معروف کالم نگار لطیف جمال نے بروز پیر 13 نومبر 2023ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں وطنِ عزیز کے سیاسی حالات کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’وطنِ عزیز کے حصے میں خوشیاں کم اور مصیبتیں شمار سے باہر ہیں۔ جہاں مصیبتوں کے موسم نے لوگوں کے دلوں کے گلاب بھی مرجھا ڈالے ہیں۔ ہمارے ملک کے دہکتے ہوئے تنور جیسے حالات کو دیکھ کر دوستووسکی کے ناول “Notes From Underground” کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ ’’انسان محض اپنے دکھ ہی شمار کرتا ہے لیکن وہ اپنی خوشیوں کا حساب نہیں رکھتا‘‘۔ دوستووسکی کا یہ ناول 1864ء میں چھپا، جس کے دنیا بھر میں “Letters From the Underworld” کے نام سے تراجم بھی کیے گئے۔ لیکن یہ خطوط نہیں تھے، یہ ناول کے وہ ابواب تھے جو مغربی فلسفے کی عقلیت پسندی اور افادیت پسندی پر ایک بڑی تنقید تھے، جس میں وہ یہ وضاحت کرتا ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کو اذیت دینے والے دھندے کی تاریخ بے حد پرانی ہے۔ یہ پھر سیاسی مفادات کے دھندے میں ہو یا جرائم کی دنیا میں، لیکن جب بھی اس ملک کے سیاسی حالات پر غور کیا ہے تو صرف گناہوں کی دنیا ہی دکھائی دی ہے۔ سیاست پر دھندے باز اور بار اسٹریٹ کے غنڈے ہی قابض نظر آتے ہیں۔ اس ملک پر کوئی موسم کبھی بھی مہربان نہیں رہا ہے۔ ہر موسم میں سزائوں کے پت جھڑ کے سائے زیادہ گہرے اور گمبھیر ہوتے ہوئے محسوس ہوئے ہیں۔ دوستو وسکی کا یہ ناول سینٹ پیٹرزبرگ کی کتھا بیان کرتا ہے جس کی ہر سطر دل کو اور زیادہ چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
’’حد سے زیادہ ہوشیار ہونا بھی ایک بیماری ہے‘‘۔ وہ بیماری جو اس ملک کی سیاست کو آکاس بیل کی طرح سے جکڑ چکی ہے۔ کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس ملک کی سیاست عوام کی انفرادی، سیاسی آزادی کے نعرے سے عوام کی ارواح کو گرما سکتی ہے؟ کیا اس ملک کی سیاست کسی روشن صبح کا سراغ دے سکتی ہے؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنان دوستووسکی کے ناول “Crime and Punishment” کے کردار ہیں؟ یا پھر وہ اکثر ’’راسکو لنکوف‘‘ کی طرح سے اپنے شہروں میں مرجھائے ہوئے موسم کے بیچ گھبرائے ہوئے قدم اٹھاتے ہیں اور مسکراتے ہیں۔ بھلا کسے یہ پتا تھا کہ دنیا میں ایسی سیاست کا عروج ہوگا جو مکمل دکان بن جائے گی، جو ایک ایسا دھندا بن جائے گی جس میں نظریات اپنی اہمیت گنوا بیٹھیں گے اور سیاست دانوں کے بیانات ایک ہی کیسٹ کے ایک ہی طرف سے سننے کو ملا کریں گے اور انسانی آنکھوں پر بے اعتمادی کی مرچوں کا تیزاب انڈیل دیا جائے گا۔ سیاسی اصلاحات کے خواب نعرے بازی کے بینروں کی زینت بن جائیں گے۔ سیاسی اسٹیجوں پر سیاسی اداکاریاں روز کا معمول بن جائیں گی اور سیاسی مخالفت کو قبیلائی (قبائلی) جھگڑوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ اختلافی مؤقف رکھنے والوں کو کسی بھی طور سے برداشت نہ کرنے کے رویّے عام ہوجائیں گے۔ سارے ملک کو بیسویں صدی کا لاطینی امریکہ بنادیا جائے گا، یا 1936 تا 1938ء کا سوویت یونین بنایا جائے گا، یا اس ملک پر 1934ء کی جرمنی کی وہ سیاہ اور تاریک راتیں طاری کردی جائیں گی جنہیں The night of the Long Knives بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح سے نازی جرمنی میں 1934ء کے بعد ہٹلر مخالف قوتوں کے لیے مخالفت کرنے کی کوئی بھی گنجائش نہیں چھوڑی گئی تھی اور تمام سیاسی طاقتوں کے لیے ان کی سیاسی بقا کی خاطر ہٹلر سے وفاداری کا عہد کیا جاتا تھا، اس طرح سے اِس ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے 9 مئی کے بعد مفاہمتوں اور سمجھوتوں کا موسم اترا ہوا ہے۔ اب تمام سیاسی کاروباری قیادت اپنے معاشی مفادات کی خاطر طاقت ور قوتوں سے ٹکر کھانے کی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرسکتی کیوں کہ ان کی ساری سیاست بہ ذاتِ خود ایک بڑا گورکھ دھندا ہے۔ ایسا دھندا جو وہ عوامی ووٹوں کے توسط سے گزشتہ کئی عشروں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ اپنی سیاسی پارٹیوں کی قیادت تو ہیں لیکن عوام کے دلوں پر راج نہیں کرسکتیں، جب تک انہیں طاقتور قوتوں کی آشیرباد حاصل نہیںہوجاتی وہ عوامی ووٹ کو سیڑھی بناکر حصولِ اقتدار میں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار برس سے خودساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے نوازشریف بھی ’’سمجھوتا ایکسپریس‘‘ کے ذریعے اور سہارے ہی سے واپس آسکے ہیں۔ اسی طرح سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھی کبھی بھی طاقت ور حلقوں سے اپنے معاملات کو خراب نہیںکیا ہے۔ تحریک انصاف کی قید سے بچ جانے والی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر اٹھا کر چلنے کے بجائے سر جھکا کر چلنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
جب پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن اپنی پارٹی کے رہنما کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی آئندہ الیکشن میں سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ لے کر میدان میں نہیں آئے گی بلکہ ملک کو ریاست ِمدینہ کے اصولوں کے تحت اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے ’’بیانیے‘‘ کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لے گی تب 1934ء کا نازی جرمنی کا وہ دور یاد آنے لگا جس میں تمام سیاسی پارٹیوں نے سیاسی مفاہمت کے نام پر اپنے عظیم سیاسی نظریات سے دست برداری اختیار کرلی تھی، لیکن کیا اپنی تمام تر سیاسی وفاداریاں ہٹلر کے ساتھ جوڑنے کے باوجود وہ کبھی بھی ہٹلر کا اعتماد حاصل کرپائی تھیں؟ ’’فرانزوان پاپین‘‘ سے لے کر ’’جنرل ورنر وون بلوم برگ‘‘ تک، اور ’’ہینرک ہملر‘‘ سے ’’ہرمن گورنگ‘‘ اور ’’روڈولف ہیس‘‘ تک کیا ہٹلر کی سزا سے کوئی بھی بچ سکا تھا؟ ہمیں کسی بھی سیاسی پارٹی کی مفاہمتوں اور مصالحتوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن جب سیاسی نعروں کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے تب سب سے زیادہ تکلیف اُن ورکرز کو پہنچتی ہے جو سیاسی لُو، تپش اور تکالیف کے تنور میں پکنے کو اپنی سیاسی کامیابی سمجھتے ہیں۔ سیاسی قیادتیں تو اپنے سیاسی کارکنان کو بطور ایک ایندھن کے استعمال کرتی ہیں۔ جہاں آنے والی کئی دہائیوں تک مروجہ سیاسی طریقۂ کار میں تبدیلی کے کوئی بھی امکانات دکھائی نہ دیتے ہوں، سیاسی یتیمی سے نکلنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے افراد کی آنکھیں ہی پتھرا سی گئی ہوں، غربت کی لکیر لاکھوں کروڑوں افراد سے جینے کی آرزو بھی چھین چکی ہو، وہاں ملک کے حکمرانوں سے عوامی بھلائی جیسی تبدیلی کی تمنا محض ایک سراب ہی ہوا کرتی ہے۔
ملک کا ایک بڑا سیاسی المیہ یہ بھی ہے کہ سارے سیاست دان عوام کو معاشی بحران سے نکالنے میں یکسر ناکام ثابت ہوگئے ہیں۔ عوام کی بنیادی ضروریات کو حل کرنے پر مبنی سوچ حکمرانوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی ہے۔ ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ آج بھی صرف گولیوں سے نہیں بلکہ غربت اور بھوک سے مر رہا ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو بیچ کر گزارہ کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایسے شدید ترین معاشی بحران میں سارا ملک ہی عالمِ بے بسی اور بدحالی کی کیفیت میں جی رہا ہے۔ افلاس کی وجہ سے آج بھی مزدوروں اور ہاریوں کے بچے اپاہج کی طرح زندگی گزار رہے ہیں، اور وہ رات کو بغیر کھانا کھائے سو جاتے ہیں۔ ایسی زندگی سے عاجز اور بے زار آکر آئے دن مائوں کی مع بچوں کے، خودکشی کرنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسے برے اور ابتر حالات میں بھی لوگ اپنی زندگی کو تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر زندہ رہتے ہیں لیکن ہمارے سیاست دان عوامی مسائل اور مصائب کو حل کرنے کے بجائے اپنے معاشی مفادات حاصل کرنے کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر حال میں ایسی سیاست کریں جو انہیں اقتدار سے ہم کنار کردے اور ان کی نسلوں تک کا مستقبل اس کے نتیجے میں سنور جائے۔ کیا سیاست کو ایک دھندا سمجھنے والی ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کبھی ملک اور عوام کو خوش حال مستقبل دینے کے لیے نتیجہ خیز پالیسیاں تشکیل دی ہیں؟ جب عوام کا خوش حال مستقبل ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے تو آخر وہ ایسے سنجیدہ معاملات پر اپنی توجہ کیوں اور کس لیے مبذول کریں گے؟
جب پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنما زیر عتاب آئے ہوئے تھے، تب ان سیاسی جماعتوں کو میثاقِ جمہوریت کے اسباق یاد آنے لگے تھے اور وہ ایک دوسرے سے بعینہٖ اس طرح سے قریب آگئی تھیں جس طرح سے یورپ میں فاشزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے نتیجے میں 1936ء میں فرانس کے اندر عوامی محاذ قائم ہوا تھا جس میں فرانس کا پیپلز فرنٹ اور بائیں بازو کی وہ سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہوئی تھیں جنہیں قبل ازیں ایک دوسرے کا منہ تک دیکھنا گوارا نہ تھا۔ اتحادوںکی عمریں بے حد مختصر اور تھوڑی سی ہی ہوا کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے بھی پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کا اتحاد ایک مخصوص مدت تک ہی سرگرم عمل رہا۔ اب جب کہ فروری2024ء میں انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے تو ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی راستے اختیار کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جو پی ٹی آئی کے دور میں یک جان دو قالب بن چکی تھیں، وہ بھی اِس وقت انتخاب کے میدان میں اپنی حکمت عملیاں تشکیل دے رہی ہیں۔ پی پی پی کی سپریمو کو یہ امید تھی کہ مسلم لیگ نواز اس کی سیاسی سچائیوں اور وفاداریوں کے صلے میں اس پر مہربان ہوکر پنجاب کے اندر مشترکہ انتخابی حکمت عملی طے کرے گی، لیکن مسلم لیگ نواز کی قیادت نے نہ صرف پنجاب کے اندر کسی مشترکہ حکمت عملی سے انکار کردیا بلکہ پی پی مخالف ہر طاقت سے بھی اس نے اپنی پینگیں بڑھانی شروع کردیں۔ اگرچہ مسلم لیگ نواز کی قیادت کو یہ بھی علم ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی بہت زیادہ طاقتور ہے جس کے مقابلے میں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کی حیثیت کسی پریشر گروپ سے زیادہ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نواز پی پی کی مخالف ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کے لیے آمادہ اور تیار ہے۔ ایسی صورتِ حال میں پی پی کی سپریمو کے پاس بھی مختلف آپشن موجود ہیں۔
وہ جو ایک کے سوا پی ٹی آئی کی ساری قیادت سے بات کرنے کے لیے تیار تھا لیکن جب مسلم لیگ نواز نے اپنی ایک الگ انتخابی حکمت عملی تشکیل دے دی تو ایسے میں پی پی پی کا سپریمو اُس ووٹ کے اوپر اپنی سیاسی سرمایہ کاری کی تیاریوں میں مصروف ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ پی ٹی آئی کا ووٹ ہے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی نے بھی تاحال کسی انتخابی اتحاد کا اعلان نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس پارٹی کی کوئی واضح حکمت عملی سامنے آئی ہے۔ یہ سب آپشن پیپلزپارٹی کے ہاں بھی موجود ہیں جس سے وہ اپنی انتخابی حکمت عملی طے کر سکتی ہے۔ لیکن اس ملک کی سیاسی پارٹیوں کی انتخابی حکمت عملیاں خواہ کچھ بھی ہوں، پائیدار عوامی جمہوری نظام کی ضمانت فراہم نہیں کرسکتیں، کیوں کہ عوام کے دہکتے ہوئے سینے کے اندر کوئی بڑی انقلابی سیاسی تبدیلی لانے کے لیے انقلابی سیاست کا ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے گائیڈڈ انقلاب کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ اتنے بڑے معاشی بحران کے ہوتے ہوئے بھی معاشروں میں کسی تبدیلی کے پیدا نہ ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہوتاہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مروجہ سیاسی حالات کی وجہ سے سیاسی سماج ایک کھڑے ہوئے پانی کی طرح ہو چکا ہے جس میں تحرک پیدا ہونے کی بظاہر کوئی بھی امید دکھائی نہیں دیتی۔ محسوس یوں ہوتاہے کہ گویا عوام اور سیاست دان دونوں ہی اس سیاسی کلچر کے عادی ہوچکے ہیںجہاں سماج میں سوائے نعرے بازی پر مبنی سیاسی کلچر کے کسی بھی تبدیلی کی امید یا اس کی تمنا نہیں کی جاسکتی۔ چرچل نے کہا تھا کہ ’’کامیابیاں ہمیشہ ناکامیوںکی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں‘‘۔ لیکن ہمارے ملک کے عوام کے لیے ان کی امیدوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے والا سورج آخر کب طلوع ہوگا؟ کب شفق سے سحر پھوٹے گی؟ ہم اُس دن کا انتظار کرتے ہیں جب سادہ لوح عوام سیاسی مصلحتوں سے نجات حاصل کریںگے اور ان سب کاروباری سیاسی ٹائیکونز کے سامنے اپنے بنیادی انسانی حقوق کا مطالبہ کریں گے۔ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک طرف نظریاتی سیاسی فکر اور سوچ کا زوال آیا ہے تو دوسری جانب وہ طاقتیں ہیں جو سیاست اور سیاسی قیادتوں کو اپنے طے شدہ اسکرپٹ کے تحت چلانا چاہتی ہیں۔ ہر وہ سیاسی پارٹی کامیاب سیاسی پارٹی گردانی جاتی ہے جو ملک میں حقیقی انقلاب یا تبدیلی لانے کے بجائے مصلحتوں اور مفاہمتوں کے موسم کو انجوائے کرنے کے گُر جان سکے۔ منزل تک رسائی کی مسافت ابھی بہت طویل ہے۔ یہ ملک تاحال 9 مئی کے دہکتے تنور کے حالات کو بھگت رہا ہے، لیکن ہم پھر بھی وکٹر ہیوگو کی طرح پُرامید ہیں کہ ’’گھور اندھیرا ختم ہوگا اور سوچ کی کرنیں روشنی بکھیریں گی۔‘‘