7 دسمبر کو غروبِ آفتاب سے دوسرے دن سورج ڈوبنے تک جنوبی غزہ پر اسرائیلی بمباروں نے 450 حملے کیے۔ غزہ کی پوری پٹی صرف 21 کلومیٹر لمبی ہے، یعنی آتش و آہن کی اس موسلا دھار بارش کا ہدف 80 کلومیٹر کا رقبہ تھا۔ اوسطاً ہر مربع کلومیٹر پر کم ازکم پانچ بم گرائے گئے۔ سوختہ جانوں کی مزاج پرسی کے لیے امریکی ساختہ بنکر شکن بم استعمال ہوئے۔ ہر بم میں دو ہزار پائونڈ بارود اور آتش گیر مواد بھرا تھا۔ اس طرح 24 گھنٹوں کے دوران میں اس 10 کلومیٹر لمبے اور 8 کلومیٹر چوڑے رقبے پر 9 لاکھ پائونڈ بارود برسایا گیا۔ ستم ظریفی کہ چند ہی دن پہلے دبئی کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں دنیا بھر کے زعما نے ماحولیاتی کثافت پر فکر انگیز بھاشن دیے تھے۔ بمباری کے دورانیے یعنی جمعرات کی شب سے جمعہ کی شام کا انتخاب ”شرعی ضرورت“ کے تحت کیا گیا کہ جمعہ کو غروبِ آفتاب سے ”سبت“ کا آغاز ہوجاتا ہے اور اس دوران خون خرابے کو کچھ ”متقی“ مناسب نہیں سمجھتے۔ اس لیے سنیچر کے لیے مختص بم بھی جمعہ کی شام تک گرالیے گئے کہ ”خلافِ شرع شیخ صاحب تھوکتے بھی نہیں“
اس وحشت کے ساٹھ دن مکمل ہونے پر غزہ کی وزارتِ صحت نے جو اعدادوشمار جاری کیے ہیں اس کے مطابق دو ماہ کے دوران 8 ہزار 640سے زیادہ بچے مارے گئے، یعنی اوسطاً 6 بچے فی گھنٹہ۔ علمائے تاریخ زیادہ بہتر بتاسکیں گے لیکن ہمارے خیال میں اس رفتار سے تو فرعون نے بھی بچوں کو ذبح نہیں کیا ہوگا۔ اور اب بمباری کے ساتھ بے در و بے گھر اہلِ غزہ کو بیماریوں نے آگھیرا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHOکے مطابق غزہ میں آب نوشی کے وسائل تباہ ہوجانے کی وجہ سے وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ 9دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسہال، کھجلی، سانس کی تکلیف اور ہیضے سمیت 15 مہلک وبائی امراض میں مبتلا تین لاکھ سے زیادہ مریض سامنے آئے ہیں۔ غزہ دنیا کا گنجان ترین علاقہ ہے اور ستّر فیصد مکانات تباہ ہوجانے کی وجہ سے 24 لاکھ نفوس تنگ و تاریک کوٹھریوں اور خیموں میں ٹھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وبائی امراض کی افزائش منٹوں بلکہ سیکنڈوں کے حساب سے ہورہی ہے۔
اسرائیلی بمبار تاک تاک کر رہائشی عمارات، مدارس و جامعات، بیمارستان و شفاخانوں اور مساجد و کلیسا کو نشانہ بنارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے قدیم ترین مسجد عثمان بن کاشغر شہید کردی گئی۔ خان یونس کے قریب الزیتون محلے کی یہ مسجد 620 ہجری یا 1220 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی۔ مسجد عثمان محض ایک عبادت گاہ نہ تھی بلکہ اقوام متحدہ نے اسے ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ اسی کے ساتھ ڈاکٹر، مہندسین، دانشور و معلمین بھی اسرائیلیوں کا ہدف ہیں۔ دو ہفتے پہلے ہم نے الشفا میں تعینات امریکی تعلیم یافتہ ماہر امراض گردہ(Nephrologist)حمام اللہ کا ذکر کیا تھا جنھیں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ اِس ہفتے ایک باکمال قلم کار، ادیب، شاعر، دانش ور اور مشفق استاد ڈاکٹر رفعت الاریر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پیوندِ ارضِ فلسطین ہوگئے۔ 44 سالہ رفعت کا تعلق غزہ شہر کے مضافاتی علاقے الشجاعیہ سے تھا۔ انھوں نے غزہ کی جامعہ اسلامیہ سے انگریزی میں بی اے، یونیوسٹی کالج آف لندن سے ایم اے اور جامعہ ملائشیا (UPM) سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ موصوف جامعہ اسلامیہ غزہ میں انگریزی اور Creative Writings کے پروفیسر، انگریزی و عربی میں کئی کتب کے مصنف، صاحبِ دیوان شاعر اور نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھے۔ دوسال پہلے اسرائیلی بمباری سے ان کے 30 رشتے دار مارے گئے، اور اب گھر پر فضائی حملے میں ڈاکٹر صاحب اپنی بیوی اور بچوں سمیت اللہ کو پیارے ہوگئے۔ کینیڈین پارلیمان کے رکن اور نیوڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ڈان ڈویس (Don Davies)نے اسے ثقافتی نسل کُشی قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا ”اسرائیل اب غزہ کے ممتاز ماہرینِ تعلیم، مصنفین، مورخین، شاعروں، فنکاروں، صحافیوں، اساتذہ کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہا ہے۔ یہ ثقافتی نسل کُشی ہے۔“
اتوار 10 دسمبر تک غزہ میں مارے جانے والے نہتے شہریوں کی تعداد 17700تھی، جن میں عورتوں اور بچوں کا تناسب 72 فیصد سے زیادہ ہے۔ قتلِ عام کی مہم میں عملی تعاون کے لیے صدر بائیڈن نے اسرائیل کو ٹینکوں کے 45000گولے ہنگامی بنیادوں پر فراہم کرنے کی ایک تجویز پر کانگریس سے گفتگو شروع کردی ہے۔ اس سودے کی مجموعی مالیت 50کروڑ ڈالر ہے۔ امریکی صدر 14 ارب 30کروڑ ڈالر کا پیکیج کانگریس کو پہلے ہی بھیج چکے ہیں۔
قہر و جبر، قتلِ عام اور مفادِ عامہ کے ڈھانچے کی مکمل بربادی کے ساتھ فوج کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے غزہ کے پناہ گزین خیموں سے نہتے بچوں کو پکڑ کر انھیں ہتھیار ڈالنے والے حماس کے سپاہی ظاہر کیا جارہا ہے۔ جلدی میں جعلی وردی بنوانا ممکن نہیں تو معصوم بچوں کی شرمناک برہنہ پریڈ آج کل اسرائیلی میڈیا کی زینت ہے۔
ان ہتھکنڈوں کے باوجود عسکری محاذ پر اسرائیل کو شدید مزاحمت بلکہ ہزیمت کا سامنا ہے۔ نفسیاتی دبائو بڑھانے کے لیے اب زیر زمین سرنگوں کو بحر روم کے پانی سے بھرنے کی خبریں دی جارہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وال اسٹریٹ جرنل نے خبر شایع کی کہ اسرائیل نے پانچ بڑے پمپ نصب کردیے ہیں جن سے پانی ان سرنگوں میں بھرا جائے گا۔ لیکن اس خبر پر حماس کا رد عمل آنے سے پہلے اسرائیلی جنگی قیدیوں کے لواحقین چیخ پڑے کہ اس کارروائی سے اور کچھ ہو نہ ہو، زیرزمین پناہ گاہوں میں رکھے گئے قیدی زندہ درگور ہو جائیں گے۔ جب اس موضوع پر بحث شروع ہوئی تو یہ پہلو سامنے آیا کہ زمینی کارروائی شروع ہوئے 43 دن گزرجانے کے باوجود اب تک کسی ایک سرنگ کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔ حماس نے دام ہمرنگِ زمین کی شکل میں جعلی سرنگیں کھودکر ”آگ کے جو گڑھے“ بنائے ہیں اس کی لپیٹ میں آکر کئی اسرائیلی فوجی راکھ بن گئے۔
جمعہ 8 دسمبر کو حماس کے ایک اڈے پر قید اسرائیلی سپاہی سعر بروش (Saar Baruch)کو رہا کرانے کے لیے اسرائیلی چھاپہ ماروں کا ایک دستہ پہنچا، لیکن فلسطینی ہوشیار تھے۔ مقابلے میں اسرائیل کے دو چھاپہ مار شدید زخمی ہوئے، اسرائیلیوں کی جوابی فائرنگ سے سعر بروش مارا گیا جس کی عمر 24 سال تھی۔
ابلاغِ عامہ پر مکمل گرفت کی وجہ سے ”سب اچھا“ اور کامیاب پیش قدمی کی خبریں شایع ہورہی ہیں، لیکن سوشل میڈیا کے دور میں سنسر اب اتنا مؤثر نہیں رہا، اور پھر محاذ سے آنے والے تابوتوں اور زخمیوں کو کیسے چھپایا جائے! جانی نقصان کم دکھانے کے لیے ہلاک ہونے والے سپاہیوں کو زخمی کہا جارہا ہے جو سفید جھوٹ بھی نہیں کہ میدانِ جنگ میں مارے جانے والے زیادہ تر سپاہی مجروح ہوتے ہیں اور پھر زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔
عبرانی روزنامہ یدیوت ہرنات (YediothA Ahronth) کے مطابق غزہ میں پانچ ہزار اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے جن میں سے دو ہزار معذور ہوچکے ہیں۔ معذور ہونے والوں میں 19 سے 24 سالہ خواتین کی اکثریت ہے۔ افغانستان میں بھی حملہ اور فوج کی ہلاکتیں بہت زیادہ نہیں تھیں لیکن بیس ہزار کے قریب جوان معذور ہوگئے۔ سابق فوجیوں(Veteran) کے اجتماعات میں وہیل چیئر اور بیساکھیوں پر گھسٹتے ان جوانانِ رعنا کو دیکھ کر عبرت ہوٓتی ہے۔
احمد شاہ ابدالی کی والدہ زرغون جان نے جنگ پر جاتے اپنے بیٹے سے کہا تھا کہ دشمن کا ہلاک، لشکری قوم کا ہیرو بن کر دشمن کے لیے حوصلے کا سبب ٹھیرے گا جبکہ معذور سپاہی دوسروں پر بوجھ اور قوم کے لیے نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ لہٰذا دشمن کے سینہ و سر کو نشانہ بنانے کے بجائے اس کی آنکھوں، پیروں اور کمر پر ضرب لگائو۔
7اکتوبر کو حماس کے حملے پر اسرائیلی فوج کو جو شرمندگی ہوئی تھی اس کی جھینپ مٹانے کے لیے فوج غزہ پر مکمل قبضے کے لیے ضد کی حد تک پُرعزم ہے۔ اس مہم پر بہترین سپاہی بھیجے گئے ہیں۔ سیاست دانوں اور جرنیلوں نے اپنے لختِ جگر محاذ کی طرف روانہ کیے تاکہ ان کی فاتحانہ واپسی خاندان کے لیے فخر اور سیاسی سرمایہ بن سکے، لیکن یہ نوخیز بچے تابوتوں اور بیساکھیوں پر واپس آرہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ اور ہنگامی کابینہ کے رکن جنرل غادی ایلیسنکوٹ (Gadi Elisenkot)کا 25 سالہ جواں سال بیٹا سارجنٹ مائر ایلیسنکوٹ حماس کے کھودے آگ کے ایک گڑھے میں گر کر جل مرا اور اس کی تدفین کے دوسرے دن جنرل صاحب کا بھتیجا غزہ میں مارا گیا۔ اس سے پہلے وزیراعظم نیتن یاہو کے بھتیجے کے زخمی ہونے کی اطلاع آئی تھی۔ ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ”اس جنگ میں ہم نے اپنے بہت سے بہت ہی قیمتی بچے کھودیے“۔
غزہ میں اسرائیلی ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کا نقصان بھی خاصا ہے۔ تل ابیب کو اپنے مرکاوا (Merkava)ٹینک پر فخر ہے جو مضبوطی اور ہلاکت خیزی کے اعتبار سے امریکہ کے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے ابراہام ٹینک سے دو ہاتھ آگے ہے۔ غزہ کوچ کرنے سے پہلے Slat Armorکے نام سے اس کے گرد بکتربند کا ایک اور حصار قائم کرکے اسے ٹینک شکن میزائیل سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ لیکن گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مقامی طور پر تیار کردہ الغول مشین گن نے درجنوں مرکاوا ٹینکوں کا شکار کیا۔ حماس ذرائع یہ تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ جنگ کے دوران اپنی کامرانیوں پر مبالغے کے ردے چڑھانا عام ہے کہ ”بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کے لیے“، چنانچہ حماس کے دعووں پر تحفظات غیر منطقی نہیں، لیکن اسرائیلی وزارتِ دفاعی پیداوار کے ذرائع بتارہے ہیں کہ غزہ سے آنے والی فرمائشوں کے باعث ان ٹینکوں کے تینوں بڑے خریدار فلپائن، چیک ریپبلک اور کولمبیا کو مرکاوا کی فراہمی عارضی طور پر معطل کردی گئی ہے۔
اسی کے ساتھ مستکبرین کی سپاہ میں Gastrointestinal diseasesکے پھیلائو کی خبر ہے۔ اشدود اسپتال میں وبائی امراض مرکز کے سربراہ ڈاکٹر طل بروش (Tal Brosh)کا خیال ہے کہ بیماری کا سبب Shigellaجرثومہ ہے جو اِن جوانوں کے باسی کھانوں میں پیدا ہوگئے ہیں (حوالہ روزنامہ یدیوت ہرنات)۔ سیانے پیٹ کی خرابی کو خوف کا شاخسانہ کہہ رہے ہیں۔ اس بیماری کے بعد عمدہ معیار کے ڈائپرز کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
اسرائیل کے دفاعی ماہرین بھی غزہ میں اپنی فوج کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ فوج کے سابق نائب سربراہ جنرل ئیر گولان (Yair Golan) نے اسرائیلی جریدے الارض (Haaretz) سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج حماس کو شکست نہیں دے سکتی اور نہ عسکری کارروائی سے کوئی ڈرامائی تبدیلی ممکن ہے۔ بہتر ہوگا کہ ہم (بات چیت کے ذریعے) اپنے قیدی چھڑالیں اور پٹی پر امدادی سرگرمیاں بحال کردیں۔ زمینی صورتِ حال اسرائیل کے حق میں نہیں۔
آخر میں 80 برس کی ایک جواں حوصلہ خاتون کا ذکر جو فلسطینی میڈیا کی زینت ہیں۔ محترمہ ہادیہ نصار نامی ان خاتون نے بہت مشکلات جھیلیں، جبری بے دخلی المعروف نکبہ کے دوران ہادیہ صاحبہ گھر سے نکالی گئیں اور غزہ آکر بس گئیں۔ یہاں یہ شفیق خاتون سب کی ماں جی تھیں۔ کہیں کوئی مشکل… ماں جی حاضر۔ بچے کی ولادت… تو ماں جی خدمت کو موجود۔ کہیں فوتگی ہوگئی تو دلاسے کو سب سے پہلے ماں جی۔ بہت ہی زندہ دل… ہنسنے، مسکرانے اور پریشان دلوں کو سکون پہنچانے میں ماں جی کی زندگی گزر گئی۔ بمباری کی حالیہ مہم کے دوران ماں جی کبھی ایک بستی جاتیں کبھی دوسرے محلے۔ سب یتیم بچوں کی دادی، زخمیوں کی تیماردار۔ ماؤں سے محروم بچوں کو آزادی کے ترانے کی شکل میں لوری سنانا، جوان لڑکوں کی ہمت بندھانا اور اللہ معنا (اللہ ہمارے ساتھ ہے) کہہ کر امید کے چراغ روشن کرنا ماں جی کا کام تھا۔ کیا بچی بالیاں اور کیا نوجوان… سبھی کے لیے ماں جی امید کی کرن تھیں۔ جب کوئی اسرائیل کی طاقت سے ڈراتا تو بہت فخر سے کہتیں انا اکبر من اسرائیل (میں اسرائیل سے بڑی ہوں)۔
8 دسمبر کو ماں جی ایک نشانچی ڈرون کا شکار ہوگئیں۔ ماتھے پر لگنے والی گولی شفیق ماں کے کاسہِ سر کو پاش پاش کرگئی۔ اللہ اپنی اس بندی پر رحم فرمائے جو پوری پٹی کے لیے مادرانہ شفقت کا استعارہ تھی۔ شاید جنت جانے والے 7000 بچوں کو دادی اماں کی لوری کے بغیر نیند نہ آتی ہو تو اللہ نے انھیں اپنے پھولوں کے پاس بھیج دیا اور ملاقات بھی ایسی کہ اب تو اللہ کی جنتوں میں ہمیشہ کا ساتھ ہے اِِن شااللہ۔ بے شک یہی اصل کامیابی ہے۔
…………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔