پاکستان کا سیاسی بحران کے حل ہونے کے بجائے مزید بحرانوں کو پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ہم نے طے کرلیا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھنا۔ عمومی طور پر جمہوریت میں انتخابات کا تسلسل مسائل کے حل کا ذرائع بنتا ہے، لیکن ایسے ملک میں جہاں سیاست، جمہوریت اور انتخابات سمیت آئین و قانون جابرانہ طاقتوں کے شکنجے میں ہوں، وہاں کیسے درستی کی طرف بڑھا جا سکتا ہے! 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات ہونے ہیں۔ سیاسی قوتیں انتخابی سیاست کا جادو چلانے کے لیے یا تو لنگر لنگوٹ کس کر سامنے آگئی ہیں یا سیاسی میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔ ملک میں اس وقت انتخابی سیاست کا غلبہ ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں اصل اور حقیقی مسائل کے بجائے پرانی روایت کے مطابق الزامات یا دوسروں کی کردارکُشی کو بنیاد بناکر سیاسی مخالفین پر بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ آج بھی عام انتخابات کے تناظر میں پانچ اہم سوال زیر بحث ہیں:
(1) کیا انتخابات بروقت ہوسکیں گے؟ یا انتخابات کی شفافیت سمیت تمام سیاسی فریقوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے گی؟
(2) پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کی کس حد تک اجازت ہوگی؟
(3)کیا انتخابات کے نتائج کا خاکہ عملی طور پر پہلے ہی تیار کرلیاگیا ہے، اور کیا قرعۂ فال شریف خاندان یا نوازشریف کے حق میںنکلے گا کہ وہی اقتدار کی سیاست میں شامل ہوں گے؟
(4) کیا ہم ایک کمزور حکومت بنانے کا کھیل ترتیب دے چکے ہیں اور نئی حکومت ایک مخلوط اور کمزور حکومت ہوگی جس کو اقتدار تو دیا جائے گا لیکن کمزور اقتدار کی صورت میں اس کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے ایوانِ اقتدار تک محدود کیا جائے گا؟
(5) کیا انتخابات اور نئی حکومت سے پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران حل ہوجائے گا؟ یا ہمیں مزید نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟
اگر انتخابات 8 فروری کو ہونے ہیں تو امکان ہے کہ دسمبر کے پہلے ہفتے میں انتخابی شیڈول دے دیا جائے گا، اور اس کے بعد ملک میں عملی طور پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم کا آغاز کردیا جائے گا۔ اگرچہ اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں اور باخبر افراد کے بقول فروری میں بھی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اور معاملات کو ایک بار پھر آگے لے جانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں جو بھی سیاسی اور قانونی رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیونکہ انتخابات سے پہلے انتخابات یا ان نتائج کے معاملات کے حل میں مسائل کا سامنا ہے اور اسی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کے نتائج اور حکومت بنانے کے لیے شریف خاندان کو پیش کرنے کے کھیل نے پورے انتخابی نظام کو ہی مذاق بنادیا ہے۔ اگر واقعی یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اِس دفعہ اقتدار شریف خاندان کو دیا جائے گا تو پھر انتخابات کے کھیل کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کھیل کا مقصد کیا محض شریف خاندان کے اقتدار کی چھتری کو تحفظ دینا ہے؟ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول جو بھی انتخابات میں جیتے گا اسے کم عددی برتری دی جائے گی، اور ان کے بقول کوئی بھی جماعت 70، 80 نشستوں سے زیادہ نہیں جیت سکے گی، اور جو بھی حکومت بنے گی وہ مخلوط ہوگی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی تو کہتے ہیں کہ ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاقِ رائے یا اعتماد کا ماحول پیدا کیے بغیر یا طاقت ور سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے درمیان کچھ بھی طے کیے بغیر آگے بڑھنے کا عمل پورے ریاستی نظام کو کمزور کردے گا۔ ان کے بقول موجودہ حالات میں روایتی انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور ان کے نتائج اور سیاسی حیثیت کو بھی کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ اس وقت جہاں انتخابات کے انعقاد کی اہمیت ہے وہیں ان انتخابات کی شفافیت بھی خاصی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ شفافیت کے اس سوال کو بنیاد بناکر ہی ہم مستقبل کے سیاسی منظرنامے کو سمجھ بھی سکتے ہیں اور تجزیہ بھی کرسکتے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ آنے والے انتخابات کا میدان نوازشریف یا شریف خاندان کے حق میں اور عمران خان کی مخالفت یا اُن کو عملی طور پر دیوار سے لگانے کی بنیاد پر سجایا جارہا ہے۔ پی ٹی آئی کو انتخابات میں اپنے پارٹی نشان کے حصول میں بھی رکاوٹ کا سامنا ہے اور اس میں الیکشن کمیشن دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ بنیادی اعتراض انٹرا پارٹی الیکشن پر کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ 20 دن میں ان انتخابات کو یقینی بنایا جائے، ورنہ دوسری صورت میں آپ کو آپ کا انتخابی نشان نہیں مل سکے گا۔ ایسے موقع پر جب پی ٹی آئی کی پوری قیادت عملاً جیل میں ہے یا روپوش ہے اور بہت سے رہنما پارٹی چھوڑ چکے ہیں، کیسے پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کیا جاسکتا ہے؟ الیکشن کمیشن ہو یا کوئی اور سیاسی یا غیر سیاسی طاقت… وہ ہر صورت میں عمران خان کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ انتخابات سے نااہلی، پارٹی قیادت سے علیحدگی یا داخلی انتخابات کو بنیاد بناکر وہ عمران خان کو انتخابی سیاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے پارٹی انتخابات کے حکم کا اصل مقصد بھی یہ ہے کہ عمران خان پارٹی قیادت سے دست برداری کا اعلان کردیں تو ان کی جماعت کے لیے سیاسی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں جب پوری جماعت غائب ہے یا قیادت جیلوں میں ہے، کیسے پارٹی کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جاسکتا ہے اور انتخاب کیسے ممکن ہوگا؟ شرکت کی بھی کیا ضمانت ہے کہ جو لوگ جنرل کونسل کے اجلاس کے لیے اکٹھے ہونا چاہیں اُن کو اس بات کی عملی طور پر اجازت ہوگی اور انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا؟ جوالیکشن کمیشن خود آئین کے تحت 90 روز میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں بناسکا وہ کیسے کسی سیاسی جماعت کے داخلی انتخابات کو عام انتخابات کا شیڈول آنے سے کچھ دن پہلے ماننے سے انکار کرسکتا ہے؟ یہ جو سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کے بقول صوبائی گورنر، نگران حکومت، صدرِ مملکت اورالیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات نہ کرواکر آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا اورکس میں یہ ہمت ہوگی کہ وہ ان افراد کو سامنے لاکر احتساب کے عمل کو ہر صورت یقینی بنائے؟ ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کی خواہش پر پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے کے لیے تیار نہیں، اور اگر دینا بھی پڑجائے تو ایسی صورت میں پی ٹی آئی کو آزادانہ بنیادوں پر انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یا اس کے امیدواروں کو ہر صورت ہراساں کیا جائے گا، دھمکایا جائے گا، یا پارٹی ٹکٹ کی واپسی پر مجبور کیا جائے گا، یا ان کو کسی بھی صورت میں اپنی حمایت میں انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی تاکہ یہ لوگ ووٹروں پر کم اثرانداز ہوں۔ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ استحکام پاکستان پارٹی کا رخ اختیار کریں۔ جو لوگ پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اُن کے گرد شکنجہ کسا جارہا ہے اور آج بھی طاقت کے زور پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کراکے عمران خان کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح دوسری جانب صدر ڈاکٹر عارف علوی، اعجازالحق، محمد علی درانی اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ چلنے والی کوششیں بھی دم توڑ گئی ہیں۔ ان کوششوں میں عمران خان کو دو برس سیاست سے علیحدگی اور ملک چھوڑنے کا پیغام دیا گیا جو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اسی طرح اب جس شدت کے ساتھ عمران خان کے سیاسی مخالفین عمران خان کی ذاتیات پر حملہ آور ہوئے ہیں جس میں ان کی نجی زندگی کے معاملات کو اچھالا جارہا ہے یا کچھ کردار عوام کے سامنے ان کی کردارکُشی کے لیے پیش کیے جارہے ہیں اس میں سیاست کی اخلاقیات کا جنازہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابقہ خاوند کے اپنی بیوی اور عمران خان پر سنگین الزامات، عدت سے قبل نکاح کا دعویٰ، ایک سابق اداکارہ کی عمران خان کی مخالفت میں کتاب، اور عمران خان کی مخالفت میں آنے والے کئی اور انٹرویوز کے امکانات ظاہر کرتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ سیاسی مسائل کا حل سیاسی بنیادوں پر نہیں نکل رہا، اور اب نجی معاملات کو بنیاد بناکر اُن کی کردارکشی کی جارہی ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کی سیاسی مقبولیت کے باوجود اُن کی قبولیت ممکن نہیں، اور اس کے لیے ہر جائز وناجائز حربہ یا حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی، جس کا مقصد عمران خان کو انتخابات میں بڑی اکثریت سے محروم کرنا ہے۔ اس لیے پورے انتخابی منظرنامے کو طاقت کے زور پر اپنے ہی کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ یہ کھیل ماضی میں بھی ہوا، اور 2018ء کے انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملا، لیکن جس شدت کے ساتھ اِس بار یہ کھیل کھیلاجارہا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملے گی۔ جب کسی سیاسی فریق کا مقابلہ سیاست کے بجائے طاقت یا منفی بنیادوں پر کیا جائے تواس کے نتائج سیاسی اور معاشی محاذ پر عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتے ہیں جس سے ریاستی بحران مزید بڑھ جاتا ہے۔
عمران خان کو سیاسی لاڈلے کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، اور کہا جاتا رہا ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے پالا ہے۔ لیکن یہ جو چوتھی بار لاڈلا ملک کو نوازشریف کی صورت میں نظر آرہا ہے اس کی منطق کیا ہے! نوازشریف کو ملک میں دوبارہ واپس لانے اور ان کے لیے ہر طرح کی سہولت کاری کو عمران خان مخالف سیاست کے طور پر دیکھا جائے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کا راستہ ہی روکنا تھا تو شہبازشریف یا شریف خاندان کے سوا اُس کے پاس کیا آپشن رہ جاتے! دوسری جانب پیپلزپارٹی نالاں ہے کہ شریف خاندان کے لیے سہولت کاری کی جارہی ہے جبکہ زرداری خاندان اس سے محروم ہے، اور اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نوازشریف تک کیوں محدود ہے!
انتخابات کے نتائج کی بنیاد پرحکومت سازی کا جو کھیل سجایا جارہا ہے یا جس کا امکان ہے وہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ مرکز میں مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت جو کسی صورت میں مضبوط بھی نہ ہو اور اسے بڑی عددی برتری بھی حاصل نہ ہو، اس میں نوازشریف اور شہبازشریف میں سے کون وزیر اعظم بنے گااس پر بھی ابہام ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قرعہ فال شہبازشریف کے نام نکلے گا اور نوازشریف کو کچھ نہیں مل سکے گا۔ اتحادی جماعتوں پر مشتمل اس مخلوط حکومت کے پاس سب کچھ ہوگا لیکن اختیار اور کنٹرول کسی اور کا ہوگا۔ صوبوں کی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ اور اس بات کو یقینی بنانا کہ مرکز اورپنجاب میں ایک جماعت کی حکومت نہ ہو، اس کھیل کا حصہ نظر آرہا ہے تاکہ خود مسلم لیگ (ن) پر بھی دبائو برقرار رکھا جائے ۔ یہ جو ایم کیو ایم، باپ پارٹی، مسلم لیگ (ق)، استحکام پاکستان پارٹی، پی ٹی آئی پارلیمنٹرین اور جی ڈی اے کو ایک خاص فریم ورک میں اکٹھا کرکے ایک جماعت کی گود میں ڈالا جارہا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ آئندہ کا منظرنامہ کیا ہوگا۔
یہ جو انتخابات کی عدم شفافیت کا معاملہ ہے، جس انداز سے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، یا جس انداز سے نگران حکومتوں کا منفی کردار اور الیکشن کمیشن کے دہرے معیارات سامنے آئے ہیں اس کے بعد شفاف انتخابات بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ حال ہی میں سرداراختر مینگل کے بقول ہم سب عمران خان سے ہار گئے ہیں کیونکہ ہمیں یہ یقین دلایا گیا تھا کہ عمران خان سمیت ان کی ساری حمایت کو بلڈوز کردیا جائے گا، مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا بلکہ وہ اس مخالفانہ کھیل میں اور زیادہ مقبول ہوگئے ہیں۔
عوامی حمایت سے محروم حکومتوں کا کھیل ماضی میں بھی کچھ نہیں دے سکا اور نہ ہی آگے دے سکے گا۔ اس وقت ہمارا جو داخلی، علاقائی اور عالمی بحران ہے وہ ان انتخابات کی صورت میں بھی حل نہیں ہوگا، بلکہ خدشہ یہی ہے کہ آنے والے انتخابات اور پسِ پردہ نتائج کا کھیل ہمارے لیے مزید نیا انتشار پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ بدقسمتی سے ہم سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچر کے کھیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں، اور جو سرکس ہم نے سیاسی ماحول میں لگادیا ہے یا اس میں جو غیر فطری رنگ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گی، اور اس کی بڑی ذمہ داری ہمارے فیصلہ کرنے والوں پر عائد ہوگی جو باربار کے تجربات کو بنیاد بناکر ہمیں آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کی ہی طرف دھکیل رہے ہیں۔