گلو برگی یا گلبرگہ:بھارت میں ہند اسلامی تاریخ و تصوف کی ایک منفرد علامت

جنوبی ایشیا میں ہندوستان، جو اب بھارت بھی ہے، تاریخی اور تہذیبی لحاظ سے اور اگر ہندوتوا کے حوالے سے دیکھا جائے تو قدیم ہندی تاریخ و تہذیب کے رشتے سے ہندومت اور اسی طرح کے دیگر قدیم مذاہب سے جُڑا ہوا نظر آتا ہے، جس میں چودھویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والا وہ دور، جب ہندوستان اور بالخصوص دہلی میں، جسے بعد میں مسلم عہد میں سلاطینِ دہلی اور پھر مغلیہ دور میں ایک واضح سیاسی مرکزیت حاصل رہتی ہے اور اب تک حاصل ہے، 1321ء کے آس پاس مسلمان سلاطین کا زمانہ شروع ہوتا ہے، اور وہ سلاطین شمال سے نکل کر جنوب کا رُخ اختیار کرتے اور گلبرگہ، رائچور اور آس پاس کے دیگر علاقوں کو اپنی مملکت میں شامل کرلیتے ہیں، اور اس طرح گلبرگہ، جو دراصل ہمارا اس وقت خاص موضوع ِ بحث ہے، سلاطین کے اقتدار میں شامل ہوجاتا ہے، اور یوں یہاں بہمنی سلطنت کے آغاز سے ایک ایسا مسلم اقتدار قائم ہوتا ہے جسے ہند اسلامی تہذیب و روایات کے فروغ کے ایک علاقائی مرکز کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے جو ایک حد تک بالواسطہ آج تک برقرار کہی جاسکتی ہے۔

بہمنی سلطنت دراصل ہندو ریاست وجے نگر کی تبدیل شدہ مسلم ریاست تھی جو دیگر پانچ مسلم سلطنتوں کی بنیاد یا معاصر بنی اور انھیں اپنے اپنے اقتدار کا حق دار بنایا، جو دراصل احمد نگر کی نظام شاہی، بیدر کی برید شاہی، برار کی عماد شاہی، گولکنڈہ کی قطب شاہی اور بیجاپور کی عادل شاہی سلطنتیں تھیں۔ ان سلطنتوں اور بالخصوص بہمنی سلطنت کی تاریخ و تہذیب اور اس کے ایران سے روابط راقم الحروف کا پہلے بھی موضوع بنے ہیں، جیسے: ”دکن اور ایران، سلطنتِ بہمنیہ اور ایران کے علمی و تمدنی روابط“ (شمیم بک ایجنسی، کراچی، 1983ء) و بعدہٗ اضافہ شدہ ایڈیشن: ”دکن اور ایران، سلطنتِ بہمنیہ اور ایران کے علمی و تمدنی روابط“، دارالاحسن، کراچی، نومبر 2021ء)

گلبرگہ، جسے مسلمان مؤرخین نے احسن آباد اور آج کی تاریخ نویسی میں جسے کالا برگی (Kalaburagi) بھی کہا جارہا ہے، جو ایک ضلع تھا اور اس خطے میں اور مسلم اقتدار کے دوران اس شہر کو1347ء میں مسلم سلطنتِ بہمنیہ کے ایک اہم شہر بلکہ دارالسلطنت اور ایک صوبے کی حیثیت حاصل ہوگئی اور جو ایک صوبے دار کے زیرانتظام رہا۔ اس میں گلبرگہ کے علاوہ رائچور، عثمان آباد اور بیدرکُل چار اضلاع تھے۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کے مشرق میں محبوب نگر، مغرب میں شولا پور، شمال میں عثمان آباد اور جنوب میں دریائے کرشنا واقع ہیں۔ یہ شہر سلاطین بہمنیہ کا اوّلین دارالسلطنت رہا اور زمانۂ دراز تک اربابِ سلطنت کا مرکز بنارہا جو آصف جاہی عہد میں آصف جاہی حکمرانوں کے زیر نگیں آگیا اور اس نے اتنی توجہ اور ترقی حاصل کی کہ حیدرآباد کے بعد یہی شہر سب سے بارونق اور آباد و ترقی یافتہ سمجھا جاتا تھا۔

راقم الحروف نے بغرضِ سیاحت و ملاقاتِ اعزۂ وسطِ اپریل 1988ء میں اس شہر کو دیکھا اور چند دن قیام کیا ہے۔ اُس وقت یہ قدیم طرزِ کا شہر تھا جس کے گلی کوچوں اور بازاروں میں کوئی نیا پن نہ تھا، لیکن وہاں کے باشندوں کو کسی تکلیف یا دشواری کا سامنا نہ تھا۔ شہر اور اس کے آس پاس قدیم و جدید تعمیرات نظر آتی تھیں۔ شہر میں مختلف سمتوں میں چار کمانیں بنی ہوئی دیکھیں جن میں سے ایک اسٹیشن جانے والی سڑک پر، ایک قلعہ جانے والی سڑک پر، ایک ہمنا باد کی جانب اور چوتھی خواجہ بندہ نواز گیسودراز کے مزار کے قریب تعمیر کی گئی تھی۔ ایک دو مقامات پر وسیع و عریض تالاب بھی دیکھے۔ ایک کشادہ باغ ”محبوب گلشن“ دیکھا جس کے بارے میں سنا کہ میر محبوب علی خاں حاکمِ دکن نے تعمیر کروایا تھا۔ شہر کے قریب ہی ایک بہت پرانا اور قدرے وسیع قلعہ بھی ہے لیکن بے حد خستہ ہوچکا تھا۔ اس کے بارے میں سنا کہ عادل شاہی حکمرانوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں ایک بہت عالی شان مسجد ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے مسجد قرطبہ کی طرز پر نہایت اہتمام سے تعمیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کی تعمیراتی صفات کے سبب اسے ہندوستان کی چند منتخب مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس قلعے میں قدیم تعمیرات کے ساتھ ساتھ کچھ آبادی بھی نظر آئی جو کہتے ہیں کہ سرائے یا ہوٹل کے طور پر استعمال کرنے والوں کی وجہ سے ہے۔ چوں کہ اس شہر میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز (متوفی 1422ء) کا مزار ہے اس لیے ان کے چاہنے والے دور دور سے زیارت کے لیے عقیدت و محبت میں تشریف لاتے ہیں اور جن کی وجہ سے بالعموم شہر بھر میں ہی رونق و ہجوم چھایا رہتا ہے۔ شہر سے کچھ فاصلے پر مشرقی سمت میں شاہانِ بہمنی کے ہفت گنبد ہیں جو حضرت گیسودراز کے روضے سے بہت دور ہیں۔ شہر سے کچھ فاصلے پر ویرانے میں ایک اونچے مقام پر ایک صوفی بزرگ رکن الدین تولہ کا مزار ہے جن کا ہر سال عرس منایا جاتا ہے۔ اس طرح کئی دیگر صوفیۂ کے مزارات بھی اس شہر میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

جب میں نے اس شہر کو دیکھا تھا اُس وقت محض چند کالج اور اسکول تھے لیکن اب یونیورسٹی بھی موجود ہے، اور یہ سب تعلیم و تدریس کے علاوہ مطالعات و تحقیقی سرگرمیوں میں بھی مصروف ہیں کہ بعض اساتذہ اپنی تحقیقی و مطالعاتی سرگرمیوں کی وجہ سے اپنی ایک شناخت بھی رکھتے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے کہ اس شہر نے اب اپنے ماضی کے مقابلے میں خاصی ترقی کرلی ہے اور جنوبی ہند میں واقع دیگر ترقی یافتہ اور بارونق شہروں کی طرح مزید توجہ اور مرکزیت حاصل کررہا ہے۔ ویسے بھی اپنی قدیم طرزِ معاشرت کو اس نے اُس وقت بھی خاصا تبدیل کرلیا تھا جب بہمنیہ سلطنت ختم ہوئی تھی اور پھر اورنگزیب نے اس شہر کو دکن کی فتح کے بعد مغلیہ حکومت میں شامل کرلیا تھا۔ لیکن جب اٹھارہویں صدی میں مغلیہ حکومت زوال پذیر ہوئی تو اورنگ زیب کے ایک سپہ سالار آصف جاہ نے گول کنڈہ حکومت کی خودمختاری کا اعلان کردیا تو گلبرگہ مملکتِ آصفیہ میں شامل ہوگیا اور 1948ء تک اسی میں شامل رہا، لیکن جب مملکتِ آصفیہ کا انضمام انڈین یونین میں ہوگیا تو اسے ریاست میسور میں شامل کردیا گیا، اور اب یہ اسی ریاست کا ایک حصہ ہے۔

ان ساری سیاسی تبدیلیوں سے قطع نظر اس شہر کی جو تاریخی و تہذیبی حیثیت ماضی سے اس کا ایک امتیاز رہی ہے، وہ یوں ہی برقرار ہے اور اس پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ اس کو جو ایک فضیلت اور مرکزیت حضرت بندہ نواز گیسودراز اور ایک دوسرے صوفی بزرگ شیخ سراج الدین جنیدی کا شہر ہونے اور ان کے مزارات کے مرجع خلائق ہونے کی وجہ سے عہدِ قدیم سے حاصل ہے وہ اسی طرح برقرار ہے۔ بہمنی اور عادل شاہی حکمرانوں کے تعمیر کردہ متعدد آثار اس شہر کی فضیلت کو بڑھاتے ہیں۔ بہمنی سلاطین کا تعمیر کردہ قدیم و خستہ قلعہ بھی ایک تاریخی یادگار کے طور پر اس شہر کی شان بڑھاتا ہے جس کی تعمیر کہا جاتا ہے کہ واقعتاً ورنگل کے ہندو حکمراں راجا گول چند نے کی تھی لیکن جس کو بعد میں بہمنی سلاطین نے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس میں مسجد، محلات، گنبد اور دیگر کئی دل کش عمارتیں بھی تعمیر کروائیں۔ یہ سب تعمیرات اس کی تہذیبی شان و شوکت کی دلیل ہیں اور گلبرگہ کی تاریخی حیثیت کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ یہ ان ہی تعمیرات کی تاریخی حیثیت اور صوفی بزرگوں کے مزارات کا وجود ہے کہ سارا شہر ہی ہمیشہ مرجعِ خلائق اور بارونق رہتا ہے۔ پھر مزید یہ کہ جو تعلیمی و تصنیفی ادارے یہاں قائم ہوئے ہیں حالیہ عرصے میں ان کی تعلیمی و تدریسی اور مطالعاتی سرگرمیوں کی اطلاعات باہر پہنچی ہیں، یہ امر اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ اب یہ شہر تاریخ وتصوف میں اپنے امتیاز کے ساتھ ساتھ علمی و تعلیمی اور تصنیفی لحاظ سے بھی ثروت مند ہے اور اپنی اس حیثیت میں بھی متصف و ممتاز ہورہا ہے۔