یہ ایک ہولناک حقیقت ہے کہ ہماری قوم کے افراد کی عظیم اکثریت لذتِ کار سے محروم نظر آتی ہے۔ معاف کیجیے گا لذتِ کار سے میری مراد لذتِ موٹر کار نہیں بلکہ اس سے مراد کام کی لذت ہے۔ اس وضاحت کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ایک دن میں نے ایک صاحب سے یہ فقرہ کہا تھا تو انہوں نے مجھ سے پوچھ لیا تھا کہ لذتِ کار سے آپ کی مراد کار کی کون سی قسم اور کون سا ماڈل ہے؟ وہ تو مزید تفصیلات سے آگاہ ہونا چاہتے تھے مگر میں نے وہاں سے کھسک جانے ہی میں اپنی اور اُن کی عافیت جانی۔ آپ شاید سمجھ رہے ہوں گے کہ اُن کی اردو خراب یا کمزور ہوگی اس لیے وہ لذتِ کار کا مطلب نہیں سمجھے ہوں گے۔ جی نہیں ایسا نہیں تھا۔ وہ گریجویٹ تھے اور ایم اے کرنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ ایسی صورتوں میں اصل مسئلہ زبان کا نہیں بلکہ ذہنی سانچے یا Frame of Mind کا ہوتا ہے۔ ہم اپنے ذہنی سانچے کے مطابق ہی اشیا، باتوں اور تجربات کا مفہوم سمجھتے ہیں۔ مذکورہ بالا صاحب کا ذہنی سانچہ جس طرح کا تھا وہ لذتِ کار سے وہی کچھ سمجھ سکتے تھے جو انہوں نے سمجھا۔ ممکن ہے انہیں بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہو، لیکن اُس وقت انہوں نے جو کچھ سمجھا تھا، سنجیدگی کے ساتھ وہی کچھ پوچھ لیا تھا۔ ہمارے معاشرے میں موٹر کار کی لذت ایک اہم مسئلہ ہے۔ یا تو لوگ اس کی لذت میں مبتلا ہیں یا مبتلا ہوجانے کی خواہش اور حسرت لیے بیٹھے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ نے بھی پہلے فقرے کا مفہوم غلط سمجھا ہے تو آپ یقیناً میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ ہمارے لوگوں کی عظیم اکثریت لذتِ کار سے محروم نظر آتی ہے، اور یہ میرے نزدیک بہت ہی زیادہ خوفناک، ہولناک اور تشویش ناک بات ہے، کیوں کہ ایسے لوگوں کو در بھی دیوار نظر آنے لگتا ہے۔
یہ بات تو آپ کے تجربے اور مشاہدے میں بھی آئی ہوگی کہ ہمارے یہاں جو شخص جس شعبے سے وابستہ ہے اسی سے نالاں ہے۔ جو کام کررہا ہے اسی سے بے زار ہے۔ کم و بیش ہر شعبے کا سینئر اپنے جونیئر کو مشورہ دیتا ہے کہ خدا کے لیے اس شعبے میں نہ آنا، اس میں کچھ نہیں رکھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہر شخص کو دوسرے شخص کا شعبہ اور کام شاندار اور بہترین نظر آتا ہے اور اس کی خواہش اور بعض صورتوں میں کوشش نظر آتی ہے کہ وہ اپنے کام اور اپنے شعبے سے جان چھڑا کر دوسرے شعبے میں چلا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگ عادتاً یا خوامخواہ بھی ایسی باتیں کرتے ہیں، لیکن اکثر لوگ دل کی گہرائیوں سے ایسا ہی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے کام میں کچھ نہیں رکھا۔ میں جب صحافت میں آرہا تھا تو بہت سے لوگوں نے نہایت خلوص سے مشورہ دیا کہ ہرگز بھی ایسا نہ کرنا، صحافت میں اور وہ بھی اردو صحافت میں کیا رکھا ہے! اگر جانا ہی ہے تو انگریزی صحافت میں جائو جس میں پیسہ بھی ہے، نام بھی اور بقول ان کے عزت بھی۔ ’’کچھ نہیں رکھا‘‘ سے اکثر لوگوں کی مراد پیسہ ہوتی ہے اور بعض شعبوں کے بارے میں یہ رائے درست ہوتی ہے، کیوں کہ ان میں جائز ذرائع سے مالی یافت بہت کم ہوتی ہے، لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ جائز طریقے سے بھی ایسے شعبے میں اچھے خاصے پیسے کما لیتے ہیں وہ بھی اپنے شعبے اور کام سے بے زار نظر آتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جو اپنے کام سے بے زار نظر آتے ہیں، اور دوسرے وہ جو بظاہر کام سے بے زار نظر نہیں آتے۔ پہلی طرح کے لوگ چونکہ اپنی بے زاری کا سرِعام اعلان کررہے ہوتے ہیں اس لیے ان کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا نہایت آسان ہے کہ وہ اپنے کام میں کوئی لذت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے کام سے بے زاری کا اعلان نہیں کرتے انہیں بھی لذتِ کار میسر نہیں ہے، کیوں کہ وہ کام کو بھگتانے کی کوشش کرتے نظرآتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے کام سے بے زاری کا اعلان نہیں کرتے لیکن ہوتے وہ بھی بے زار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ لذتِ کار سے مراد کیا ہے؟
ظاہر ہے کہ لذتِ کار ایک ایسی چیز ہے جو محسوس کی جاسکتی ہے، جس کو اس کا تجربہ ہوتا ہے وہی جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتی ہے۔ جس نے آم کھایا وہی جانتا ہے کہ اس کا ذائقہ امرود اور پپیتے سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لذتِ کار کا بھی ہے۔ تاہم لذتِ کار کے کچھ شواہد موجود ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ کسی کو کسی کام سے لذتِ کار میسر آئی یا نہیں، یا یہ کہ وہ اس کا خواہش مند ہے بھی یا نہیں۔
یہ تصور بھی عام ہوچلا ہے کہ نوکری کا مقصد صرف معاش کمانا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ہرگز نہیں ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو ہر کام انسان کی توہین کے مترادف ہے۔ اگر کام کا مقصد صرف روپے کمانا ہے تو پھر دو ہزار کیا دو کروڑ روپے بھی انسان کی محنت اور جذبے کی قیمت نہیں ہوسکتے، اور اگر ہوسکتے ہیں تو انسان کی حیثیت بھی ایک شے سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی۔ ایسی شے جسے خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ کام کا تصور معاش کے مسئلے کے حل تک محدود نہیں ہے۔ کام انسان کے وقار اور اس کی عظمت کا اقرار، اظہار، اعلان اور اس میں اضافے کا باعث ہے۔ کام انسان کو اپنی شخصیت، ذات اور صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرتا ہے، جو انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ کام بدنظمی اور بے ترتیبی کے خاتمے اور نظم و ترتیب کے قیام کا ذریعہ ہے۔ کام انسان کو خود آگاہ بناتا ہے۔ کام نہ کرنے کا مطلب کچھ نہ کرنا ہے، اور کچھ نہ کرنا زندگی کی علامت نہیں۔ کام بڑے چھوٹے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی بنیادی ساخت اور فطرت ایک ہی ہوتی ہے۔ خدمتِ خلق کا کوئی بہت بڑا کام، کوئی بہت خوبصورت شعر اور حساب کے رجسٹر کو بہترین طریقے سے لکھنے میں بڑا فرق ہے۔ لیکن تینوں چیزوں سے بدنظمی دور ہوتی ہے اور خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسا صرف خارجی دنیا ہی میں نہیں ہوتا بلکہ کام کرنے والے کی داخلی دنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے لیکن ذرا سی وضاحت طلب۔
کام کے اثرات انسان پر مرتب ہوکر رہتے ہیں، یا یہ کہ ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن آپ اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں گے تو دیکھیں گے کہ کام ہمارے لوگوں کی شخصیت پر اثرانداز نہیں ہورہا ہے۔ اساتذہ کو دیکھیے، جیسے وہ نوکری کے پہلے دن ہوتے ہیں ریٹائرمنٹ کے روز بھی کم و بیش ویسے ہی ہوتے ہیں۔ جتنا برا انہوں نے پہلے دن پڑھایا ہوتا ہے اُس سے ذرا ہی کم برا نوکری کے آخری دن پڑھاتے ہیں۔ جیسا ان کا مزاج لوگوں کی بہت بڑی تعداد سے رابطے میں آنے سے پہلے ہوتا ہے وہی مزاج رابطے میں آنے کے بعد بھی ہوتا ہے۔ کلرک جتنا برا رجسٹر پہلے دن لکھتا ہے اتنا ہی برا رجسٹر نوکری کے آخری دن لکھتا ہے۔ دوسرے شعبوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ بات ہر ایک کے بارے میں درست نہیں ہے، تاہم ہر شعبۂ زندگی کی اکثریت کے بارے میں اس کے درست ہونے میں کوئی کلام نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے معنی کیا ہیں؟ اس کے معنی یہ ہیں کہ افراد کی عظیم اکثریت کو اپنے کام سے کوئی لذت میسر نہیں آتی، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو ان کی شخصیتیں اس بات کی گواہی دیتی نظر آتیں۔ یہ انہی شواہد میں سے ایک ہے جن کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے۔
مشاہدہ بتاتا ہے کہ بہت سے لوگ اپنے کام کی استعداد میں اضافہ کرلیتے ہیں یا اسے بہت بہتر بنا لیتے ہیں۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ اس کی وجہ عام طور پر عہدے اور منصب کی ترقی یا مالی حیثیت میں اضافے کی خواہش ہوتی ہے… کام کی لذت یا اس کا لطف نہیں ہوتا۔کام کو بہتر کرنے کے عمل کا اثر انسانی شخصیت پر ضرور پڑتا ہے تاہم مقصد یا مطمح نظر کے اپنے اثرات ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسے افراد بھی اُن فوائد سے محروم رہتے ہیں جو لذتِ کار سے ہم کنار لوگوں کا مقدر ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ عہدے و منصب اور مالی حیثیت میں اضافے کے بجائے شہرت کے چکر میں اپنے کام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی اگرچہ اپنے کام کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن کام سے کمٹمنٹ میں کمی کے باعث وہ بھی حقیقی لذتِ کار سے محروم رہ جاتے ہیں۔
ہر کام بجائے خود سماجی و معاشرتی تربیت کا ایک ادارہ ہوتا ہے۔ جو شخص ایک کام بہترین طریقے سے کرتا ہے اُس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کوئی دوسرا کام بری طرح کرے گا۔ اگرچہ اس سلسلے میں استثنائی مثالیں ہوسکتی ہیں لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ گویا ایک کام بہت سے کاموں کو درست کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ کام کو بہترین طریقے سے کرنے کے لیے گہری توجہ اور انہماک کی ضرورت ہوتی ہے، اور گہری توجہ اور انہماک کے نتیجے میں کام کے اثرات انسان کی شخصیت میں دور تک اتر جاتے ہیں اور کام اپنے راز آشکار کردیتا ہے۔ اس طریقے سے کیا جانے والا ہر کام ایک خاص طرح کی تقدیس حاصل کرلیتا ہے، اور وہ محض کام نہیں رہتا بلکہ کام سے کچھ زیادہ ہوجاتا ہے۔
یہ شکایت عام ہے کہ باتیں اثر سے محروم ہوگئی ہیں۔ کوئی بات کہہ لیجیے اس کا اثر نہیں ہوتا، اور ہوتا بھی ہے تو دیرپا نہیں ہوتا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک اہم وجہ بلکہ شاید اہم ترین وجہ یہ ہے کہ ہر بات، بات کے بجائے کچھ اور ہوتی ہے۔ شہرت کی آرزو، مقبولیت کی تمنا، دولت کی خواہش یا کچھ اور بات کے پسِ پشت چھپا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ شہرت بھی مل جاتی ہے، مقبولیت بھی میسر آجاتی ہے اور دولت بھی جھولی میں آگرتی ہے، مگر بات کا اثر نہیں ہوتا، یا صرف اتنا ہی اثر ہوتا ہے جتنا کہ بات ہوتی ہے۔ مجھے کام کا معاملہ بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ کام بھی اتنا ہی اثرانداز ہوگا جتنا کہ کام ہوگا… انسان کی شخصیت پر بھی اور خارجی دنیا پر بھی۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اکثر لوگوں کو اپنے مزاج اور مرضی کے مطابق نوکریاں نہیں ملتیں جس کی وجہ سے وہ اپنے کام کے سلسلے میں دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، لیکن یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ ہمارے یہاں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا مزاج اور مرضی کیا ہے؟
اس پوری بحث کے پس منظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جو لوگ معاشرے کو بدل دینے کے خواب دیکھتے ہیں یا اس کے دعویدار ہیں انہیں کام کے تصور کو بدلنا ہوگا۔ یہ تصور کہ کام صرف معاش کے حصول کا ذریعہ ہے سراسر مادہ پرستانہ تصور ہے اور اس کا کسی روحانی قدر سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تصور کسی بھی مذہبی معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں ہونا چاہیے۔ لذتِ کار کے حصول کے بغیر کام کا ہونا اور نہ ہونا تقریباً برابر ہے۔