معروف کالم نگار امتیاز دانش نے بروز منگل 24 اکتوبر 2023ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد میں وطنِ عزیز کے سیاسی حالات کے تناظر میں جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
’’سیاست عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے: ملکی تدبیر اور انتظام۔ اسے سادہ الفاظ میں عوام کی خدمت کہا جاتا ہے۔ یہ ملک اور قوم کی بھلائی اور بہتری کے لیے کی جاتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور جمہوری ممالک میں تو اسی طرح سے ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں اس کے برعکس ہورہا ہے۔ یہ ملک اور قوم کے بجائے افراد کے لیے ہورہی ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کبھی بھی صحیح اور درست نہج پر استوار نہیں ہوئی ہے، یہ ہمیشہ ایسے ہاتھوں کے سپرد کی گئی ہے جو ایک تو اس سے بالکل انجان تھے، اور دوسرا یہ کہ اس سے مخلص نہیں تھے۔ انہوں نے اقتدار ملتے ہی ملک اور قوم کو فائدہ دینے کے بجائے اُنہیں فوائد بہم پہنچائے ہیں جو انہیں سیاست میں لے کر آئے اور پھر اقتدار بھی ان کے حوالے کیا۔ سیاست ہمارے ہاں ہمیشہ ہی سے ’’مخصوص‘‘ حلقوں کی مطیع اور تابع رہی ہے، اس لیے یہ کبھی بھی صحیح معنوں میں نہیں ہوپائی ہے۔ یہ ’’حلقے‘‘ ہمیشہ ہی مخلص سیاست دانوں سے خوف زدہ رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے انہیں غدار قرار دے کر سیاست سے آئوٹ کیا ہے۔ ملک کے قیام کو 76 برس بیت چکے ہیں لیکن ہماری سیاست تاحال ان ’’مخصوص حلقوں‘‘ سے گلوخلاصی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی وطنِ عزیز کی سیاست کو اپنی مرضی اور منشا کے موجب چلایا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک طرح سے ریموٹ کنٹرول کی مانند رہی ہے۔ انہوں نے انجان اور سادہ افراد کو سیاست کے میدان میں لاکر اقتدار اُن کے حوالے کیا ہے اور یہ سلسلہ بدقسمتی سے آج تک چل رہا ہے جسے ملک کے عوام بھگتنے پر مجبور ہیں۔ انگریز ادیب سرفریڈرک پولاک نے سیاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے… ایک نظریاتی سیاست اور دوسری اطلاقی سیاست یا عملی سیاست۔ لیکن ہمارے ہاں سیاست کی ان دونوں اقسام کا ہی وجود نہیں رہا ہے، بلکہ یہاں دراصل منافقت اور جھوٹ کا دوسرا نام سیاست ہے جو بڑے طمطراق سے ہورہی ہے۔ مخلص اور نظریاتی افراد سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ہیں، اب ہمارے ملک کی مروجہ سیاست میں زیادہ تر ایسے لوگ حاوی ہوچکے ہیں جن کی زبان پر صبح کو ایک اور شام کو دوسری بات ہوتی ہے، یعنی ضمیر سے خالی سیاست۔ یہی وجہ ہے کہ کون برسراقتدار آتا ہے اور کون اقتدار سے رخصت ہورہا ہے، اب اہلِ وطن کا اس سے کوئی بھی سروکار نہیں رہا ہے۔
سیاست میں ایک سیاست دان اور دوسرے مفکر ہوا کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کی آنکھ پر نظر ہوتی ہے اور سیاسی مفکرین کی ملک اور قوم کے مستقبل اور بھلائی پر۔ وہ سیاست میں عملی طور پر حصہ نہیں لیتے بلکہ محض اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اور مستقبل کے لیے بہتر حکمتِ عملی تشکیل دیتے ہیں۔ سیاست دان حصولِ اقتدار کے لیے پوری کوشش کرتے ہیں، یہاں تک کہ اگر اس کے لیے انہیں اپنے ضمیر کا سودا کرنا پڑجائے تو اس سے بھی نہیں ہچکچاتے، اور اس کے لیے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے… اور ایسے ہی سیاست دان ملک کے اصل کرتا دھرتائوں کو قابلِ قبول ہوتے ہیں اور ان کے لیے ہر دور میں اقتدار کے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں، کیوں کہ ان کے برسرِاقتدار آنے سے انہوں نے ہمیشہ عیش کیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہمارے ہاں سیاست جھیل بن چکی ہے اور سیاست دان اس کے پرندے۔ وہ جسے بھی اقتدار ملتا ہوا دیکھتے ہیں وہاں اڑ کر پہنچ جاتے ہیں، اور ان کی اہمیت تب بڑھ جاتی ہے جب الیکشن کا وقت آتا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے تاحال الیکشن کی تاریخ نہیں دی ہے لیکن بہرحال بظاہر یہ امر طے شدہ ہے کہ الیکشن ضرور ہوگا۔ نوازشریف کی آمد کے بعد سیاسی میدان سج گیا ہے اور ساری سیاسی جماعتوں میں بھی ایک طرح سے جان پڑ گئی ہے اور انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کبھی ایک کو اپنے قریب تر کررہی ہے اور کبھی دوسرے کو خود سے دور کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ کل تک آصف زرداری اسے اپنے قریب دکھائی دے رہے تھے جنہوں نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اس کے اشارۂ ابرو پر کام کرکے اسٹیبلشمنٹ کا کام آسان کیا، لیکن اب اسٹیبلشمنٹ کے ہاں نوازشریف کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ آج ہر فرد کی زبان پر صرف یہی بات ہے کہ اب اقتدار نوازشریف کو ملے گا۔ کیا اقتدار واقعی نوازشریف ہی کو ملے گا؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ موسم خواہ تبدیل ہو یا نہ ہو، البتہ سیاسی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے۔ کل جو سیاسی پرندے عمران خان کو صحیح سمجھ کر اُن کی پارٹی کی جھیل میں تیر رہے تھے آج وہ اُن کے لیے خراب ہوگئی ہے۔ ان میں سے کئی اڑان بھر کر دوسری جھیلوں پر جاکر منڈلانے شروع ہوگئے ہیں، اور بہت سارے ان میں سے اڑان بھرنے کے لیے اپنے پر تول رہے ہیں۔ یہ صرف پی ٹی آئی کی صورتِ حال نہیں ہے بلکہ لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ ہر آنے والے دن میں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی پارٹی میں جارہا ہے۔ جسے بھی اقتدار میں آنے کا اشارہ مل رہا ہے وہ اشارے کے مطابق اڑان بھر کر اسی سمت جارہا ہے۔ پھر کون سی پارٹی، اور کیسا نظریہ؟ یہ سب باتیں پرانی اور فرسودہ ہوچکی ہیں۔ یہ پوسٹ ماڈرن ازم کا دور ہے اور مفادات کی جنگ بامِ عروج پر ہے۔ اس جنگ میں وہی کامیاب اور کامران ٹھیرے گا جو ملک کے اصل بااختیار حلقوں کے اشاروں پر چلے گا۔
کل تک اقتدار کے اشارے آصف زرداری کو مل رہے تھے اور موسمی پرندے اپنی جھیل چھوڑ کر پیپلزپارٹی کی جانب محوِ پرواز ہورہے تھے، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے جب سے اپنا رویہ تبدیل کرکے دستِ شفقت نوازشریف کے سر پر رکھا ہے تب سے دیگر پارٹیوں کے افراد اب نوازشریف کی پارٹی میں جارہے ہیں۔ جوں جوں الیکشن قریب آتے جائیں گے ان کی اڑان میں بھی تیزی آتی جائے گی۔ پرندے کبھی جھیل کے ایک طرف اور کبھی دوسری طرف آکر بیٹھیں گے، کیوں کہ اسکرپٹ لکھنے والوں نے ان کے مقدر میں یہی کچھ لکھا ہے اور اسی طرح کے پرندے تیار کیے ہیں۔‘‘
نوٹ: کالم کے مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔