مشرق پاکستان کا المیہ

کسی بھی معاملے کا تاریخی پس منظر ایک خاص مدت گزرنے کے بعد ہی واضح ہوتا ہے، تب ہی لوگ اس پر غور کرکے کسی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ اصول ہر قسم کے معاملات پر لاگو ہوتا ہے۔ پس منظر بھی دو قسم کا ہوتا ہے… قریب کا اور دور کا۔ جو واقعہ ابھی کل ہوا ہے اُس کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ 500 یا 1000 سال بعد کیسا دکھائی دے گا! جن واقعات کو محدود نقطہ نظر سے دیکھنا ممکن نہ ہو اُن کا غیر جانب دارانہ اور منصفانہ تجزیہ آسان ہوجاتا ہے۔ دو عالمگیر جنگوں کے اسباب اور عوامل پر غور کرنا نپولین بونا پارٹ کے عروج و زوال کے اسباب تلاش کرنے سے بہت مختلف ہے۔ نپولین کا معاملہ محدود ہے، دو عالمگیر جنگوں کا معاملہ خاصا وسیع ہے اور اس میں کئی براعظم ملوث ہیں۔

مشرقی پاکستان کے المیے کو گزرے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں (یہ 1971ء کی بات ہے)۔ اب تک ہم اسے درست پس منظر میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اس کے اسباب صحیح نہج پر ہماری سمجھ میں نہیں آرہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سانحے کے اثرات ابھی تک واضح ہورہے ہیں اور ہم ان کی زد میں ہیں۔ اس بات کو سمجھنا بہرحال مشکل نہیں کہ ملّت کے غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر ہمیں اس المیے سے دوچار کیا۔

غدار کیونکر کامیاب ہوئے؟ اس سوال پر بحث کی بھرپور گنجائش ہے۔ ایک مرحلے پر ایسا دکھائی دیا جیسے ملک میں کوئی بھی محب وطن نہیں اور سبھی نے دشمن سے سازباز کرنے والوں کی قیادت قبول کرلی ہے۔ مگر جیل میں اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں تھا۔ ملک میں ایسے ہزاروں محب وطن تھے جو وطن کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتے تھے۔ تو پھر وہ اپنے ارادے میں ناکام کیوں رہے؟

میں جانتا ہوں کہ اس سوال کے جواب میں لوگ مشتعل ہوکر کہیں گے کہ ایک بڑی فوج نے ایک آزاد ملک کے بہت بڑے رقبے پر قبضہ کیا۔ اگر غداروں کو بھارتی فوج کی مدد حاصل نہ ہوئی ہوتی تو وہ ہرگز کامیاب نہ ہوپاتے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں جو جاندار آوازیں تھیں وہ بھی کمزور پڑ گئی تھیں اور انہوں نے ملک کے بارے میں سوچنا اور بولنا چھوڑ دیا تھا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف چلی گئی تھیں۔ رائے عامہ کو اس قدر متاثر کردیا گیا تھا کہ لوگوں نے مجموعی طور پر پاکستان کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ جب رائے عامہ پاکستان کے خلاف ہوگئی تو بھارتی فوج کے لیے کام آسان ہوگیا۔ کوئی بھی بڑا ملک کسی چھوٹے یا کمزور ملک پر قبضہ کرسکتا ہے، مگر رائے عامہ کو اپنا ہم نوا نہیں بناسکتا۔ جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان ممالک میں جرمنوں کو کچھ غدار بھی مل گئے تھے۔ فرانس میں مارشل پیٹین (Marshal Petain) اس حوالے سے نمایاں تھا، کچھ لوگ اُس کے ساتھ بھی تھے۔ مگر کوئی مؤرخ کسی بھی حال میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ جرمنوں نے فرانسیسی عوام کے جوش و جذبے پر بھی قابو پالیا تھا۔

ایک فرق اور بھی ہے۔ مارشل پیٹین اور لاول (Laval)نے بھی کسی مرحلے پر ہٹلر کو نجات دہندہ دیا۔ آندرے ملراکس (Andere Malraux) اور ژاں پال سارتر (Jean Paul Sartre)نے مشرقی پاکستان کے المیے کو قومی آزادی کی لڑائی قرار دیا تھا، لیکن امریکہ اور برطانیہ میں کوئی بھی بڑی شخصیت خود کو اس قدر واضح انداز سے بنگلہ دیش کے کاز سے نہ جوڑ سکی۔ البتہ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مشرقی پاکستان کے المیے کے دوران امریکہ اور برطانیہ کے پریس نے باغیوں کا کھل کر ساتھ دیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان اور امریکی سینیٹرز نے اس معاملے میں خود کو غیر جانب دار رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر انہوں نے کبھی ایک آزاد و خودمختار ملک، پاکستان کو دولخت کرنے والے عوامل کی مذمت کی بھی تو بس سرسری انداز سے۔ وہ بڑی آسانی سے پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی آسانی سے اتنے سارے لوگوں کو کس طرے بے وقوف بنایا گیا؟ ایسا کون سا طریق کار اپنایا گیا جس نے معاملات کو یکطرفہ طور پر پاکستان کے خلاف کردیا؟

(پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین۔ شکستِ آرزو، جب پاکستان دولخت ہوا(

مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے

نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔