نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی اشتعال انگیز اور نامناسب گفتگو دونوں ممالک کے درمیان دوری اور بداعتمادی کا باعث بن رہی ہے
افغانستان پر امریکی قبضے کے خاتمے اور نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی ان کے حمایت یافتہ صدر اشرف غنی اور دوسرے حکومتی عہدے داروں اور فوجی حکام نے بھی فرار کی راہ اختیار کرلی۔ فوج اور انتظامی ادارے منتشر ہوگئے۔ ان تمام کے جرائم بڑے سنگین اور ناقابلِ فراموش تھے۔ یہ سزا اور احتساب کے خوف سے بھاگ نکلے۔ حالاں کہ افغان طالبان انتقام کی پالیسی سرے سے نہیں رکھتے تھے۔ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد بھی انہوں نے کسی پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ چناں چہ افغانستان امن کی طرف لوٹ آیا۔ اڑوس پڑوس کے ممالک غیر یقینی کیفیت سے نکل گئے۔ پاکستان کے اندر بے امنی کے واقعات کا پس منظر البتہ الگ ہے۔ یہ جنرل پرویزمشرف کی کارستانی کا نتیجہ ہے جس نے واشنگٹن سے ایک ٹیلی فون کال پر پاکستان کو امریکی فوجی اور جاسوسی کے اڈے میں تبدیل کردیا۔ پاکستان کی سرزمین سے امریکہ نے افغانستان پر 52ہزار سے زائد فضائی حملے کیے۔ جدید ترین ہتھیاروں سے افغان سرزمین اور وہاں کے باشندے نشانہ بنتے رہے۔ کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ پرویزمشرف حکومت افغانستان سے بھاگتے عربوں اور طالبان سے وابستہ افراد کو پکڑ پکڑ کر امریکی فوجیوں کے حوالے کرتی رہی، جو بگرام اور افغانستان کے دوسرے فوجی اڈوں اور گوانتاناموبے کے عقوبت خانوں میں ڈالے جاتے۔ اسلام آباد میں متعین افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سفارتی استثنا کے باوجودامریکی درندوں کے حوالے کردیے گئے۔ پرویزمشرف رجیم کی امریکی ہمنوائی کے بدلے پاکستان کو بدامنی اور عسکریت پسندی ملی۔ خیبر پختون خوا کے قبائلی علاقوں میں مسلح گروہ جنرل پرویزمشرف کی پالیسی ہی کا نتیجہ تھے۔ گویا تحریک طالبان پاکستان کی آبیاری افغانستان کے بارے میں پالیسی کا حاصل ہے۔ یوں ملک جلتا رہا۔ مختلف فوجی آپریشنز، اسی طرح آپریشن ضربِ عضب کے باعث یہ جنگجو مع خاندانوں کے افغانستان منتقل ہوگئے اور مختلف سرحدی منطقوں میں آباد ہوگئے۔ امریکی چھتری کے نیچے قائم افغان حکومتوں نے ان عسکریت پسندوں کی پشت پناہی شروع کردی۔ افغانستان میں بے نکیل بھارتی خفیہ ایجنسی نے کھل کر سرمایہ کاری کی، جبکہ پاکستان کے اندر آپریشن ضربِ عضب کے بعد بھی آگ اور خون کا سلسلہ تھم نہ سکا۔
افغان طالبان نے15 اگست 2021ء کو اقتدار سنبھالا۔ اس حکومت کو داعش سے جنگ وراثت میں ملی، بلکہ امریکی قبضے کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ افغان طالبان داعش گروہ سے بھی لڑرہے تھے۔ داعش کا تخلیق کار امریکہ ہی گردانا جاتا ہے، اس گروہ کی مالی اور اسلحی معاونت کے بارے میں سابق افغان صدر حامد کرزئی تک امریکہ کی جانب اشارے کرچکے تھے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی جس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ اب ان سے کارروائی کا تقاضا کیا جارہا ہے جو کابل حکومت کے لیے ناممکن ہے، کابل حکومت کی اتنی استعداد اور گرفت نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ طویل سرحدی پٹی پر نظر رکھ سکے۔ یہ تو پاکستان کے لیے بھی ناممکن ہے جو 7لاکھ سے زائد فوج کا حامل ہے، بہترین فضائیہ اور بہترین جاسوسی کے ادارے رکھتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ کوئٹہ کے اردگرد کے پہاڑوں میں بلوچ مسلح گروہوں کی سرکوبی ممکن نہیں بنائی جاسکی۔ دلیل دی جاتی ہے کہ طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بدامنی میں اضافہ ہوا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی کے وقت شاید ہی کوئی دن بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں کسی نہ کسی سنگین مردم کُش واقعے کے بغیر گزرا ہو۔ فورسز پر حملے اور ہدفی قتل کے واقعات معمول تھے۔ دلیل دی جاتی ہے کہ حالیہ واقعات میں افغان باشندے ملوث پائے گئے، تو اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوا کہ ان افراد کو کابل حکومت تیار کرکے بھیجتی ہے۔ عسکریت پسندی کی طرف کوئی بھی مائل ہوسکتا ہے۔ داعش سے وابستہ کئی پاکستانی نوجوان افغان طالبان کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں، کئی ان کی قید میں ہیں۔ لیکن ملک کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی اشتعال انگیز اور نامناسب گفتگو دونوں ممالک کے درمیان دوری اور بداعتمادی کا باعث بن رہی ہے، حتیٰ کہ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات تک کابل کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور گھس کر ماردینے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ افغان سرحدوں پر قدغن لگائی گئی، افغان باشندوں کو بڑی بے رحمی اور ذلت آمیز طریقے سے نکالنا شروع کردیا گیا، اور ان مخصوص اوقات میں دنیا کے ساتھ مل کر افغانستان کو مسلح گروہوں کی آماج گاہ ثابت کرنے کا ابلاغ شروع کیا گیا۔ ابھی 8 دسمبر 2023ء کے قومی اخبارات میں مضحکہ خیز اور من گھڑت رپورٹ شائع ہوئی ہے، ”ایشیا پیسفک فورم“ کے توسط سے انکشاف گھڑا گیا ہے کہ افغانستان میں23 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو امریکہ، چین اور پاکستان سمیت 53 ممالک میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔ تحریک اسلامی ترکمانستان چین کو، جبکہ آئی ایم یو ازبکستان کو نشانہ بناتی ہے۔ جنداللہ ایران میں، داعش یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی پھیلاتی ہے۔ کبھی اقوام متحدہ کی جانب سے رپورٹیں آتی ہیں۔ یہی اقوام متحدہ موجودہ کابل حکومت کی امن قائم کرنے کی تعریف کرچکا ہے۔ چین کے ساتھ افغانستان کی سرحد 91 کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ چین نے کابل میں اپنا سفیر تعینات کررکھا ہے۔ پچھلے دنوں افغان سفیر بیجنگ میں تعینات ہوا ہے۔ چین اور افغانستان کے درمیان متعدد منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ اس میں معدنیات، تیل، گیس، انفرااسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔ واخان راہداری کا معاہدہ ہوچکا ہے جس کے ذریعے چین وسطی ایشیائی ممالک، ایران اور یورپ سے منسلک ہوگا۔ ایران کے ساتھ بھی مختلف منصوبوں پر معاہدے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ داعش بھی افغانستان میں کیمپ یا کمین گاہیں نہیں رکھتی۔ کابل داعش کا تقریباً خاتمہ کرچکا ہے۔ افغانستان میں داعش کے کارندے وسطی ایشیائی ملکوں سے تخریب کے لیے داخل ہوتے ہیں، یہاں تک کہ پاکستان سے بھی داخل ہوتے ہیں۔ لیکن افغانستان داعش گروہ کا خاتمہ کرچکا ہے۔ دراصل یہ سارا ابلاغ افغانستان میں عدم استحکام کے لیے کیا جارہا ہے، جو ایک نئی مہم جوئی کی نشاندہی کررہا ہے۔ مگر یاد رکھا جائے کہ ایسی کسی بھی مہم جوئی کا خمیازہ پھر پاکستان اور یہاں کے عوام کو بھگتنا ہوگا۔ افغان حکومت معاشی اور اقتصادی خودمختاری اور استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ وہ ملک کے اندر امن یقینی بناچکی ہے۔ خودکفالت کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکہ کو بھی معاشی، تجارتی اورسفارتی تعلقات کی دعوت دیتی رہتی ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور دینی جماعتیں افغانستان کے بارے میں گمراہ کن پروپیگنڈے کے سدباب کے لیے
آواز اٹھائیں۔ محمود خان اچکزئی نے چمن دھرنے سے اپنے خطاب میں سوال کے طور پر استفسار کیا کہ کہاں ہیں افغانستان 26 جنگجو تنظیمیں؟“ انہوں نے کہا کہ ”ٹی ٹی پی کا اگر کوئی بندہ ہوگا تو وہ آپ کے مظالم کے نتیجے میں بنی ہے“۔(بحوالہ 10دسمبر2023ءکے اخبارات) گویا محمود خان اچکزئی نے جنگی تنظیموں کی موجودگی کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ اللہ کرے کہ دانائی و بینائی اے این پی، این ڈی ایم، پی ٹی ایم کو بھی حاصل ہو۔ لہٰذا لازم ہے کہ دوسرے سیاسی بڑے بھی افغانستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے میں پوشیدہ منفی اور خوفناک عزائم کو بھانپتے ہوئے اس تخریبی کھیل کو پنپنے نہ دیں۔ میاں نوازشریف اور بلاول بھٹو زرداری اس ضمن میں معتدل رائے رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ عام انتخابات کے بعد بننے والی نمائندہ حکومت کشمکش اور بدگمانیوں کے بجائے افہام و تفہیم کی پالیسی اپنائے گی۔ دوسری صورت میں پیدا ہونے والے خلا سے بدیہی طور بھارت فائدہ اٹھائے گا۔