ہماری موجودہ دنیا بری طرح سے اس بیماری کی گرفت میں ہے۔
ہم نے ابد تک زندہ رہنے والے مسائل اور معاملات کو بھی وقتی بنا کر رکھ دیا ہے۔
ہماری دنیا حقیقت کے نام پر جس نعرے بازی میں مصروف ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ جس چیز کو گہرائی میں دیکھیں گے‘ معلوم ہوگا نعرے پر چل رہی ہے۔ جس تصورکے پسِ پشت نعرہ نہیں ہے وہ مقبول نہیں۔ نعرے بازی دراصل انسان کے اس خوف کی علامت ہے کہ اگر اُس نے بات کو اس کی اصل حالت میں پیش کیا تو وہ مقبول نہیں ہوگی۔ مقبولیت جس طرح آج صداقت یا حقیقت کا معیار بنی ہے پہلے کبھی نہیں بنی۔
نعرے سے جو ہیجان پیدا ہوتا ہے اس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ اس کی عمر کم اس لیے ہوتی ہے کہ وہ حقیقی بات کی ایک غیر فطری نمو یعنی Un Natural Growth ہوتی ہے۔
نعرہ ایک اعتبار سے ایڈہاک اَزم کی بھی علامت ہے اور ہماری موجودہ دنیا بری طرح سے اس بیماری کی گرفت میں ہے۔ ہم نے ابد تک زندہ رہنے والے مسائل اور معاملات کو بھی وقتی بنا کر رکھ دیا ہے۔ انسان نے تاریخ کے کسی دور میں شاید ہی اپنے آپ کو اس انداز میں شکست دی ہو‘ ہم نے اپنے معاملات کو الجھایا نہیں بلکہ ان کی شکل ہی بدل دی ہے۔
اس وقت دنیا میں جو دو چار نعرے بڑے مقبول ہیں اُن میں مغربی دنیا کی اخلاقیات بھی شامل ہے۔ مغرب اس وقت دنیا کا سب سے بڑا انسان پرست‘ آزادی پسند اور معالات میں ایمان دار ترین خطے کے طور پر مشہور ہے۔ مشہور ہی نہیں مقبول بھی ہے۔ شہرت کے مقابلے پر مقبولیت میں قبولیت کا عنصر کہیں زیادہ بڑی مقدار میں موجود ہے۔
مغربی اخلاقیات کے جو دوچار عناصر اس وقت دنیا میں معیار بنے ہوئے ہیں ان کے پسِ پشت ایک پورا فلسفیانہ نظام کارفرما ہے۔ اس نظام کی ثقالت کے پیش نظر ہم ان عناصر کو عام زبان میں واضح طور پر پیش کرتے ہیں۔
-1 مغرب انسان پرست ہے اور اُس کے نزدیک انسان ایک بڑی قابلِ توقیر شے ہے۔
-2 مغربی معاشرے کے افراد جھوٹ اور فریب سے مبرا نہیں تو ان سے بہت دور ضرور ہیں۔ اسی لیے وہ اشیا میں ملاوٹ اور کم تولنے جیسی بیماریوں کا شکار نہیں ہیں جن میں مشرقی دنیا بری طرح ملوث ہے۔
-3 وہ وقت کے بڑے پابند ہوتے ہیں‘ وغیرہ۔
اس فہرست میں اور بہت سے امور شامل کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان تمام امور کی شمولیت سے بحث طویل ہوجائے گی اور طویل بحثوں کی اخباری صفحوں پرکیا رسائل کے صفحوں پر بھی گنجائش نہیں رہ گئی ہے، اور وہ بھی ایسی سنجیدہ بحثوں کی جن کو پڑھ کر ہمارے عزیز بھائی ابونثر تک اختلاجِ قلب کا شکار ہوجاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ شاہنواز فاروقی صاحب کیا فلسفیانہ موشگافیاں فرماتے ہیں اور ان میں کیا موٹی موٹی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال آیئے اب ذرا ان مشہور و مقبول نعروں کی حقیقت پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے۔
نعرہ نمبر ایک: مغرب انسان پرست ہے اور اس کے نزدیک انسان ایک بڑی قابلِ توقیر شے ہے، کم از کم اس کے اپنے معاشرے میں۔
اوّل تو انسان پرستی ہی کوئی مثبت تصور نہیں ہے کیوں کہ یہ انسان پرستی‘ خدا پرستی کے تصور سے پیدا ہونے کے بجائے خدا پرستی کے تصور کے انکار سے نمودار ہوئی ہے۔ خیریہ تو ایک مذہبی پس منظر میں کیا گیا اعتراض ہے اور مغرب مذہب کو ایک جامد نظام یا Dogma جانتا اور مانتا ہے۔ اس لیے ہم انسان پرستی کو اس کی غیر مذہبی شکل میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان پرستی کے نعرے کے سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ اس سے مراد عام انسان ہے یا کوئی خاص انسان؟ اگر اس سے مراد کوئی خاص انسان ہے تو پھر اخلاقی نقطہ نگاہ سے اس تصور پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں، کیوں کہ ہر نسلِ انسانی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسان کا جو چاہے تصور رکھے۔ لیکن اگر اس سے مراد عام انسان ہے تو سوال یہ ہے کہ مغرب جو سلوک اپنے معاشرے میں رہنے والے افراد سے کررہا ہے وہی سلوک وہ دنیا کے دیگر معاشروں میں آباد انسانوں سے کیوں نہیں کرتا؟ ایسا کیوں ہے کہ وہ دنیا کے تمام ترقی پذیر معاشروں کو معیشت کے معاملے میں خودکفالت حاصل نہیں کرنے دیتا؟ خود جمہوریت کا چیمپئن بنتا ہے اور ترقی پذیر معاشروں میں آمروں کو مسلط کرتا اور ان کو تقویت پہنچاتا ہے۔ عراق کے خلاف سلامتی کونسل ایک رات میں فیصلہ کردیتی ہے اور کشمیر کا مسئلہ چالیس برسوں سے زیادہ عرصے میں بھی حل نہیںہوپاتا؟ ایسا کیوں ہے کہ امریکہ بین الاقوامی منڈی میں گندم کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لیے لاکھوں ٹن گندم سمندر میں پھنکوا دیتا ہے وہ کیوںیہ گندم دنیا بھر کے بھوکے انسانوں کو فراہم نہیں کردیتا؟
اس کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ اور باقی مغربی دنیا عام انسان پرستی کے بجائے ایک خاص انسان کی پرستش کرتی ہے اور یہ انسان مغربی انسان کے سوا کوئی نہیں ہے۔ مغربی فکر کی حرام کاری کی یہ پہلی شکل ہے۔
خود مغرب کے معاشرے کا انسان بھی ان معاشروں کی حکومتوں کے لیے کوئی اخلاقی ذمے داری نہیں ہے بلکہ وہ ایک سیاسی ذمے داری ہے۔ مغربی معاشروں کی خراب حالت وہاں کی حکومتوں کے لیے ایک سیاسی مسئلہ ہوتی ہے کیوں کہ اس کی زد ان کی حکومت پر پڑ سکتی ہے۔ ورنہ مغربی معاشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی فرد نے مغرب کے مفادات پر ضربِ کاری لگائی ہے ان معاشروں نے اسے کبھی برداشت نہیں کیا۔ ہمیںیاد ہے کہ ایزرا پاؤنڈ جیسے عظیم شاعر کو امریکی حکومت نے پاگل قرار دے کر پندرہ برس تک پاگل خانے میں داخل کیے رکھا تھا۔ ادب کے نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ بیمنگوے کی خودکشی کا پس منظر بھی سیاسی تھا۔ ان دونوں کا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنے معاشرے کی حکومتوں کے غیر انسانی رویوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور واقعتاً عام آدمی کی بات کررہے تھے۔
نعرہ نمبر دو: مغربی معاشروں میں اشیا میں ملاوٹ نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ مکر و فریب سے بہت دور ہیں اور تجارت میں ایمان داری وہاں ایک مسلمہ اصول ہے۔
دراصل مغربی معاشرے جس معاشی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں اُس میں مقابلے کی ایک شدید فضا موجود ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ کی معاشرے پر نگاہ اور گرفت ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان معاشروں میں پریس آزاد ہے۔ جی ہاں! مگر اس کی آزادی کا ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ اگر وہ آزاد نہ ہو تو ایک ہفتے بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ بہرحال عرض یہ کررہا تھا کہ ان معاشروں میں مقابلے کی ایک شدید فضا پائی جاتی ہے۔ اس شدید فضا کے باعث وہاں کوئی کمپنی اپنی مصنوعات میں ملاوٹ کے جرم کا ارتکاب نہیں کرسکتی، کیوں کہ اگر وہ ایسا کرے گی تو اس کی ساکھ بری طرح مجروح ہوگی اور وہ مارکیٹ سے باہر ہوگی۔ ان معاشروں میں چونکہ مقابلے کی آزادانہ فضا ہے اس لیے کسی کمپنی یا ادارے کا وجود معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ایک ادارہ اپنی غلط کاریوں کے باعث بدنام ہوجاتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا ادارہ اُس کی جگہ لے کر خلا کو پُر کردیتا ہے۔ گویا اس اخلاقیات کے پس پشت صرف معاشی مفادات کام کررہے ہیں۔ یعنی یہ ایمان داری برائے ایمان داری نہیں ہے۔
اچھا، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ کیا بات ہے کہ مغربی کمپنیاں وہ دوائیں مسلسل ترقی پذیر معاشروں میں فروخت کرتی رہتی ہیں جن پر اُن کے اپنے معاشرے میں پابندی لگ چکی ہوتی ہے؟ ایسا کرتے ہوئے اُن کی اخلاقیات کو کیا ہوجاتا ہے اور ان کی تاجرانہ دیانت داری کس کے ساتھ فرار ہوجاتی ہے؟ جہاں تک ان معاشروں میں جھوٹ اور وعدہ خلافی کے نہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کی ایک بڑی سیدھی سادی نفسیاتی وجہ ہے۔ جھوٹ اور وعدہ خلافی دراصل ایک پیچیدہ انسانی صورتِ حال پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسی پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ اور یہ وقت مغرب کے نظامِ زندگی میں لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے وہ ان مکروہات سے عام طور پر دور ہیں۔ پھر وہ اگر ایسا کریں تو اُن کا معاشی ڈھانچہ جو اُن کے لیے خدا کے ہم معنی ہے، تباہی کا شکار ہوجائے گا۔ یہ بات ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ان معاشروں میں سچ اس لیے نہیں بولا جاتا کہ وہ کوئی مقدس بات ہے، بلکہ صرف اس لیے کہ وہ ان کے معاشرے کو بغیر کسی خلل کے چلنے میں مدد دیتا ہے۔ ویسے ان معاشروں میں جتنے بڑے بڑے فراڈ ہوتے ہیں شاید ہی دنیا کے کسی معاشرے میں ہوتے ہوں۔ پھرعالمی سطح پر مغربی دنیا حد درجہ کی وعدہ خلاف، جھوٹی اور مکار ثابت ہوئی ہے۔ اس بات کو سیاسی، معاشی اور سماجی جس پس منظر میں چاہے دیکھا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر فرانس، پاکستان کو ایٹمی پلانٹ فراہم کرنے کا تین مرتبہ وعدہ کرکے ہر مرتبہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے، اور ہم تو امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے پاکستان پہنچنے کے آج بھی منتظر ہیں۔
نعرہ نمبر تین: ان معاشروں میںوقت کی بڑی پابندی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں وقت کی بڑی قلت ہے۔ وہ چھ بجے آپ سے ملنے کا کہہ کر چھ بجے اس لیے آجاتے ہیں کہ سات بجے انہیں کلب بھی جانا ہوتا ہے، اور سات بجے وہ اس لیے کلب پہنچ جاتے ہیں کہ آٹھ بجے انہیں اپنی گرل فرینڈ سے ملنے بھی جانا ہوتا ہے، اور آٹھ بجے وہ اپنی گرل فرینڈ سے ملنے اسی لیے پہنچ جاتے ہیںکہ دس بجے تک انہیں گھر پہنچ کر جلد ازجلد سوجانا ہوتا ہے کیوں کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو صبح آٹھ بجے دفتر نہیں پہنچ سکیں گے، اور اگر وہ ٹھیک وقت پر دفتر نہیں پہنچیں گے تو فارغ کردیے جائیں گے اور ان کی جگہ کوئی اور آجائے گا۔
ہماری سمجھ میںیہ بات نہیں آتی کہ اس پورے منظرنامے میں اخلاقیات کہاں موجود ہے؟ یہ تو اپنے معاشی اور حیاتیاتی وجود کے تحفظ کی ایک جدوجہد ہے اور بس۔
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بہت اچھے ہیں؟ جی نہیں! ہم تو بدترین ہیں، اور چوں کہ ہم بدترین ہیں اس لیے انسانیت کا معیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم تو قابلِ گفتگو بھی نہیں ہیں۔ یہ تو معیاری انسانوں ہی کا حق ہے کہ ان پر گفتگو کی جائے۔
دراصل مغرب کی دہری اخلاقیات اس کے باطن میں موجود ایک شدید احساسِ جرم کے اظہار کی صورت ہے۔ مغرب کے باطن میںیہ احساس کام کررہا ہے کہ اس کی تمام تر ترقی اور خوش حالی کسی نہ کسی عنوان سے کمزور قوموں کے استحصال کا نتیجہ ہے۔ یہ استحصال مادّی بھی ہے اور فکری بھی۔ بہرحال مغرب کے نعرے اور حقیقت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا اس کے قول اور فعل میں فرق ہے۔ اس کا قول نعرہ ہے اور فعل حقیقت۔