یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطین پر گرنے والے ہر بم کی آواز نہ صرف برطانیہ میں سنائی دے رہی ہے بلکہ گرنے والا ہر بم برطانوی سیاست میں بھی تباہی پھیلا رہا ہے
برطانیہ میں اسرائیل اور فلسطین جنگ کے اثرات بہت تیزی سے سیاست اور سماج پر گہرے نقوش چھوڑ رہے ہیں۔ لندن اس وقت جنگ مخالف مظاہروں کا مرکز ہے، 11 نومبر 2023 ء کو لندن میں فقیدالمثال مارچ منعقد ہوا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے حوالے سے کئی دنوں سے ایک کشمکش جاری تھی جس کا آغاز اُس وقت ہوا جب وزیر داخلہ سوئیلا براومین نے ان مظاہروں کو Hate March قرار دیا اور پولیس کو مارچ کی اجازت منسوخ کرنے کو کہا، لیکن برطانوی پولیس نے جو کہ ایک خودمختار ادارے کے طور پر کام کرتی ہے، وزیر داخلہ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا اور لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف مارک رولی نے وزیر داخلہ سے کہا کہ ان کا یہ مطالبہ خلافِ قانون ہے۔ جس کے بعد سے مارچ کے انعقاد کے حوالے سے جنم لینے والے شکوک و شبہات نے دم توڑ دیا۔ تاہم اس کے بعد وزیر داخلہ نے برطانوی اخبار میں ایک کالم لکھ دیا جس میں انہوں نے لندن پولیس چیف کو جانب دار قرار دیا اور کہا کہ وہ مارچ کی سرپرستی کررہے ہیں۔ اس کے بعد برطانوی سیاست میں ایک بھونچال آگیا۔ اس پر مذمت اور حمایت میں میڈیا اور پورا سماج شدید تقسیم کا شکار ہوا۔ ناقدین کا خیال یہ تھا کہ وزیر داخلہ نے بلاوجہ مارچ پر پابندی کی جو بات کی وہ آزادیِ اظہار رائے کے برطانوی اصول کے خلاف ہے۔ چند ایک نے اس کو جمہوری اقدار کے بھی منافی قرار دیا۔ تاہم دوسری جانب سے نسل پرست عناصر اور دائیں بازو کے افراد وزیر داخلہ کی حمایت میں نظر آئے جنہوں نے اس بات کو بنیاد بنایا کہ 11 ستمبر کا دن جنگِ عظیم میں جانیں دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے، لہٰذا اس دن اس کے سوا کسی بھی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ تاہم لندن میٹرو پولیٹن پولیس چیف مارک رولی نے واضح کیا کہ مارچ پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جارہی تاہم مارچ کی سیکورٹی اور 11 ستمبر کو جنگِ عظیم کے ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک بڑا سیکورٹی پلان ترتیب دیا جارہا ہے تاکہ دونوں تقریبات بغیر کسی بدمزگی کے انجام پائیں۔ اس سلسلے میں دو ہزار پولیس افسران کو تعینات کیا جارہا ہے۔ ادھر دوسری جانب پولیس کے اعلیٰ حکام نے مارچ کے انتظامات کے حوالے سے مارچ کی انتظامیہ سے ملاقات کی اور ان کو اس دن کی حساسیت اور پولیس کے پلان کے علاوہ قانون کے دائرہ کار سے متعلق بھی بریفنگ دی۔
11 ستمبر کو جہاں 11 بجے دن جنگِ عظیم کے ہیروز کی یاد میں خاموشی اختیار کی گئی وہاں اس مارچ کے لیے جمع ہونے والوں نے بھی اس میں حصہ لیا اور خاموش ہوکر ان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد مارچ کا باقاعدہ آغاز ہوا، لیکن اُس وقت کچھ بدمزگی پیدا ہوئی جب مارچ کے روٹ سے کچھ فاصلے پر دائیں بازو کی نسل پرست جماعت انگلش ڈیفنس لیگ کے چند ارکان نے اپنے قائد ٹومی روبنسن کی قیادت میں مارچ کے روٹ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جس کو پولیس نے مکمل طور پر ناکام بنادیا۔ اس موقع پر انہوں نے ”صرف انگلینڈ“ کے نعرے بلند کیے اور پولیس سے جھڑپ بھی کی جس میں چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک سو سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا۔ پولیس ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مظاہرین کی جانب سے کسی تشدد یا توڑ پھوڑ کا کوئی عمل نہیں ہوا، جو بھی بدمزگی پیدا ہوئی وہ دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ سوئیلا براومین کے بیانات اور اخبار میں لکھے گئے کالم کے بعد ہوا جس سے انتہاپسندانہ جذبات کو فروغ ملا اور بطور وزیر داخلہ سوئیلا براومین کا یہ عمل نہ صرف شرمناک بلکہ برطانوی معاشرے کو تقسیم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ میئر لندن صادق خان نے بھی لندن میں 11 ستمبر کو ہونے والی بدمزگی کا براہِ راست ذمہ دار سوئیلا براومین کو قرار دیا۔ برطانیہ کے مین اسٹریم میڈیا نے کھل کر سوئیلا براومین کو جمہوری اقدار تباہ کرنے والی قرار دیا، حتیٰ کہ برطانوی اخبار دی انڈیپنڈنٹ نے 10 نومبر کے اداریے کی سرخی لگائی ”قانون کی عمل داری کو سوئیلا جیسے وزراء سے تحفظ فراہم کیا جائے“۔ اخبار نے اداریے میں لکھا کہ سوئیلا براومین نے اخبار میں اپنی ہی پولیس کے خلاف کالم لکھ کر نفرت کو فروغ دیا، ان کا یہ اقدام قابلِ قبول نہیں، لہٰذا ان کو وسیع تر قومی مفاد میں وزارت سے برطرف کیا جائے۔ یہی حال تمام میڈیا کا تھا جس نے وزیر داخلہ کے اس عمل کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔ برطانوی میڈیا کے علاوہ برطانوی فوج کے سابق و موجودہ افسران نے بھی سوئیلا براومین کے بیانات کو معاشرے میں تقسیم کی کوشش قرار دیا اور کہا کہ ایک ایسے دن جب ہم اپنے عظیم ہیروز کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اس دن کے حوالے سے اس قسم کے بیانات قومی وحدت کے خلاف ہیں۔ برطانوی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے بھی سوئیلا براومین کو آڑے ہاتھوں لیا۔ 11 ستمبر کا مارچ برطانیہ میں ہر جانب موضوع بحث بن گیا جس کا لامحالہ فائدہ مارچ کا انعقاد کرنے والوں کو ہوا کہ مارچ میں عوام نے انسانیت اور مظلوموں کی حمایت میں زور شور سے شرکت کی۔ اس مخالفت نے بہت سے ایسے عناصر کو بھی متحرک کردیا جو اب تک ان مظاہروں کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے۔ برطانیہ کی سیاست میں آئے دن اسرائیل فلسطین تنازعے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ اب حکومت نے اپنی توجہ دیگر جگہوں سے ہٹاکر معاشرے میں تقسیم کو روکنے کی کوشش شروع کردی ہیں لیکن شاید اب اس میں بہت تاخیر کی جاچکی ہے۔ برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے دورئہ اسرائیل اور اسرائیل کی غیرمشروط حمایت نے نہ صرف مسلمانوں، بلکہ انسانی حقوق و آزادیِ اظہارِ رائے پر یقین رکھنے والوں کو شدید مایوس کیا ہے۔ یہ معاملہ اگر حکومتی جماعت تک محدود رہتا تو بھی شاید یہ بات اس حد تک نہ جاتی، لیکن دوسری جانب اپوزیشن لیڈر کیئر اسٹارمر نے بھی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت، اور جنگ بندی کی اپیل نہ کرکے اپنے ووٹرز کو شدید مایوس کیا ہے، جس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت نے دونوں جماعتوں سے مایوس ہوکر ازخود احتجاج کا فیصلہ کیا، جس کے بعد اب حکومت و اپوزیشن اپنی پالیسی سے واپسی کا راستہ تلاش کررہی ہیں، لیکن فلسطین میں گیارہ ہزار انسانوں کی اسرائیل کے ہاتھوں ہلاکت جس میں چار ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں، اور اسپتالوں پر حملوں کے بعد اب کوئی ایک فرد بھی اس عمل کو قابلِ قبول قرار نہیں دے رہا ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل میکراں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل کو جنگ فوری بند کرنے اور سویلین ابادی کو نشانہ بنانے سے باز رہنے کا کہا ہے۔ اس طرح یہ مغرب کی وہ پہلی آواز ہے جو حکمرانوں کی سطح پر اسرائیل کے خلاف بلند ہوئی ہے۔ لندن کے مظاہرے میں گزشتہ مظاہروں سے تین گنا زیادہ تعداد شریک ہوئی، لیکن مظاہرین کی جانب سے کسی توڑ پھوڑ تک کی اطلاع نہیں ملی، اس کے باوجود بھی مظاہرے کے بعد وزیراعظم رشی سونک نے جہاں دائیں بازو کے نسل پرستوں کی جانب سے بدمزگی کی مذمت کی وہیں انہوں نے مظاہرے میں چند عناصر کی جانب سے ناقابلِ قبول نعرے و پلے کارڈز کی بھی مذمت کردی۔ جبکہ ایسا کوئی واقعہ اسٹیج سے نہیں ہوا، لہٰذا اس پر پورے مظاہرے کے حوالے سے ایک تاثر دینا نامناسب عمل خیال کیا گیا۔ وزیر داخلہ سوئیلا براومین نے جہاں اپنی ٹوئٹ میں پولیس کی کارکردگی کی تعریف کی وہیں انہوں نے بھی مظاہرے میں ایک دو پلے کارڈز کو موضوعِ بحث بناکر پورے مارچ کا منفی تاثر بنانے کی کوشش کی۔
13 ستمبر بروز پیر وزیراعظم نے بڑھتے ہوئے دبائو پر وزیر داخلہ سوئیلا براومین کو برطرف کردیا اور وزارتِ داخلہ کا قلمدان وزیر خارجہ جیمز کیلورلی کے حوالے کردیا، اور وزارتِ خارجہ کا چارج سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو دے دیا۔ ڈیوڈ کیمرون 2010 ء سے 2016 ء تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے، انہوں نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے ریفرنڈم میں اپنے موقف کی شکست پر وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے بعد وہ سیاسی طور پر پس منظر میں چلے گئے تھے۔ ان کی اچانک واپسی نے برطانوی سیاسی مبصرین کو بھی حیران کردیا ہے۔ اس کی اصل وجہ شاید برطانیہ کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی بھی ہوسکتی ہے جس کا اظہار برطانوی اخبار دی گارجین نے کیمرون کی وزیر خارجہ نامزدگی کے بعد ایک ویڈیو کلپ میں کیا جس میں وہ بطور وزیراعظم برطانیہ 2010 ء میں اپنے دورئہ ترکی میں اسرائیل کو غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ شاید فرد کی تبدیلی سے برطانوی خارجہ پالیسی میں بھی ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ایک طرف جہاں عوامی دبائو ہے وہیں دوسری طرف معاشرے خاص طور پر مسلمانوں میں بڑھتا ہوا احساسِ محرومی ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایک کے بعد ایک مسلمان ملک میں چڑھائی اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع میں نہ صرف مغربی اقوام بلکہ برطانیہ بھی کسی نہ کسی طور پر ملوث ہے۔ عراق، افغانستان اور یوکرین کی جنگ کے دوران بھی شاید غم و غصّے کی یہ کیفیت نہیں تھی جو کہ اب ہے۔ اس صورتِ حال کا اندازہ صرف اس بات سےلگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ کو عوامی دبائو پر محض تین دن میں تبدیل کردیا گیا۔ اب اس سے نمٹنے کے لیے اُن تعلیمی اداروں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، والدین اور خود طالب علموں کو ای میل بھیجی جارہی ہیں کہ اس مشکل اور غم کی گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی ذہنی صحت پر اس معاملے سے کوئی اثر ہوا ہے تو بھی ہم اس پر آپ سے بھرپور تعاون کریں گے۔ اسکولوں میں غزہ کے بچوں کے لیے اب چندے جمع کیے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس عوامی ردعمل کے بعد ہوا جو کہ لندن کی سڑکوں پر نظر آیا۔ ایک جانب برطانوی معیشت ابھی تک گرداب میں ہے، دوسری جانب روس یوکرین جنگ اور اب اسرائیل فلسطین جنگ ہے… برطانیہ ان تمام معاملات میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور شاید ڈیوڈ کیمرون کی حکومت میں واپسی اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک سال بیرونی محاذ اگر سنبھال لیتے ہیں تو شاید کنزرویٹو پارٹی کی الیکشن میں دوبارہ جیت کی صورت میں وہ وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر بھی سامنے آسکتے ہیں۔
فلسطین میں جنگ کے بعد سے برطانوی سیاست میں آنے والا بھونچال تاحال تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے، اور شاید یہ پہلا موقع ہے کہ فلسطین پر گرنے والے ہر بم کی آواز نہ صرف برطانیہ میں سنائی دے رہی ہے بلکہ گرنے والا ہر بم برطانوی سیاست میں بھی تباہی پھیلا رہا ہے۔ شاید کسی نے 7 اکتوبر سے قبل سوچا بھی نہ تھا کہ اس جنگ سے نہ صرف برطانوی بلکہ بین الاقوامی سیاست مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔ اب آہستہ آہستہ دنیا دو واضح حصوں میں تقسیم ہورہی ہے، اور جہاں حکمران کسی اور جانب ہیں وہاں بھی عوام دوسری جانب کھڑے نظر آتے ہیں۔ برطانیہ کے بعد شاید اب امریکہ کی سیاست کا بھی نقشہ تبدیل ہوگا اور اس کی بازگشت مشرق وسطیٰ تک بھی جائے گی۔ حماس کا اگر یہی منصوبہ تھا کہ دنیا میں ایک مُردہ ہوتے ہوئے مسئلے کو زندہ کیا جائے تو وہ اب زندہ جاوید ہوکر خود مغرب میں کھڑا ہے، اور شاید کسی نے ایک ماہ قبل یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ اسرائیلی وزیراعظم کو قاتل قرار دینے کے نعرے مغرب میں گونجیں گے۔ اب یہ نعرے مغرب کی سڑکوں پر کھلے عام عوامی مطالبے کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ اگر کوئی اس معاملے کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے گیا تو اس کی زد میں محض اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس کے پشت پناہ حکمران بھی آئیں۔ اسرائیل فلسطین جنگ جتنی طویل ہوگی اتنا ہی مغرب کی سیاست غیر مستحکم رہے گی جس کا اثر بہر حال ریاست پر پڑے گا۔