معروف دانش ور، کالم نگار، ادیب اور شاعر اعجاز منگی نے بروز منگل 7 نومبر 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’سندھ ایکسپریس‘‘ حیدرآباد میں اسرائیل کی جانب سے نہتے اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر بے محابہ مظالم ڈھانے کے حوالے سے جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’غزہ پر بموں کی برسات کب رکے گی؟ جنگ کا جنون کب ختم ہوگا؟ اسرائیل کی روح میں کب رحم جنم لے گا؟ اسرائیل دنیا کے عوام کا مطالبہ کب مانے گا؟ کب اہلِ غزہ اتنی سخت اور سفاکانہ سزا سے نجات حاصل کریںگے؟ کب انہیں وقت ملے گا کہ جو مر چکے ہیں انہیں یادکرکے کچھ اشک بہا سکیں؟ اس سلسلے میں تاحال کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ اسرائیل اس وقت موت کی ایک بہری مشین بنا ہوا ہے۔ وہ اِس وقت تک کسی کی بھی کچھ نہیں سن رہا ہے حالاں کہ امریکہ کا سیکرٹری خارجہ بھی اسرائیل آیا، منت سماجت کی۔ اس نے نیتن یاہو کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ مزید خوں ریزی نہ کرو اور اب بس کردو۔ اس نے اسے براہِ راست اور صاف انداز میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دنیا میں فلسطین کے لیے احساسات کے آبشار بہنے لگے ہیں، یورپ تو یورپ… امریکہ میں عوام فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف غم و غصے سے ابلنے لگے ہیں۔ امریکہ کا اسرائیل کے ساتھ پیار اپنی جگہ پر، لیکن اس کی اپنی کچھ پریشانیاں بھی ہیں جنہوں نے دنیا کی سپر پاور کو مجبور کیا کہ وہ جا کر اسرائیل کی منت سماجت کرے۔ تاہم ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔
اسرائیل اس وقت ایک اندھے گھوڑے پر سوار ہے۔ اُسے اِس وقت تک یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ غزہ کے مجاہدین کو آخر ہمت کیسے ہوئی کہ انہوں نے اسرائیل پر حملہ کر ڈالا؟ وہ اہلِِ فلسطین کو ایک ایسا سبق سکھانا چاہتا ہے جس کی تاریخ میں اس وقت تک کوئی مثال موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غزہ میں کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ اس نے گھروں پر تو پہلے دن ہی بم باری کی ہے اور انہیں ملبے کا ڈھیر بنانے کے بعد اس نے اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فوج کی وحشت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے فلسطینیوں کے قبرستانوں پر بھی بم باری کی ہے۔ جو ریاست مرنے والوں کو مارنے کے لیے بھی بارود کی برسات کرے اس کا وجود عالمی امن اور اخلاق کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہے؟ اس کا اندازہ لگانا تو بڑا کام ہے، لیکن کم سے کم دنیا کی فضیلت ورنہ کم از کم فہم و فراست رکھنے والے ممالک کویہ احساس ضرور ہونا چاہیے۔ آخر یہ دنیا اس لیے تو وجود میں نہیں آئی ہے کہ اس میں اسرائیل خواہ جو بھی چاہے، کرے۔ یہ اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ 21 ویں صدی میں ظلم و ستم کا ایک ایسا سلسلہ شروع کردے جس طرح سے تاریخ میں ہلاکو اور ہٹلر نے کیا تھا۔ اسرائیل اس وقت سچ مچ بھی موت کا ایک ایسا درندہ بنا ہوا ہے جو لوگوں پر کسی بھی قیمت پر رحم کھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ گزشتہ 70 برس سے اہلِ فلسطین کے ساتھ وہ جو کچھ بھی کرتا رہا ہے اور اِس وقت بھی اہلِِ غزہ کے ساتھ جو بدترین سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس سے ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ وہ غزہ والوں کو انسان سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
اسرائیل کی ان کارروائیوں پر دنیا کے کچھ ممالک نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔ ایران تو فریق بنا ہوا ہے، شام بھی خاموش نہیں ہے، لیکن جو کچھ بولیویا اور کولمبیا نے کیا ہے وہ عمل اِس وقت تک کسی بھی مسلمان ملک نے نہیں کیا۔ اگرچہ قطر نے اپنے سفارت کار واپس بلا لیے ہیں، لیکن مصر اور ترکیہ جیسے تاریخی ممالک نے تاحال وہ کچھ نہیں کیا ہے جو انہیں اِس وقت تک کرنا چاہیے تھا۔ دنیا میں 50 سے بھی زیادہ مسلمان ممالک ہیں، اگر وہ ایک ساتھ مل کر امریکہ پر دبائو ڈالیں تو امریکہ اسرائیل کو اپنی اصل آنکھیں دکھا سکتا ہے۔ ہر باپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے سرپھرے بیٹے کی گوشمالی کس طرح سے کی جاسکتی ہے، لیکن امریکہ پر اس طرح کا کوئی بھی دبائو نہیں ہے۔ اُس کے اپنے لوگ اب آہستہ آہستہ اٹھ کھڑے ہورہے ہیں اور وہ اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اپنا سیکرٹری خارجہ تل ابیب بھیج بھی رہا ہے اور وائٹ ہائوس کی طرف سے ایسے بیانات بھی جاری کیے جا رہے ہیں جن میں امن اور اسرائیل کی بقا پر اظہارِ تشویش پایا جاتا ہے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کے پسِ پردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔ ایک مصقد تو اوپر بیان کیا جاچکا ہے اور دوسرا یہ کہ اسرائیل کو اس بات پر سخت غم و غصہ لاحق ہے کہ حماس نے اس کے ساتھ جو کچھ بھی کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی سفارتی کامیابی کے آخری قلعے فتح نہیں ہوسکے ہیں۔ اسرائیل کا یہ دیرینہ خواب تھا کہ اسے سعودی عرب بطور ایک ملک کے تسلیم کرے، کیوں کہ سعودی عرب کے بعد کسی بھی مسلمان ملک کے پاس کوئی بھی عذر اسے تسلیم کرنے میں مانع نہیں رہے گا، لیکن حماس کے حملے اور اس پر اسرائیل کے ردعمل سے جو صورتِ حال اب جنم لے چکی ہے اس کی وجہ سے اسرائیل، عرب امن معاہدہ اس طرح سے اُڑ چکا ہے جس طرح بندوق کے فائر کی آواز سن کر درختوں پر بیٹھے کوّے اُڑ جایا کرتے ہیں۔
اب دوبارہ کب ملاقاتیں ہوں گی اور کب میلے سجیں گے؟ اس سوال کا جواب سوچتے ہوئے اسرائیل اندر ہی اندر جل بھن کر رہ جاتا ہے۔ اس وقت عرب دنیا میں افواج تو بہ کثرت ہیں۔ ہتھیاروں کے بھی ان کے پاس انبار لگے ہوئے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں اتنی قوت نہیں ہے جس طرح سے حزب اللہ کی شکل میں لبنان کو حاصل ہے۔ حزب اللہ نہ صرف اسرائیل بلکہ کئی عرب ممالک کے حکمرانوں کی آنکھ میں ایک خار کی مانند ہے۔ اس کے پاس ایسے سرفروش سپاہی ہیں جن کے حوالے سے حزب اللہ کے مخالفین کو بھی علم ہے کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے اپنی ایک حالیہ تقریر میں ایک اہم بات کی ہے۔ ایک تو انہوں نے حماس کے حملے یعنی آپریشن طوفان الاقصیٰ کی بہت زیادہ تعریف کی ہے۔ انہوں نے ایک گوریلا کمانڈر کی حیثیت سے حماس کی خفیہ تیاری اور برق رفتار لیکن کامیاب کارروائی کو ساری دنیا کے سامنے سراہا بھی ہے، لیکن انہوں نے جو کام کی بات کی ہے وہ یہ ہے کہ بہ قول حسن نصراللہ: حماس کے آپریشن اور اس پر اسرائیل کے جارحانہ ردعمل نے اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ فلسطین کے ساتھ کون سچا ہے اور کون نہیں۔ غزہ کے سلسلے میں یہ امر بھی حد درجہ تکلیف دہ ہے کہ دوسرے مسلمان ممالک تو ٹھیرے ایک طرف، کچھ وقت کے لیے اگر ہم عرب ممالک کو بھی بالائے طاق رکھ کر دیکھیں تو فلسطین کی اپنی اتھارٹی کو بھی اس موقع پر کم از کم جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ بھی اُس نے نہیں نبھایا۔ ایسی صورتِ حال میں حسن نصراللہ کی یہ بات وزن دار ہوجاتی ہے کہ اسرائیل کے حملے کے سبب فلسطین کے دشمنوںاور دوستوں کی پرکھ اور آزمائش ہوگئی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمیشہ فرقے کا فرق بیان کرنے والوں کے لب اس موقع پر سلے ہوئے ہیں! جب ایران اور حزب اللہ جیسی شیعہ قوتیں حماس جیسی خالصتاً سنی طاقت کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں تو کیا اس نوع کی عملی آزمائش میں پورے مارکس لینے والے اتحاد کی معرفت لوگوں کو امن اور پیار کا پیغام نہیں ملتا؟ تاہِم کوئی بھی اس کا اعتراف کرنے کے لیے آمادہ و تیار نظر نہیں آتا۔
دنیا کا کردار کبھی بھی حق اور انصاف کی جانب نہیں رہا ہے، لیکن اِس مرتبہ تو یہ معاملہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، کیوں کہ ایک ایٹمی طاقت کا حامل ملک ایک چھوٹے لیکن گنجان آبادی کے شہر کو جس طرح سے مقتل بنا رہا ہے اور اس شہر میں اندھا دھند بم باری کے باعث کمسن اور معصوم بچے لقمۂ اجل بنتے چلے جا رہے ہیں، اور جس انداز سے اسپتالوں میں بیماریوں پر بم باری کی جارہی ہے، جس طرح سے اسکولوں کو اڑایا جارہا ہے یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی اگر امن، انصاف اور تہذیب کی باتیں کرنے والے ممالک اپنے منہ میں گھنگنیاں ڈال کر خاموش بیٹھے ہوئے ہیں، ایسے میں عالمی ضمیر پر سوال کی علامت ابھر آتی ہے، یا شاید سوال نہیں بلکہ یہ جواب ہے۔ یہ جواب ہے کہ جب دنیا کے معصوم افراد موت کے گھنگھور حصار میں ہوں، تب اپنے پُرامن ماحول میں سکون کے ساتھ سونے والے کبھی بھی انسانیت کے ساتھ سچے نہیں کہلوا سکتے۔‘‘