ہر مسلمان جانتا ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، اور نبوت پر فائز ہونے سے پہلے چالیس سال تک باشندگانِ مکہ کے ساتھ رہے۔ بچپن گزارا، نوعمری اور جوانی، یہاں تک کہ پختہ عمر تک پہنچ گئے۔ ہم عمروں کے ساتھ بکریاں چَرائیں، تجارتی سفر کیے، سماجی تعلقات استوار کیے۔ بڑوں کا ادب، ہم عمروں کے ساتھ باہمی احترام، چھوٹوں کے ساتھ محبت و شفقت، ضرورت مندوں کی امداد، کمزوروں کے لیے سہارا، غلاموں کے ساتھ ہمدردانہ سلوک… اور پھر ہر معاملے میں، ہر انداز میں اعلیٰ اخلاق، خیر خواہی، ایثار و قربانی، مروت، سچائی اور دیانت داری کے اس بلند ترین معیار کا مظاہرہ کہ اپنا پرایا جو بھی دیکھتا حیران ہوتا کہ اس معاشرے میں یہ جداگانہ اندازِ زندگی رکھنے والا کہاں سے آگیا! چونکہ ظلمت کا راج تھا، روشنی سے محروم لوگ حق بیان کرنے سے عاجز تھے لیکن ذہن میں یہ سوچ رکھتے ضرور ہوں گے کہ یہ منفرد انسان ایک دن ہم سب کو اپنا جیسا بنالے گا۔
ایک مال دار بیوہ خاتون محاسنِ فاضلہ کا تذکرہ سنتی ہیں تو بغیر ضمانت اپنا کثیر مالِ تجارت حوالے کرتی ہیں کہ تجارتی سفر کرو۔ دوسرے جو شرح منافع دیتے ہیں اس سے دوگنا وصول کرو۔ خدمت کے لیے اپنا ایک غلام حوالے کرتی ہیں۔ غلام پورے سفر میں تاجر کے جملہ معمولات، گفتگو، لین دین، لوگوں سے برتائو اور اپنے سے حُسنِ سلوک… سب کچھ دیکھتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ یہ سب سے مختلف کون ہے! واپسی پر مالکہ کو تفصیل سے بتاتا ہے۔ روداد سن کر مال دار خاتون خود دعوتِ نکاح دیتی ہیں اور نکاح کے بعد اپنا تمام مال و اسباب اپنے شوہر کے حوالے کردیتی ہیں، اور شوہر کی خدمت کو اپنا وظیفہ بنالیتی ہیں اور اس نکاح کے طفیل پہلی ام المومنین کا مقام حاصل کرتی ہیں۔
کعبہ کی نئی عمارت تعمیر ہورہی ہے۔ مقررہ مقام پر حجر اسود نصب کرنے کا مرحلہ ہے۔ ہر قبیلہ خواہش مند ہے کہ یہ سعادت اُسے ملے۔ تکرار ہوتی ہے، خدشہ ہے جنگ و جدل ہوجائے۔ ایک مشورے پر سب متفق ہوجاتے ہیں کہ کل صبح جو سب سے پہلے حرم میں داخل ہو وہ حَکم ہوگا اور سب اُس کا فیصلہ مانیں گے۔ دیکھا تو یہ سعادت مکہ کے اعلیٰ ترین اخلاق کے حامل جوان محمد ابن عبداللہ کے حصے میں آئی۔ سب پکار اٹھے کہ صادق و امین آگیا، اب کسی کی حق تلفی نہ ہوگی۔ اور صادق و امین نے سب سرداروں کو سعادتِ تنصیب میں شریک بھی کرایا اور حجر اسود کو دستِ مبارک سے مقررہ جگہ پر نصب بھی کردیا۔
عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو نہ صرف مکہ میں بلکہ مکہ کے باہر بھی آپؐ صادق و امین فرد، کریم النفس بھائی اور کریم النفس بھتیجے کے طور پر معروف ہوچکے تھے۔ نبوت پر سرفراز ہوکر جب رب کے حکم سے دعوتِ عام کا آغاز کیا تو پہلے بنوہاشم کو کوہِ صفا پر جمع کیا اور پہلے اپنی ذاتِ اقدس کے بارے میں گواہی طلب کی، سب نے بیک زبان کہا تم بچپن سے صادق و امین ہو، تم جو بتائو گے ہم اس کو سچ مانیں گے۔ لیکن جب آپؐ نے اعلانِ نبوت کیا اور کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کی دعوت دی جس کو قبول کرنے کا مطلب اپنی خودساختہ خدائی کا خاتمہ کرنا تھا تو وہ لوگ اپنی گواہی سے مکر گئے تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ انقلاب سے ظلم وجور، عدم مساوات، طبقاتی تقسیم ا ور مذہبی پیشوائی کا مکروہ کاروبار ختم نہ ہوسکے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ابتدا ہی میں ختم ہوجائے۔ اس مقصد کے لیے جو حربے آزمائے اُن میں ایک یہ بھی تھا کہ لوگوں میں قرآن کے بارے میں شکوک پیدا کیے جائیں اور یہ یقین دلایا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب نہیں بلکہ معاذ اللہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خود کی تصنیف ہے، کوئی کاہن یا جن آپؐ کو سکھاتا ہے اور آپؐ وحی کے طور پر اس کو پیش کردیتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ… جس نے حق اور ہدایت کے ساتھ اپنے رسول کو بھیجا اور اپنی آخری کتاب قرآن مجید اس پر نازل کی… اس نے کفار کو بتایا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کو تم جوانی سے صادق و امین کہتے رہے ہو اب انہی کی نبوت کا انکار کررہے ہو! وہ تمہاری تصدیق کے محتاج نہیں ہیں، قرآن خود اللہ کے رسولؐ کی مجسم تصدیق کرتا ہے کہ وہ قرآن کے معاملے میں صادق و امین ہیں۔ تم کہتے ہو معاذ اللہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف ہے۔ قرآن جگہ جگہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر تمہیں اللہ کے کلام میں شک ہے تو ایک سورت نہ سہی چند آیات، اور چند آیات نہ سہی ایک آیت ہی قرآن کی مثل لے آئو ،لیکن تم کامیاب نہیں ہوسکتے، اگر قرآن انسان کا کلام ہوتا تو بہت سے انسان ایسا کلام لے آتے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صادق و امین ہونے کا یہ بیّن ثبوت ہے کہ قرآن کے ذریعے ہی تمہیں مثل لانے کا چیلنج دیتے ہیں۔ اگر معاذ اللہ یہ رسولؐ کا اپنا کلام ہوتا تو چیلنج کی آیات وہ تمہیں بار بار کیوں سناتے!
ہر انسان اپنی تعریف اور ستائش کو پسند کرتا ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت چاہتا ہے، لیکن کسی سرزنش، تنبیہ یا بازپرس والے معاملے کو مخفی رکھنا چاہتا ہے۔ قرآن سلطانِ کائنات کا فرمان ہے جو اس نے صراطِ مستقیم کے طلب گاروں کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی اپنے محبوب، ختم الرسل، خاتم الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیا کی طرح معصوم عن الخطا تھے، نیز مالکِ کائنات نے آپؐ کو امام الانبیا بناکر آپؐ پر نبوت و رسالت کا در بند کردیا۔ چونکہ قیامت تک اب آپؐ کی اطاعت و پیروی پر نجاتِ اخروی کا مدار ہے اس لیے آپؐ پر نازل ہونے والی کتاب اور آپؐ کی حیاتِ طیبہ کے ایک ایک گوشے کو قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا۔ ایمان لانے والوں کو یہ بھی یقین دلانا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم معصوم اور براہِ راست اللہ کی نگرانی میں ہیں اور ان کا مقام کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بعد دوسرا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ رب کے بندے ہیں، اس لیے کارِ نبوت کے سلسلے میں جہاں جابجا آپؐ کی تعریف و توصیف، انسانیت کی فلاح کے لیے آپؐ کی تڑپ، رکاوٹوں اور مشکلات میں صبرو عزیمت، دن رات کے آرام کی قربانی پر مقامِ محمود کی بشارت ملی، وہیں آپؐ کے ذریعے انسانیت کو سخت الفاظ میں تنبیہ بھی کی گئی۔ سورۂ عبس، سورہ تحریم، سورہ احزاب میں اس کی مثالیں ہیں۔
قرآن مجید براہِ راست آپؐ کے قلب پر نازل ہوتا۔ وحی آپؐ کے سوا کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ بار بار ایسا ہوا کہ امہمات المومنین اور صحابہ کو آپؐ کی کیفیت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا کہ اِس وقت آپؐ پر وحی نازل ہورہی ہے، لیکن وحی کی تفصیل کیا ہے یہ اللہ کے رسولؐ خود بیان فرماتے۔ سورہ عبس، تحریم، احزاب کے اشارات آپؐ ہی پر نازل ہوئے۔ اگر آپؐ ان کی تلاوت نہ فرماتے تو کسی کو بھی علم نہ ہوسکتا تھا، لیکن چونکہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کے لیے صادق و امین کی گواہی بنانا تھا، اس لیے منکرین کو بتادیا کہ قرآن معاذ اللہ اگر اللہ کا نازل کردہ نہ ہوتا تو اس میں ایسی آیات شامل نہ ہوتیں جن میں کسی ناراضی کا اظہار ہوتا، پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق و امین ہیں۔ قرآن ان کے لیے مجسم گواہی ہے کہ انہوں نے رب کی طرف سے نازل ہونے والا ایک ایک حرف تمہیں سنادیا اور تحریر کرواکر قیامت تک ہدایتِ انسانی کے لیے محفوظ کردیا۔ یہ کائنات کے صادق اور امین کا انسانیت پر احسانِ عظیم ہے۔