حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”صبر وہی ہے جو مصیبت کے شروع میں ہو (یعنی ثواب اسی میں ملتا ہے)
آخر تو (بعد میں) سب کو صبرآ(ہی) جاتا ہے“۔
(جامع ترمذی ،جلد اول باب الجنائز ،حدیث نمبر987-986 )
(تیسرا اور آخری حصہ)
٭… ہمسر کا مفہوم: وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ o (4:112) اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
ہمسر سے مراد دراصل یہ ہے کہ جو کام اس کے ہیں، وہی کام کوئی دوسرا بھی کرنے والا ہو۔ جو صفات اس کی ہیں، وہی صفات کسی اور میں بھی پائی جاتی ہوں، چاہے کم تر سہی لیکن کسی اور میں بھی پائی جاتی ہوں۔ جو اختیارات اس کے ہیں، ان اختیارات میں کوئی دوسرا بھی اس کا شریک ہو، دوسرے بھی اسی طرح کے اختیارات رکھتے ہوں۔ جو حقوق اس کے ہیں، کوئی دوسرا بھی وہ حقوق رکھتا ہو۔ یہ گویا کفو یا ہمسر ہونا ہے۔ یہاں ان چاروں باتوں کی نفی کی گئی ہے۔ یعنی نہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس معنی میں کوئی شریک اور اس کا ہمسر ہے، نہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں اس معنی میں کوئی ہمسر ہے، نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں اس معنی میں کوئی ہمسر ہے، اور نہ کوئی ایسی ہستی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو کام ہیں وہ کام کوئی دوسرا کرسکے۔ ان ساری حیثیتوں سے اس کی نفی کی گئی ہے۔
مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ مشرکین اُلوہیت کے بارے میں اپنے ذہن میں کیا سمجھتے ہیں؟ مشرکین یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام الہٰوں سے بالاتر ہستی ہے، پرمیشر ہے، مہاتما ہے، اور بڑے جی سے god ہے اور چھوٹے جی سے بہت سے God ہیں۔ لیکن بڑے جی سے صرف ایک God ہے۔ اس طرح سے ان کے مختلف تصورات ہیں۔ یہ ساری چیزیں یہ بتاتی ہیں کہ ان کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو اختیارات ہیں دوسری ہستیوں کے بھی ایسے ہی اختیارات ہیں۔ اور جب دوسری ہستیوں کے بھی ویسے ہی اختیارات ہیں اور اللہ تعالیٰ جو کام کرتا ہے ویسے ہی کام دوسرے بھی کرتے ہیں چاہے چھوٹے پیمانے پر کرتے ہوں یا اسی کے حکم سے کرتے ہوں، تو لامحالہ ان کے حقوق بھی اسی طرح کے ہیں جیسے کہ خدا کے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ دوسری ہستیوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں، ماتھا ٹیکتے ہیں اور نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدائی کی صفات، اختیارات اور حقوق کچھ دوسرے لوگوں کو بھی حاصل ہیں۔
٭… شرک کی جڑ: مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ اگر ایک آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے، کوئی دوسری ہستی بھی دیکھ سکتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دیکھنے اور اس کے بصیر ہونے کی جو صفت ہے وہ کسی دوسری ہستی کو بھی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کی سنتا ہے۔ دنیا میں اور اس ساری کائنات میں کوئی آواز ایسی نہیں جو وہ نہ سنتا ہو۔ وہ بیک وقت سب کی سنتا ہے۔ اگر ایسا ہی تصور چاہے محدود پیمانے پر کوئی شخص قائم کرے کہ مثلاً اسی زمین پر کوئی ہستی ایسی ہے کہ پورے کرۂ زمین پر جہاں سے بھی اسے پکارا جائے، وہ بیک وقت ساری آوازیں سن رہی ہے، جو بھی اسے پکار رہا ہے، اس کی پکار اس تک پہنچ رہی ہے، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اسی ہستی کے متعلق چھوٹے پیمانے پر وہی بات فرض کرلی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہے۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے اختیارات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی اولاد دینے والا ہے، رزق دینے والا ہے، وہی بیماروں کو تندرست کرنے والا ہے، وہی تمام انسانوں اور تمام مخلوقات کی تمام حاجات پوری کررہا ہے۔ اگر کسی دوسری ہستی کے متعلق یہ فرض کرلیا جائے کہ وہ بھی اسی طرح سے لوگوں کو اولاد دیتی ہے، وہ بھی اسی طرح سے بیماریوں سے شفا دیتی ہے، وہ بھی لوگوں کی رزق رسانی کا کچھ انتظام کررہی ہے، وہ بھی لوگوں کو نوکریاں دلوا رہی ہے، کاروبار چمکوا رہی ہے۔ اس طرح کے تصورات اگر قائم کرلیے جائیں تو لامحالہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اسے اللہ تعالیٰ کا ہمسر بنا رہے ہیں، اور اس کے اختیارات بھی اسی طرح کے ہیں جیسے کہ اللہ کے ہیں، اور شرک ہو نہیں سکتا جب تک کہ یہ تصور قائم نہ کرلیا جائے۔
اگر آدمی یہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات کسی کو حاصل نہیں ہیں، کوئی دوسرا اس کے اندر ذرہ برابر بھی شریک نہیں ہے۔ اگر وہ یہ سمجھ لے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے وہ کوئی دوسرا نہیں کرتا۔ اگر وہ یہ بات جان لے کہ جو اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہیں وہ کسی اور کے نہیں ہیں، جو صفات اس کی ہیں وہ کسی اور کی نہیں ہیں، تو شرک ممکن ہی نہیں ہے۔ آدمی بے اختیار کے سامنے نہیں جھکا کرتا۔ آدمی اسی کے سامنے جھکا کرتا ہے جس کے بارے میں اس کا کوئی تصور ہو کہ یہ کچھ اختیارات رکھتا ہے۔
٭… عبادت کا وسیع مفہوم: اس وجہ سے یہ بات واضح طور پر فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہیں ہے، کسی بھی معنی میں کوئی اس کا ہمسر نہیں۔ کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے کہ وہ خدائی کے کام چلا سکے۔ کسی کے پاس خدائی کے اختیارات نہیں ہیں۔ کسی کے اندر خدائی کی صفات نہیں ہیں، اور پھر لازماً کسی کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ اس کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو خدا کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یعنی کفو (ہمسر) ہونے کی نفی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ پھر عبادت اور عبادت سے متعلق جتنی چیزیں ہیں، وہ ساری کی ساری اور کسی کو حاصل نہیں۔ جب ایک مرتبہ یہ نفی کردی گئی کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا کفو ہے تو لامحالہ اس کے اندر خودبخود اس کی نفی ہوجاتی ہے کہ کوئی دوسری ہستی عبادت کے لائق ہے۔ عبادت کے معنی لازماً نماز کے نہیں ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور اگر انہیں کہا جائے کہ آپ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ صاحب ہم ان کی نماز کب پڑھتے ہیں؟
عبادت کا لفظ وسیع ہے۔ اس کے اندر دعا بھی شامل ہے۔ جب آپ دعا مانگ رہے ہیں، مدد مانگ رہے ہیں، استغاثہ کررہے ہیں، اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے پکار رہے ہیں، یہ بھی عبادت ہے۔ اسی طرح عبادت کی بے شمار شکلیں ہیں۔ مشرکین کو دیکھیے کہ وہ اپنے بتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟ نیازیں پیش کرتے ہیں کہ نہیں کرتے؟ نذریں پیش کرتے ہیں
کہ نہیں کرتے؟ ان کے گرد گھومتے ہیں کہ نہیں؟ ان کے آستانوں کو چومتے ہیں کہ نہیں؟ یہ سارے کام عبادت ہیں۔ ان میں سے ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے، کسی دوسرے کے لیے مخصوص نہیں۔
جب کبھی آپ تجزیہ کریں گے کہ کوئی شخص شرک میں مبتلا ہے اور جب کبھی آپ اس سے بات کریں گے، تو آپ دیکھیں گے کہ وہ خدا کی ایسی صفات بیان کرے گا جس سے معلوم ہوگا کہ وہ سمجھتا ہے کہ الوہیت کا کوئی حصہ کسی دوسری ہستی کو پہنچا ہوا ہے۔ یہ عالم الغیب ہے، یہ ہر جگہ موجود ہے، یہ سب کی مدد کو پہنچ رہا ہے، یہ لوگوں کو بیٹے دے رہا ہے، یہاں سے روزگار ملتے ہیں، یہاں سے شفا ملتی ہے۔ یہ ساری چیزیں جو وہ بیان کرتے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں میں قریبی تعلق ہے۔ یہ عبادت کے مراسم اسی لیے انجام دے رہے ہیں کہ یہ صفات تصور کرلی گئی ہیں۔ اگر ایک مرتبہ کفو ہونے کا تصور دل و دماغ سے نکل جائے تو کسی اور کی عبادت کا امکان ہی نہیں ہے۔ پھر عبادت سوائے اللہ کے کسی اور کی ہو نہیں سکتی۔
اس لیے مختصر الفاظ میں تصورِ توحید کو ذہن نشین کیا گیا ہے۔ ان چند فقروں نے پورے شرک کی جڑ کاٹ دی ہے اور نکھار کر توحید کے عقیدے کو بیان کر دیا ہے۔ اسی وجہ سے اس سورہ کانام سورۂ اخلاص رکھا گیا ہے، یعنی یہ خالص توحید پیش کرتی ہے۔