ہفتۂ رفتہ کے کالم کی آخری سطور میں ہم لکھ بیٹھے تھے:
’’مُغ کیا ہوتا ہے؟ اس کی تفصیل پھر سہی‘‘۔
نہیں معلوم تھا کہ ٹالم ٹول کی نیت سے لکھا ہوایہ ننھا سا فقرہ پیچھے پڑ جائے گا۔ ٹالے نہیں ٹلے گا۔ امریکہ، کینیڈا، بھارت اور خود وطنِ عزیز پاکستان کے مختلف شہروں سے متعدد خواتین و حضرات نے اصرارکیا کہ
’’مُغ کے متعلق ضرور بتائیے اور فی الفور بتائیے‘‘۔
فرداً فرداً اور تفصیل سے سب کو بتانا محنت طلب کام تھا۔ محنت سے ہم جی چراتے ہیں اورکہولت سے کا م چلاتے ہیں کہ سہولت اسی میں ہے۔ پس ہماری کاہلی نے ہر سائل کو الگ الگ جواب دینے کے بجائے کالم کی جھولی بھردینا زیادہ سہل سمجھا۔ مگر اس سے پہلے کہ پڑھنے والے پھر پیچھے پڑجائیں، ’ٹالم ٹول‘ کا مسئلہ بھی ابھی نمٹاتے چلیں کہ ’’مسائل ایسے سائل ہیں جو ٹالے سے نہیں ٹلتے‘‘۔ کسی کام کو ٹالنے، لیت و لعل سے کام لینے اور حیلے حوالے یا بہانے کرنے کے لیے ہندی ترکیب ’ٹال ٹول‘ استعمال ہوا کرتی تھی۔ سو، رشکؔ نے بھی استعمال کرلی:
پہن کے ٹُول کے کپڑے نہ ٹالیے وعدہ
ہمیں پسند نہیں ٹال ٹول کی باتیں
متوازی وِتری لکیروں سے بُنا ہوا انگریزی کپڑا ‘Twill’ یا ‘Tweel’ جب اُردو بولنے والی بیبیوں نے پہنا تو ٹُول بروزنِ پھول کہلایا۔ ٹول کا یہ کپڑا بالعموم سرخ رنگ کا دوسوتی کپڑا ہوتا تھا جس میں بناوٹ کی لکیریں نمایاں ہوتیں۔ اِسے ’شال باف‘ بھی کہتے تھے۔
’ٹال‘ ویسے تو لکڑیوں کے ڈھیر یا لکڑیوں کی دُکان کوکہا جاتا ہے، مگر ایک قسم کا ’گھنٹا‘ بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ گائے، بھینس، بکروں اور دنبوں کے گلے میں اگر گھنٹیاں باندھی جاتی ہیں تو ہاتھی کے گلے میں ’گھنٹ‘ یا گھنٹا باندھا جاتا ہے جو ’ٹال‘کہلاتا ہے۔ اس کی تصغیر ’ٹالی‘ ہے، اسی پر اکتفا کیجیے، مزید چھوٹی کریں گے تو ’ٹَلّی‘ کہلائے گی اور ’شیدا ٹلّی‘ کے ہاتھ لگ جائے گی۔ ’ٹالنا‘ ٹرخانے یا حیلے بہانے سے جھانسا دینے کے معنوں میںمستعمل ہے۔ کسی اہلِ غرض کا کام بے رشوت کرنا پڑ جائے تو کام میں ’دیر لگانے کے لیے‘ بھی سرکاری اہل کار سائل کو ٹالتے رہتے ہیں۔ دور ہوجانے یا دفع ہوجانے کے معنوں میں بھی بولا جاتا ہے کہ ’اب یہاں سے ٹل بھی جاؤ‘ یا یوں کہ ’اللہ کا شکر ہے مصیبت ٹل گئی‘۔ شادی کی تاریخ طے ہوجانے کے بعد ملتوی ہوجائے توکہتے ہیں کہ ’تاریخ ٹل گئی‘۔ کا م نہ کرنا بھی کام ٹالنا ہے، بقولِ امیرؔ:
میں جس کو دیتا ہوں اُس فتنہ گر کے نام کا خط
وہ ٹالتا ہے کہ مجھ کو تو گھر نہیں معلوم
بات ہو رہی تھی ’ٹال ٹول‘ کی۔ٹال ٹول حد سے بڑھی تو اس لفظ کو ’ٹالم ٹول‘ کر دیا گیا۔ملا کرلکھنے کی عادت سے مجبورلوگ اسے ’ٹالَمٹول‘ لکھنے لگے۔ پھرکسی نے اس جُڑی ہوئی ترکیب کے جوڑ،تَڑ سے، توڑ دیے۔پَر اس بے ہنگم طریقے سے توڑے کہ ’م‘ ٹوٹ کر ٹال کے بجائے ٹول سے جا ملا۔ پھر کیا تھا، ٹالم ٹول کرنے والوں کونیا بہانہ مل گیا۔اب وہ ’ٹال مٹول‘ سے کام لینے لگے۔مگر شادؔ جیسے اَٹل لوگ بھلا ٹال مٹول سے کب ٹلنے والے تھے۔ ہرگز ہرگز نہ ٹلے۔ بعدکو بڑے فخر سے اپنی شان میں آپ قصیدے پڑھا کیے کہ
وہ مست ہیں جب در پہ اَڑے پیرِ مُغاں کے
بے مے کے پیے پھر نہیں ٹالے سے ٹلے ہم
لوجی! اس ساری ٹال ٹول، ٹالم ٹول اور ٹال مٹول کے باوجود پیرِمُغاں پھر آن ٹپکے۔ مجبوراً اب مُغ ہی پر بات کرلیتے ہیں۔ باتونی آدمی کو بات کا بتنگڑ بنانے کے لیے بہت پیچھے تک پلٹنا پڑتا ہے۔ سو ہم بھی اب پلٹا کھائیں گے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت تک دوڑے چلے جائیں گے۔ عمر فاروقِ اعظمؓ کے زمانے میں برپا ہونے والے معرکۂ قادسیہ (14ھ بمطابق 635ء) میں آگ پوجنے والوں پر علَم بردارانِ توحید غالب آگئے۔گویا پارساؤں کی فتح ہوئی اور پارسیوں کو شکست۔ جب آخری ساسانی بادشاہ یزدگردکے اقتدار کا خاتمہ ہوا توساتھ ہی 400 سالہ طویل خاندانی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ زرتشتیوں کو اس شکست کا شدید صدمہ تھا۔ خاندانِ ساسان اور اُس کی رعایا اپنے کو زرتشت کا پیروکہتی تھی۔ مگریہ لوگ آتش پرست تھے۔ ان کی عبادت گاہیں ’آتش کدہ‘کہی جاتی تھیں۔ ہر آتش کدے کا پروہت یا بڑا پجاری مُغ کہلاتا تھا۔ مُغ کی جمع مُغاں ہے۔ اِنھیں آتش پرست پروہتوں (یعنی مُغوں) کا پیشوا ’’پیرِ مُغاں‘‘کا لقب پاتا تھا۔
اسلام کی آمد ہوئی تو اہلِ فارس غلامی کی اُن زنجیروں سے آزاد ہوگئے جن میں اُس وقت کے ظالم بادشاہوں نے اپنی رعایا کو جکڑ رکھا تھا۔ مسلم فاتحین نے مفتوحین کو اُن کی زمینوں سے بے دخل نہیں کیا۔ اُن کی املاک پر قبضہ نہیں کیا۔ عدل و انصاف کا نظام قائم کیا۔ تمام انسان مساوی ہوگئے۔ حاکم و محکوم کے حقوق میں کوئی فرق نہ رہا۔ سب یکساں طور پر ایک اللہ کے بندے قرار پائے۔ نتیجہ یہ کہ مساجد آباد ہوئیں اور آتش کدے ویران ہونے لگے۔ ساسانی زمانے کے بچے کھچے آتش پرست زیرِ زمین چلے گئے۔ ان کی طاقت ٹوٹ چکی تھی۔ اب اُن کے پاس اس کے سوا کوئی کام نہیں رہ گیا تھا کہ کسی تہ خانے میں بیٹھ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ تدابیر اور سرگوشیاں کرتے رہیں۔ شراب پینا، رکھنا اور بیچنا (شرعاً و قانوناً) ممنوع قرار پایا تو مے خانے بھی تہ خانے میں چلے گئے۔ وہاں آتش کدے کے مُغ، مُغاں اور پیرِ مُغاں پہلے سے موجود تھے۔ سو،آتش کدے کے مغوں کے القاب مزاحاً مے کدے کے ساقیوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگے۔
تہ خانے میں مجوسی و مے خوار یکجا بلکہ یکجان ہوئے تو رندانہ شاعری میں شیخ اور زاہد پر لعن طعن کی روایت بھی پڑی۔ پھر یہی روایت اُردو شاعری میں در آئی۔ میرؔ کہتے ہیں:
تھے بُرے مُغبچوں کے تیور لیک
شیخ مے خانے سے بھلا کھسکا
شیخ کو تواپنے بھلے کے لیے کھسکنا ہی تھا۔ بھلا دیکھیے تو سہی کہ میرؔ صاحب کے مغبچوں نے اِن علامہ زاہد کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا تھا:
مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا
اِک مُغبچہ اُتار کے عمامہ لے گیا
مجوسیوں کا مجاور تو شاید اب بھی مُغ ہی کہلاتا ہو۔مگر’مُغ بچہ‘ جو پروہتوں کی خدمت پر مامور کیا جانے والالڑکا تھا، اب ساقی کا خادم ہو گیا۔گاہکوں کو شراب پلانے والے خوب صورت کم عمر لڑکے ’مُغ بچے‘ کہے جانے لگے۔اسیرؔ کو شراب سے زیادہ لگاؤ اُنھیں سے تھا:
مُغ بچے دُخترِ رِز سے ہیں لگاوٹ میں سوا
تاکتے رہتے ہیں یہ میکدے والے دل کو
’دُخترِ رِز‘ انگور کی بیٹی یعنی شراب کو کہتے ہیں۔اکبرؔ الٰہ آبادی، اس بے کہی بیٹی کے شر سے سب کی خیر مناتے ہوئے،فرماتے ہیں:
اُس کی بیٹی نے اُٹھا رکھی ہے دُنیا سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
ایمرجنسی کے زمانے میں خان آصف مرحوم نے دوسرے مصرعے میں انگور کی جگہ ’نہروجی‘ لکھ دیا تھا۔کیا غضب کیا تھا!