اقبال شناسی کی نئی سرزمین:جاپان!

آج اردو، فارسی اور انگریزی کے بعدعالمی سطح پر جاپانی زبان اقبال کی ترجمانی میں بلا شبہ سرِ فہرست ہے

عہدِ جدید میں جن مسلمان مفکرین و دانش وروں نے مسلمانوں کے اہلِ علم و فکر کو اپنی دانش و حکمت سے حد درجے متاثر کیا اُن میں ہر اعتبار سے علامہ اقبال سرِفہرست ہیں کہ جو بظاہر تو جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کچھ ہی عرصے میں ان کی فکر و حکمت نے سارے عالمِ اسلام کے باشعور و تعلیم یافتہ حلقوں تک رسائی حاصل کرلی۔ انھوں نے اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے قوم کو نظری اور عملی ہر لحاظ سے اس طرح متاثر کیا اور ان میں ایک انتہائی مؤثر عقابی روح بیدار کی کہ وہ اپنی مایوسی اور محکومی کے احساس اور اس کے اثرات سے نکل کر حرکت و عمل اور جدوجہد پر آمادہ ہوں اور اپنی اُس خودی کو پہچان سکیں جو صدیوں سے انجماد کا شکار ہے۔ اس مقصد کے لیے اپنے تصورات و خیالات کو عام کرنے کے لیے اقبال نے جو ذرائع استعمال کیے وہ نظم اور نثر دونوں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے ٹھوس و مدلل افکار و خیالات شاعری کے علاوہ زیادہ تر ان کے خطبات میں ملتے ہیں جو انگریزی زبان میں انھوں نے مختلف جامعات اور علمی اداروں میں پیش کیے۔ مگران سے قطع ِنظر عوام میں شہرت اور مقبولیت انھیںان کے خطبات اور ان کی نثری تصانیف سے بڑھ کرشاعری کے ذریعے حاصل ہوئی جو ان کے خیالات اور جذبات کے ساتھ ساتھ ان کی فکر اور دانش و حکمت کے اظہارکے لیے بھی ایک انتہائی مؤثروسیلہ بنی۔

اقبال کی شاعری کے معروف و مقبول مجموعے :”بانگِ درا“، ”بالِ جبریل“، ”ضربِ کلیم“، ”ارمغانِ حجاز“، ”پیامِ مشرق“، ”اسرارِ خودی“، ”پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق“، ”مسافر“، ”رموزِ بے خودی“، اور ”جاوید نامہ“، سبھی اپنی اپنی ایک اہمیت، تاثیر اور مقبولیت کے حامل ہیں۔ ان کا مطالعہ اور ان سے کسبِ فیض جنوبی ایشیا کے علاوہ دیگر ممالک ایران، ترکی اور عرب دنیا میں تواتر سے ہوتا رہا ہے اور ان کے تراجم بھی ان ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک اور ان کی زبانوں اور ادبیات میں ہوتے رہے ہیں جن میں مشرقِ بعید کے ممالک بالخصوص انڈونیشیا، چین اور جاپان بھی شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا کے علاوہ سارے بیرونی ممالک میں جاپان اس لیے ممتاز و منفرد ہے کہ اقبال کے سارے ہی اردو کلام کے مجموعے ایک نظم و ترتیب کے ساتھ جاپان میں اور جاپانی زبان میں ہوتے رہے ہیں، اور یہ تراجم فردِ واحد ہیروجی کتاؤکا، پروفیسر شعبۂ اردو، دائتو بنکا یونیورسٹی، سائتاما، جاپان نے کیے ہیں۔ یہ سارے تراجم وہاں جاپان میں شائع بھی ہوئے اور جاپانیوں کو اقبال اور ان کی فکر و حکمت سے متعارف کرانے کا وسیلہ بنے ہیں۔ ان شعری مجموعوں میں سے ”بالِ جبریل“ کے ترجمے پر تو پروفیسر کتاؤکا کو جاپان کے ممتاز ادارے ”جاپان سوسائٹی آف ٹرانسلیٹرز“ نے 2011ء کے بہترین ترجمے کے انعام سے بھی نوازا۔

اگرچہ اقبال کی شاعری کے مذکورہ بالا سبھی مجموعوں نے اپنی فکر و دانش کے توسط سے مسلمانوں کو اپنے اپنے طور پر متاثر کیا، لیکن دورِ آخر کی ان کی نمائندہ و مثالی تخلیقات میں سے ”جاوید نامہ“ ان کی ایسی تخلیق ہے جو فنی و فکری ہر اعتبار سے ایک اہم اور منفرد کاوش ہے کہ اس کی تخلیق کے نتیجے میں اس کی فنی و تخلیقی اور فکری و معنوی خوبیوں کے سبب اقبال اس مقام و مرتبے پر فائز نظر آتے ہیں جو عالمی سطح کے عظیم ترین شاعروں کا مقام ہے۔ ”جاوید نامہ“ اقبال کی دورِ آخر کی اہم ترین تخلیقات میں سے ایک ہے جس میں اقبال نے مشرق و مغرب کی نمائندہ شخصیات کی زبان سے آج کی دنیا کے حالات، مسائل، افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش نمایاں کیے ہیں، اور یہ اقبال کی ایسی تخلیقی کاوش ہے جو دیگر تخلیقات کے مقابلے میں اقبال کو اقبال کی آج کی اصل حیثیت میں سامنے لاتی ہے اور مذکورہ دیگر اگلی پچھلی تخلیقات اس کو روایتی یا اضافی سہارا دیتی ہیں۔

واقعتاً مذکورہ بالا ان ساری تخلیقات سے قطع نظر ”جاوید نامہ“ اقبال کی ایسی تخلیق ہے جو راقم الحروف کے خیال میں، خود ان کے لیے حاصلِ عمر کہی جاسکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جو خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے لیے نہایت مشکلات و مصائب کا زمانہ تھا اور جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اقبال نے ”معراج نامہ“ اور Divine Comedy کے انداز پر ”جاوید نامہ“ تخلیق کیا تھا، اور چاہتے تھے کہ ”جاوید نامہ“ کو اس عمدگی سے پیش کیا جائے کہ جو مسلمانوں میں مقبول اور عام ہو، اور مسلمان اس کی تخلیق اور اس میں پیش کردہ فکر و دانش سے حقیقی استفادہ کریں۔

اقبال کی تقریباً تمام دیگر تخلیقات کی طرح ”جاوید نامہ“ بھی مطالعات اور اقبال کی تفہیم میں متعدد ماہرینِ اقبال اور کئی زبانوں کے ادب میں خاصی توجہ حاصل کرتی رہی ہے۔ چناں چہ جاپانی زبان بھی اور جاپان اکے ماہر اقبالیات پروفیسر ہیروجی کتاؤکا، جنھوں نے تقریباً سارے ہی اردو کلامِ اقبال کو جاپانی زبان میں منتقل کردیا ہے اور جاپان میں موجود اکثر صاحبِ ذوق افراد کو اقبال سے متعارف کرایا ہے، ”جاوید نامہ“ کو کیسے اپنا موضوع نہ بناتے! لہٰذا ”جاوید نامہ“ کا انتخاب و تعارف اور اس کا ترجمہ جاپانی زبان میں ایک نہایت قابلِ تحسین اقدام یا فیصلہ ہے جو پروفیسر ہیروجی کتاؤ کا کی توجہ اور محنت و کاوش کے نتیجے میں جاپانی زبان میں منتقل ہوگیا! اس ترجمے اور اس کی کوشش پر پروفیسر کتاؤکا صاحب بے حد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اس ترجمے کے سبب کتاؤکا صاحب کے لیے جاپان کے سنجیدہ و موقر علمی حلقوں میں شہرت و وقار میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔ یہ بھی ایک سبب ہے کہ جاپان کے ایک مؤقر ادارے ”جاپان سوسائٹی آف ٹرانسلیٹرز“ کے نمائندے نے ہر سال کے بہترین تراجم کی روایت کے مطابق ”جاوید نامہ“ کے ترجمے کو کتاؤکا صاحب کے ایک مزید منفرد کارنامے سے تعبیر کیا ہے، کیوں کہ 2011ء میں اسی ادارے نے کتاؤکا صاحب کو اُن کے اقبال ہی کے شعری مجموعے ”بالِ جبریل“ کے ترجمے پر انعام سے نوازا تھا۔

پروفیسر ہیروجی کتاؤکا صاحب نے لگتا ہے اب خود کو اقبال یا اقبالیات کے لیے وقف کردیا ہے۔ ورنہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ”ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز“ میں اردو زبان سیکھنے اور اس میں لیاقت پیدا کرنے سے ہوا تھا، کراچی یونیورسٹی میں بھی دوسال انھوں نے وظیفے پر اردو زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی، پھر جاپان واپس جاکر اوساکا یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور کچھ عرصہ گزار کر 1986ء میں ٹوکیو کے نواحی علاقے سائتاما میں نئی قائم ہونے والی یونیورسٹی ”دائیتو بنکا یونیورسٹی“ میں شعبۂ اردو قائم کرکے اپنی ساری پیشہ ورانہ زندگی اردو زبان و تدریس کی خدمت میں گزار دی۔ اس دوران اردو ادب سے خاص نسبت انھیں حاصل رہی اور اردو کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں سے سعادت حسن منٹو کے سارے ہی معروف و مقبول افسانوں کو انھوں نے جاپانی زبان میں منتقل کردیا۔ اردو زبان و ادب کی خدمت

پر انھیں حکومتِ پاکستان نے 2010ء میں ”ستارۂ امتیاز“ کے اعزاز سے نوازا اور اقبال کے کلام خصوصاً ”بال جبریل“ کا جاپانی میں ترجمہ کرنے پر ”جاپان سوسائٹی آف ٹرانسلیٹرز“ نے انھیں 2011ء میں ”اسپیشل ٹرانسلیشن ایوارڈ“ عطا کیا۔ اقبال کی شاعری کی جانب متوجہ ہونے اور خود کو اس کے لیے وقف کردینے تک وہ اردو ادب یا اردو کے نمائندہ افسانوں کے تراجم میں حد درجہ دل چسپی لیتے رہے، لیکن اب وہ صرف اقبال کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئے ہیں جو اقبالیات کی مطالعاتی تاریخ میں شاید واحد مثال کے طور پر جنوبی ایشیا کے باہر بالخصوص مشرقِ بعید کے ممالک میں اور عالمی سطح پر ممتاز بھی رہیں گے۔ ان ہی انعامات و اعزازات کے سلسلے مں اس سال کے انعامات کی تقریب26 اکتوبر 2023ء کو منعقد ہوئی جس میں تازہ کتابوں کی نمائش کا اہتمام بھی ہوا، جو ٹوکیو میں ہوئی۔ اس نمائش میں ”جاوید نامہ“ کا یہ ترجمہ اس ادارے کی جانب سے ایک ”بہترین کاوش“ کے طور پر نمایاں رکھا گیا، جو کتاؤکا صاحب ہی نہیں علامہ اقبال اور پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز سے کم نہیں۔