹس ایک طرف تو اُن کے لیے بہت قیمتی ہیں جو بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہیں اور حقائق و حقیقت تک پہنچنے کے خواہش مند ہیں، جبکہ دوسری طرف یہ رپورٹس (اگر اِن سے زیادہ استفادہ نہ کیا جائے تو) اُن لوگوں کے اسلحہ خانے میں ایک اچھے ہتھیار کا کردار ادا کرتی ہیں جو انصاف کی آبرو کسی حد تک بچانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سرگرم ہیں۔
غزہ پر جو تباہی آئی ہے وہ انسانوں کی تباہی ہے اور انسانوں ہی کے ہاتھوں آئی ہے۔ یہ تباہی تواتر سے واقع ہوتی رہی ہے۔ یہ تباہی جنگ کے پردوں میں لپٹی ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی یہ دُور افتادہ معاملہ ہے۔ یہ تو دن کی روشنی میں بے پردہ ہونے والی حقیقت ہے، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ سب کچھ بالارادہ نہیں تب بھی اِس کے انتہائی سنگین جرم ہونے کی حقیقت کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ قارئین اس کتاب کے مطالعے سے خود اچھی طرح طے کرسکیں گے کہ یہ سارا بیان محض سادہ لوحی پر مبنی ہے یا ریکارڈ کے ذریعے اِس کے ٹھوس ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ مصنف بھی غزہ کے معاملے میں جانب دار ہے یا حقائق خود غزہ کے لیے جانب دار ہیں۔ اور یہ بھی کہ غزہ مختلف بیانیوں کے درمیان فرق کرنے کا چیلنج پیش کرتا ہے یا پھر یہ سفید جھوٹ سے معصومیت کو الگ کرنے کا چیلنج ہمارے سامنے رکھتا ہے۔ سیاسی اعتبار سے ’’دانش مندی‘‘ یہ ہے کہ غزہ کے معاملات کی پیچیدگی پر آئیں بائیں شائیں کرتے رہیے۔ اخلاقی ذمہ داری سے بھی پسپائی اختیار کی جاسکتی ہے۔ ایسا اس لیے ممکن ہے کہ غزہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے جو دروغ بیانی کے ہزاروں ٹکڑوں سے مل کر بنا ہے۔ اس کتاب کو ضبطِ تحریر میں لائے جانے کا بنیادی مقصد ہر چھوٹے جھوٹ کا پردہ چاک کرکے اِس بڑے جھوٹ کا مؤثر توڑ کرنا ہے۔ اس کتاب کو محض محبت سے کی جانے والی محنت کا ثمرہ نہیں کہا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے مزہ کردینے والے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے محنتِ شاقّہ سے کام لیا گیا ہے۔ برائی اگر پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے تو اِسے شواہد اور دلائل کے ساتھ ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کی جاسکتی ہے۔ قارئین کو پہنچنے والی تکلیف کے لیے پہلے سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ اس کتاب کے پڑھنے کے لیے غیر معمولی تحمل کی ضرورت پڑے گی۔
نارمن جی فرینکل اسٹین
31 دسمبر 2016
نیو یارک سٹی
………
29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کی منظوری دی جس کے تحت برطانیہ کے زیرِ تصرّف فلسطین کو آزاد اسرائیلی ریاست اور آزاد فلسطینی ریاست میں تقسیم کیا گیا۔ اسرائیل 56 فیصد فلسطین پر مشتمل تھا۔ مقبوضہ بیت المقدس سمیت فلسطین کے ایک فیصد رقبے کو بین الاقوامی زون میں تبدیل کرنے کے لیے الگ کردیا گیا تھا۔ اس قرارداد کی منظوری اور اسرائیل کے قیام کے بعد جو جنگ چِھڑی اُس کے نتیجے میں اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے 80 فیصد پر قابض ہوکر اُسے اپنا حصہ بنالیا۔ فلسطین کے جو علاقے اسرائیل فتح نہ کرسکا اُن میں سے غربِ اردن کے علاقے کو اردن نے اپنا حصہ بنایا، جبکہ غزہ کی پٹی مصر کے زیرِ تصرّف آگئی۔ جزیرہ نما سینا سے جُڑی ہوئی غزہ کی پٹی شمال اور مشرق میں اسرائیل سے جُڑی ہوئی ہے۔ جنوب میں مصر ہے اور مغرب میں بحیرۂ روم۔ 1948ء کی جنگ میں کم و بیش ڈھائی لاکھ فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑ کر غزہ کی پٹی کا رخ کرنا پڑا۔ تب وہاں کی مقامی آبادی 80 ہزار تھی۔ آج غزہ کی پٹی میں بسنے والے 70 فیصد افراد 1948ء کی جنگ میں اپنے علاقوں سے بے دخل ہونے والے اور ان کی اولاد پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے نصف کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ آبادی میں 14 سال تک کے افراد کا دوسرا سب سے زیادہ تناسب غزہ کی پٹی میں ہے۔ غزہ کی پٹی 25 میل لمبی اور 5 میل چوڑی ہے۔ اس میں 18 لاکھ افراد آباد ہیں۔ غزہ کی پٹی کا شمار دنیا کے سب سے گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں فی مربع میل آبادی کا تناسب جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے بھی زیادہ ہے۔ 1967ء کی جنگ میں غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے کے بعد سے 2005ء میں اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کی طرف سے فوجیوں کے دوبارہ تعینات کیے جانے تک اس علاقے کو ایک ایسی انتظامیہ کے ماتحت رکھا گیا جس کا مقصد بنیادی ترقی کے ہر امکان کو ختم کرنا تھا۔ ہارورڈ کی پولیٹکل اکنامسٹ سارہ رائے کے مطابق غزہ کی مقامی آبادی کو زمین، پانی اور افرادی قوت کے حوالے سے شدید محرومی کی حالت میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں یہاں کے لوگ اپنے قدرتی وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہونے سے قاصر رہے ہیں۔
جدید غزہ نے جو اذیتیں سہی ہیں اور یہاں کے لوگ جن بحرانوں سے دوچار ہوتے رہے ہیں اُن کے بارے میں باہر کی دنیا بہت کم جانتی ہے۔ 1949ء میں اسرائیل اور فلسطینیوں کی جنگ ختم ہونے کے بعد مصر نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی فدائین پر سخت نظر رکھی۔ 1955ء کے اوائل میں صدر جمال عبدالناصر کی حکومت کا تختہ الٹنے کی غرض سے اسرائیلی سیاست دانوں نے مصر کو جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کی پٹی میں داخل ہوکر وہاں تعینات 40 مصری فوجیوں کو ہلاک کردیا۔ غزہ پر بولا جانے والا دھاوا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا، کیونکہ سرحدی کشیدگی بڑھی اور ہلاکتیں بھی۔ اکتوبر 1956ء میں اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کی مدد سے جزیرہ نما سینا پر حملہ کیا اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا۔ معروف اسرائیلی تاریخ دان بینی مورس نے اس معاملے کو یوں بیان کیا:
’’بہت سے فدائین کے علاوہ مصر اور فلسطین کے کم و بیش چار ہزار ریگولر فوجی غزہ میں پھنس کر رہ گئے۔ اسرائیلی فوج، جنرل سیکورٹی سروس اور پولیس نے انہیں شناخت کرکے گرفتار کرلیا۔ درجنوں فدائین کو مقدمہ چلائے بغیر سزائے موت دے دی گئی۔ غزہ کی پٹی پر قبضے کے کچھ ہی دن بعد اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپوں میں سیکڑوں فدائین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 3 نومبر کو غربِ اردن کے قصبے خان یونس پر قبضے کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے سیکڑوں مقامی باشندوں اور فلسطینی پناہ گزینوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اقوامِ متحدہ نے ایک رپورٹ میں تصدیق کی کہ اسرائیلی فوجیوں نے جب مسلح افراد کی تلاش میں پناہ گزین کیمپوں اور مقامی آبادی کے مکانات کو کھنگالنا شروع کیا تب 135 مقامی باشندے اور 140 پناہ گزین مارے گئے۔‘‘
یکم اور 2 نومبر کو اسرائیلی فوج نے فلسطینی قصبے رفاہ پر قبضہ کیا۔ اس موقع پر 80 تا 100 فلسطینی پناہ گزینوں کے علاوہ متعدد مقامی باشندے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ 12 نومبر کو مسلح فدائین کی تلاش میں آپریشن کے دوران 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ تھا کہ مقامی آبادی میں مصر اور فلسطین کے سابق فوجی اور فدائین چھپے ہوئے تھے۔ 2 اور 20 نومبر کے دوران غزہ کی پٹی میں گھر گھر تلاشی کے دوران 66 فلسطینیوں کو (جو فدائین بتائے گئے) قتل کردیا گیا۔
اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی پر قبضے کے ابتدائی تین ہفتوں کے دوران کم و بیش 557 عرب سویلینز کو ہلاک کیا۔
امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور کی طرف سے غیر معمولی سفارتی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے انتباہ کے بعد مارچ 1957ء میں اسرائیلی فوج کو غزہ سے نکلنا پڑا۔ اسرائیلی آپریشنز کے خاتمے تک غزہ کے ایک ہزار سے زائد باشندے موت کے گھاٹ اتارے جاچکے تھے۔ ایک تاریخ دان نے حال ہی میں تبصرہ کیا ہے کہ ’’غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے چار ماہ کے قبضے کے دوران جانی نقصان غیر معمولی نوعیت کا رہا۔ ہلاک ہونے والوں کے علاوہ اگر زخمی ہونے والوں، اذیت سہنے والوں اور قید کیے جانے والوں کا بھی ریکارڈ مرتب کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ غزہ کی پٹی میں ہر سو میں سے ایک فرد کو اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ حملہ آور اسرائیلی فوج نے بھرپور تشدد کو بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔‘‘
جو کچھ غزہ کو اس وقت سہنا پڑ رہا ہے اُس کے ڈانڈے ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں سے ملتے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے 1967ء کی جنگ میں غربِ اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا اور یہ قبضہ اب تک برقرار ہے۔ بینی مورس کہتے ہیں ’’غربِ اردن اور غزہ کی پٹی کے عرب باشندوں نے اسرائیلی قبضے کو کبھی پسند اور قبول نہیں کیا۔ یہ بات بھی طے ہے کہ اسرائیلی فوج کا قبضہ سول نافرمانی اور پُرامن احتجاج یا بائیکاٹ وغیرہ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ غربِ اردن اور غزہ کی پٹی کو اسرائیلی قبضے سے چھڑانے کے لیے فلسطینیوں کے پاس صرف مسلح جدوجہد ہی کا آپشن ہے۔ کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے دوسرے معاملات کی طرح غربِ اردن اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کا معاملہ بھی طاقت کے بے محابا استعمال، تشدد، اذیت، سازش، گٹھ جوڑ، یومیہ بنیاد پر ہراسانی، شدید ذہنی دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈوں، مورال گرانے والے اقدامات، تذلیل اور دیگر منفی معاملات سے عبارت رہا ہے۔‘‘
فلسطینی روزِ اوّل سے اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑتے آئے ہیں۔ غزہ کے باسیوں نے مسلح اور غیر مسلح ہر طرح کی جدوجہد کی ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے مظالم بھی کم نہیں ہوئے ہیں بلکہ بڑھتے ہی گئے ہیں۔ 1969ء میں ایریل شیرون نے اسرائیلی فوج کی جنوبی کمان سنبھالی اور غزہ میں ہر طرح کی مزاحمت کچلنے کی بھرپور مہم بھی شروع کی۔ غزہ کے امور سے متعلق معروف امریکی ماہر نے اس پورے معاملے کو یوں یاد کیا ہے: ’’ایریل شیرون نے پناہ گزین کیمپوں میں چوبیس گھنٹے کا کرفیو نافذ کیا۔ گھر گھر تلاشی کے دوران تمام مردوں کو نکال کر باہر چوک پر کھڑا کردیا جاتا تھا۔ گھر گھر تلاشی کی مہم کے دوران بہت سے مردوں کو کمر تک بحیرۂ روم کے انتہائی سرد پانیوں میں گھنٹوں کھڑا رکھا جاتا تھا۔ مشتبہ فدائین کے بارہ ہزار سے زائد رشتے داروں اور دوستوں کو جزیرہ نما سینا میں قائم حراستی مراکز میں رکھا گیا۔ چند ہی ہفتوں میں اسرائیلی پریس نے فوجیوں اور پولیس پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے، گولیاں برسانے، تلاشی کے دوران گھروں میں سامان کو نقصان پہنچانے اور کرفیوکے دوران انتہائی سخت پابندیاں عائد کرنے کا الزام لگاکر تنقید شروع کردی۔‘‘
جولائی 1971ء میں ایریل شیرون نے پناہ گزین کیمپوں میں مقیم افراد کی تعداد گھٹانے کا آپریشن شروع کردیا۔ اگست کے آخر تک اسرائیلی قابض فوج نے کم و بیش 13 ہزار افراد کو دربدر کردیا۔ کیمپوں میں فوجیوں کی نقل و حرکت آسان بنانے کے لیے بہت سے مقامات پر بلڈوزر چلادیے گئے۔ اسرائیلی فوج کے کریک ڈاؤن نے مزاحمت کی کمر توڑ دی۔
دسمبر 1987ء میں غزہ اور اسرائیل کی سرحد پر سڑک کے ایک حادثے میں چار فلسطینیوں کی ہلاکت نے عوام کو بغاوت کی تحریک دی۔ یہ غیر مسلح بغاوت تھی۔ شہریوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف سڑکوں پر آنے اور مسلح نہ ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طور مزاحمت کا فیصلہ کیا۔ فلسطینی نوجوانوں نے غلیل کے ذریعے فوجیوں اور پولیس کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ عام فلسطینی پتھراؤ سے بھی کام لیتے، چاقو بھی استعمال کیے گئے۔ بینی مورس کہتے ہیں ’’اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کی مزاحمت کچلنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتی تھی۔ ہلاک یا زخمی کرنے کے لیے فائرنگ، تشدد، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، ایذا رسانی، انتظامی حراست، اقتصادی پابندیاں وغیرہ وغیرہ۔ جان سے ہاتھ دھونے والے فلسطینیوں میں سے اکثریت کو ایسے حالات میں گولی ماری گئی جو کسی بھی اعتبار سے کسی کی زندگی کے لیے خطرہ نہ تھے۔ مارے جانے والوں میں اکثریت بچوں کی تھی۔ اسرائیلی قابض فوجیوں نے بہت بڑے پیمانے پر مظالم ڈھائے اور زیادتیاں کیں، تاہم اسرائیلی فوج کی لیگل مشینری نے چند ہی بُرے کرداروں کا محاسبہ کیا، اور اِن میں سے بھی بیشتر کو معمولی سی سزائیں دے کر ریلیف دے دیا گیا۔‘‘
1990ء کے عشرے کے اوائل تک اسرائیل پہلی انتفاضہ (عوامی بغاوت) کو بہت حد تک کچل چکا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل تنظیمِ آزادیِ فلسطین سے اوسلو (ناروے) میں خفیہ مذاکرات کے ذریعے ہونے والے معاہدے میں شریک ہوا جس کی تصدیق و توثیق امریکی ایوانِ صدر کے لان میں کی گئی۔ اسرائیل نے اس معاہدے کے تحت فلسطینی علاقوں سے اپنے فوجیوں کو ہٹانے اور اُنہیں اپنے زیرِ تصرّف رکھنے کے سلسلے میں فلسطینیوں ہی سے مدد لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ شلومو بین ایمی کا کہنا ہے کہ اوسلو معاہدے کا ایک مطلب یہ تھا کہ آزادی کی خاطر فلسطینی جو جمہوری اور مسلح جدوجہد کررہے تھے اُسے کچلنے اور معاملات کو اسرائیل کے لیے قابلِ قبول بنانے کے عمل میں تنظیمِ آزادیِ فلسطین اسرائیلی حکومت کی بھرپور معاونت کرے گی۔ اسرائیلی کابینہ کے سابق رکن نیتن شیرینسکی کہتے ہیں کہ اوسلو معاہدے کا بنیادی مقصد غزہ پر اسرائیلی قبضے کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں معاونت کے لیے ایک سخت گیر آمر حکمران تلاش کرنا تھا۔ اِسی صورت اسرائیلی فوج کو زحمتِ کار دیے بغیر معاملات کو اپنے حق میں کیا جاسکتا تھا۔ دوسری طرف اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن نے اپنی کابینہ میں تحفظات کا شکار ہونے والے ارکان کو بتایا کہ بہتر یہی ہے کہ غزہ کا کنٹرول خود فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے کیونکہ وہ اپنے لوگوں سے اپنے طریقوں سے نمٹیں گے اور اسرائیلی فوج کو بھی وہ سب کچھ کرنے کی اجازت ہوگی جو وہ ضروری سمجھے گی۔ اسحاق رابن نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی علاقوں میں خود فلسطینیوں کی حکومت ہوگی اور انتظامی معاملات بھی اُسی کے ہاتھ میں ہوں گے تو اسرائیل کی سپریم کورٹ تک کسی کو آنے نہیں دیا جائے گا اور بنیادی حقوق و شہری آزادیوں کے لیے آواز اٹھانے والوں کو بھی زیادہ متحرک ہونے کی گنجائش نہیں دی جائے گی۔