غیر مستحکم شخصیت رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
انفرادی سطح پر ظالم بننے کا سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے کہ مظلوم بن جایئے اور یوں ہر طرح کی لعن طعن اور بازپرس سے بے نیاز ہوجایئے۔ اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ظالم کا ظلم شدید ہوتا ہے اور مظلوم کا شدید تر۔ اس طرح کے نفسیاتی حربوں کے باعث ظالم اور مظلوم کی شناخت بری طرح مجروح ہوکر ختم ہوجاتی ہے۔ آج کے کالم میں ہم ایک ایسے ہی نفسیاتی مسئلے کا جائزہ لے رہے ہیں۔
عام تجربہ و مشاہدہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حساس لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بلکہ تعداد بڑھنا کیا، ہمارے معاشرے کا ہر فرد حساس آدمی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آپ ذرا سا کسی کو چھیڑ دیجیے، فوراً ہی آپ کو جواب ملے گا کہ صاحب! میں بہت حساس ہوں ذرا مجھ سے زبان سنبھال کر بات کیجیے۔ اسی طرح آپ اکثر کسی نہ کسی سے سنتے ہوں گے کہ صاحب! فلاں شخص بڑا ہی حساس ہے، ذرا اُس سے سوچ سمجھ کر گفتگو کیجیے گا۔ حساسیت کی یہ برکت اتنی عام ہوگئی ہے کہ مرد و عورت کی تمیز مشکل ہوگئی ہے۔ یعنی ریت پر کھنچی ہوئی لکیر اور پتھر پر کھنچی ہوئی لکیر میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ ریت کی لکیر کو جتنی آسانی سے مٹایا جاسکتا ہے پتھر کی لکیر کو بھی اتنی ہی آسانی کے ساتھ زیر و زبر کیا جاسکتا ہے۔
بظاہر معاشرے میں بڑھتی ہوئی حساسیت کی یہ کیفیت بڑی حوصلہ افزا ہے۔ حساسیت کا مطلب ہے حقیقی انسانی کیفیات کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا۔ خوب صورتی اور بدصورتی کے درمیان موجود فرق کے گہرے اور شدید شعور کا حامل ہونا۔ واضح رہے کہ میں یہاں خوب صورتی کو سچائی کے ہم معنی لفظ کے طور پر استعمال کررہا ہوں جیسا کہ انگریزی کے عظیم رومانوی شاعر جان کیٹس نے کہا تھا (ترجمہ)
حُسن سچائی ہے
اور سچائی وہ حسن ہے
جو ہمیشہ سے ہے
اور ہمیشہ رہے گا
اس حوالے سے دیکھا جائے تو کسی معاشرے کے افراد میں مذکورہ بالا خصوصیات کا پیدا ہونا بڑی اچھی بات ہے، کیوں کہ وہ معاشرہ بڑا صحت مند اور انسانی ہے۔
افسوس کہ ہمارا معاشرہ ایسا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پرورش پانے والی حساسیت بڑی جعلی قسم کی ہے۔ اس میں کئی بھیانک سقم پائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ کسی شخص کے ساتھ ذرا سے تیز لہجے میں گفتگو کریں گے تو اُس کی حساسیت فوراً عود کر آئے گی اور وہ برا مان جائے گا۔ لیکن جب یہی شخص کسی دوسرے کے ساتھ معاملہ کرے گا تو اسے رتی برابر بھی اس بات کا احساس نہیں رہے گا کہ دوسرا شخص بھی حساس ہو سکتا ہے اور اسے بھی دکھ ہوسکتا ہے یا اس کی بات بری لگ سکتی ہے۔ یعنی کوئی ہمیں ایک ذرّہ اٹھاکر مارے تو قیامت برپا ہوجائے، اور ہم کسی کو پورا پہاڑ بھی اٹھا کر دے ماریں تو کوئی بات نہیں۔ ہماری حساسیت کا پہلا جعلی پن تو یہ ہے۔
میرے خیال میں حساس آدمی بدصورتی کے سلسلے میں ہی نہیں خوب صورتی کے سلسلے میں بھی حساس ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقی معنوں میں حساس آدمی ہوتا ہی وہ ہے جس میں ان دونوں جہات کے سلسلے میں حساسیت پائی جاتی ہو۔ تاہم ہمارے معاشرے کا عام تجربہ شاہد ہے کہ ہم معمولی سی بری بات کا جتنا برا مانتے ہیں معمولی سی اچھی بات پر اتنا خوش نہیں ہوتے۔ ہم معمولی بری بات پر خود کو دوسرے سے جتنا دور محسوس کرتے ہیں معمولی سی اچھی بات پر خود کو دوسرے کے اتنا قریب محسوس نہیںکرتے۔ اسی طرح چھوٹی سی بری بات پر دوسرے کو جتنا مطعون کرتے ہیں چھوٹی سی اچھی بات پر دوسرے کو اتنا سراہتے نہیں۔ ہماری جعلی حساسیت کا یہ دوسرا پہلو ہے۔
اسی طرح جب ہمارے کسی جھوٹ کا پول کھلتا ہے، جب ہمارا اپنا Image ٹوٹتا ہے، یا ہمارے پاس کسی بات کا جواب نہیں ہوتا تو ہماری حساسیت جاگ اٹھتی ہے۔ یہ مذکورہ بالا حساسیت کے چند پہلو ہیں۔ اس معاملے کے کئی اور بھی زاویے ہیں، مگر چونکہ ہمارے کالم کی جگہ محدود ہوتی ہے اس لیے اس پر پھر کبھی بات کریںگے۔ چنانچہ اب سوال یہ ہے کہ ہماری یہ حساسیت ہے کیا شے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے تمام رویّے حساسیت کی نہیں بلکہ ہماری کمزور یا غیر مستحکم شخصیت کی پیداوارہوتے ہیں، بلکہ اکثر صورتوں میں واضح احساسِ کمتری کی۔ غیر مستحکم اور حساس شخصیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
نٹشے نے کہیں لکھا ہے کہ فن کار ہر طرح کے تاثرات کو قبول نہیں کرتا، بلکہ تاثرات کو قبول کرنے کے سلسلے میں اُس کے اندر ایک مخصوص روحانی جہت ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو اس مثال کو حساس شخص کے اوپر منطبق کرسکتے ہیں۔ یعنی حساس آدمی وہ نہیں ہوتا جو ہر بات یا ہر واقعے کا اثر قبول کرلے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو مخصوص باتوں اور واقعات کا ہی اثر قبول کرتا ہے۔ اثر قبول کرنے کی اصطلاح میں یہاں بڑے مخصوص معنوں میں استعمال کررہا ہوں۔ یعنی اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ بعض تاثرات کو قبول کرنے کے سلسلے میں بے حس ہوتا ہے یا بعض باتوں کا اس پر اثر ہی نہیں ہوتا، بلکہ یہاں اثر قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ہر تاثر کو قبول کرکے اس پر اپنے ردِعمل کا اظہار نہیں کرتا بلکہ چند تاثرات ہی ایسے ہوتے ہیں جو اس کے اندر ردعمل پیدا کرتے ہیں۔ اس کے برعکس غیر مستحکم شخصیت کا مالک ہر طرح کے تاثرات کو قبول کرکے ان پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ کبھی یہ ردعمل الفاظ میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے اور کبھی خاموشی کے ساتھ رویوں کی تبدیلی میں، جیسے کوئی آپ سے الفاظ میں کچھ نہ کہے لیکن خاموشی کے ساتھ آپ سے دور ہوتا چلا جائے۔
حساس شخصیت اور غیر مستحکم شخصیت کے درمیان ایک اور بڑا فرق پایا جاتا ہے، اور وہ یہ کہ حساس شخصیت یہ دیکھتی ہے کہ ’’غلط کہا گیا‘‘، جب کہ غیر مستحکم یا احساسِ کمتری کی شکار شخصیت یہ دیکھتی ہے کہ ’’میرے بارے میں غلط کہا گیا‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حساس شخصیت کا ردعمل کچھ مرکزی اور مجرد (Abstract) اصول سے پیدا ہوتا ہے، جب کہ غیر مستحکم شخصیت کا ردعمل اس کی اپنی ذات سے (یا بدذات سے) پیدا ہوتا ہے۔
حساس آدمی اور غیر مستحکم شخصیت کے درمیان ایک اور فرق ہوتا ہے۔ حساس آدمی کے منفی تجربے بھی اس کی آگہی میں اضافے کا ذریعہ و سبب بنتے ہیں، جب کہ غیر مستحکم یا احساسِ کمتری کے شکار فرد کے منفی تجربے اس کے لیے صرف اور صرف اذیت کا سامان ہوتے ہیں۔
مجھے تسلیم ہے کہ بچپن اور خاص طور پر بڑھاپے میں کچھ حساس لوگ بھی اپنی شخصیت کا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے۔ چنانچہ میری ان ناچیز آرا کا اطلاق اُن پر نہیں کیا جانا چاہیے۔ البتہ نوجوانوں پر میری ان معروضات کا اطلاق ہر صورت میں ہوگا۔
مجھے یہ بھی تسلیم ہے کہ بعض Extreme Situations میں حساس شخصیت اور غیر مستحکم شخصیت سے متعلق میری یہ Observations بڑی حد تک نادرست ہوسکتی ہیں۔ البتہ عام حالات میں ان کی درستی پر شبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔
اس پوری بحث کے پس منظر میں جب آپ اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ آپ کے معاشرے میں حساس لوگوں کے بجائے غیر مستحکم شخصیت رکھنے والے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جب کسی معاشرے میں غیر مستحکم شخصیات کی تعداد ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس معاشرے کا جذباتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کے Reactions بڑے غیر یقینی ہوجاتے ہیں۔ دوست لمحہ بھر میں دشمن، اور دشمن لمحہ بھر میں دوست بن جاتا ہے۔ یعنی ایسے معاشرے میں ہر شے سیّال (Fluid) بن جاتی ہے۔ بقول شاعر:
ٹکڑوں ٹکڑوں میں بسر کرتا ہوں عمر
لمحہ بھر کو جی اٹھا پھر مر گیا
ہمارے معاشرے کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس صورت میں ایک بڑی تعمیر کا امکان بھی ہے۔ مگر یہ امکان بھی صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے اذہان میں تعمیر اور تخریب کا فرق واضح ہے۔ کیا ہمارے اذہان میں تعمیر اور تخریب کا فرق واضح ہے؟ کوئی ہے جو جواب دے۔