(دوسرا اور آخری حصہ)
سوال: کیا اشتیاق احمد کا لکھا بین الاقوامی سطح پر بچوں کی جاسوسی ادب کی ضرورت کو پورا کرتا ہے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشتیاق احمد کے ہاں کہانی کمزور ہے، آپ اس سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں؟
غلام رسول زاہد: آپ کی بات سے میں کچھ حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ اگر آپ اسے اس معیار تک لے جانا چاہتے ہیں جہاں اگاتھا کرسٹی کھڑی ہے تو شاید آپ کی یہ بات درست ہے لیکن آپ حیران ہوں گے کہ اشتیاق صاحب کی اپنی ناول نگاری میں ایسے تفتیشی نکتے ہوتے تھے ،ایسی باتیں ہوتی تھیں کہ گمان ہوتا تھا اشتیاق صاحب نے ایک طویل عرصہ پولیس میں گزارا ہے۔ جیسے صدر کی طرف سے خصوصی جازت نامے کی مثال لے لیجیے۔ حکومت کی طرف سے ملنے والا اجازت نامہ جسے پاکر ایک پولیس والا کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پر جاکے تلاشی لے سکتا ہے۔ اب دیکھیں یہ کتنی بڑی عملی ضرورت ہے جس کا اُنھوں نے احاطہ کیا۔ جس کی اہمیت اور اصلیت ایک پولیس افسر ہی جانتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں، اس میں اُنھوں نے اپنی ایک خصوصی فورس رکھی ہوئی ہے۔ خصوصی ٹھکانے رکھے ہوئے ہیں جہاں نارمل حالات نہیں ہوتے غیر معمولی حالات ہوتے ہیں۔ ملزموں کو وہاں رکھتے ہیں۔ اور اس طرح کے بے شمار نکات ہیں جن کا تذکرہ اُن کےناولوں میں جابجا ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ صلاحیت دی ہوئی تھی، وہ جاسوسی کہانیوں کی باریکیوں کو سمجھتے تھے جیسے پولیس انگلیوں کے نشانات کیسے لیتی ہے پھر انھیں محفوظ کیسے کرتے ہیں؟ یا یہ دیکھ لیں ان کے کردار جب موقع واردات پر جاتے ہیں تو شواہد کس طرح سے اکٹھے کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شخص لکھ ہی نہیں سکتا جو پولیس کا حصہ نہ رہا ہو۔ اور اس کا تذکرہ میں نے خود اشتیاق صاحب سے کیا تھا کہ یا تو آپ کے والد پولیس میں ہیں یا پھر آپ کے کوئی قریبی عزیز.. کیوں کہ جو باتیں آپ لکھتے ہیں وہ کوئی غیر پولیس آفیسر نہیں لکھ سکتا۔
تو میں سمجھتا ہوں جزوی اعتبار سے آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن کچھ ان کے کمزور پہلو بھی ہیں کیونکہ یہ ان کا ذریعہ معاش بھی تھا۔ یہی بات سعادت حسن منٹو کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ تو یہ ہر بڑے لکھنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن جو اُن کے اچھے ناول ہیں وہ بین الاقوامی معیار پر پورے اُترتے ہیں۔
سوال: ہمارے ہاں جاسوسی ناول یا پھر کہانیاں لکھنے کے حوالے سے صرف اشتیاق احمد مشہور ہوئے، کیا یہ ان کی مستقل مزاجی تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ وہ نمایاں ہوتے چلے گئے اور باقی لوگ کیوں منظر عام پر نہ آسکے؟
غلام رسول زاہد: دیکھیں عام کہانی لکھنا آسان ہے۔ جاسوسی کہانی، اگاتھا کرسٹی لکھے گی، ابن صفی لکھے گا، آرتھر کونن ڈائل اور اشتیاق احمد لکھے گا۔ یہ نام ہمیشہ گنتی کے ہی رہیں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ شر لاک ہومز کس طرح کڑیوں سے کڑیاں ملاتا ہے۔ اس کا مشاہدہ اتنا تیز ہوتا ہے کہ وہ پاس آنے والے بندے کو یہ بھی بتا دیتا ہےکہ آپ کہاں سے آئے ہیں،کیا کام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ابھی کیا واقعہ پیش آیا ہے۔ یہی اشتیاق احمد کے کردار کرتے ہیں۔ جاسوسی کہانی ہر شخص نہیں لکھ سکتا اور ہر ایک کو اسے غالباً لکھنا بھی نہیں چاہیے، لہٰذا اشتیاق احمد کے بعد کوئی بڑا نام اسی وقت ہمارے سامنے آئے گا جب کوئی ایسا دماغ اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا جیسے اللہ کی طرف سے اشتیاق صاحب کو دیا گیا تھا۔ وہ سراہے جانے کے حقدار ہیں۔ جب ہماری ملاقاتیں شروع ہوئیں تو میں ان سے کہانیوں اور ناول کی جزئیات کے بارے میں بڑے سوالات کیا کرتا تھا اور اکثر سوالوں کے جواب ان کے پاس نہیں ہوتے تھے کیوںکہ یہ چیزیں اللہ کی طرف سے انھیں عطا ہوئی تھیں۔ جاسوسی کہانی اور عام کہانی میں فرق ہے۔ عام کہانی لکھنا آسان ہے۔ یہ بات نہیں کہ میں ان کی اہمیت کم کررہا ہوں۔ سماجی اور سبق آموز کہانی لکھنا بڑا مشکل ہے، مزاحیہ کہانی لکھنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے، لیکن جاسوسی کہانی ایک خاص قسم کا شخص ہی لکھ سکتا ہے۔ ایک خاص طرح کا مصنف ہی اس کا مردِ میدان بن سکتا ہے۔
سوال: گزشتہ ایک عرصے سے اشتیاق احمد پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعے فرقہ وارانہ عناصر کو پروان چڑھایا اور ادب میں مذہب کو شامل کرکے ادب کی روح مجروح کی۔ اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
غلام رسول زاہد: دیکھیں اشتیاق احمد صاحب نے جو باطل مذاہب ہیں جیسے عیسائیت جو موجودہ شکل میں تحریف شدہ ہے اس پر تو لکھا ہے۔ نام لے کر خوب تنقید کی ہے۔ ہمارے تمام مکاتب فکر، ہمارے تمام علما اور قدما نے اس پر لکھا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی خاص فرقے کا نام لے کر اُنھوں نے اسے ہدفِ تنقید بنایا ہو، وہ جن عقائد کو درست سمجھتےتھے ان کا ذکر البتہ ان کی تحریروں میں ہمیں نظر آتا ہے اور یہ چیزیں قرآن اور سنت سے مطابقت رکھتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اُنھوں نے مسلمانوں کےکسی خاص فرقے کو نشانہ بنایا اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایا کیونکہ ان کا سارا محور قرآن وسنت ہی ہے۔ البتہ ان کے نقطۂ نظر سے آپ دلائل کے ساتھ اختلاف کرسکتے ہیںلیکن ان کا خلوص شک وشبہ سے بالاتر ہے۔
ہمارا مذہب اسلام تو بڑا جامع اور ہمہ گیر ہے۔اس لیے ہماری سیاست ہو، تعلیم ہو یا پھر معیشت.. اس میں ہم اسلام کے بنیادی اصولوں کو دیکھتے ہیں۔ اسی طرح سوال یہ ہے کہ ہم ادب کو اس سے خارج کیوں کریں؟ اگر خارج کریں گے تو پھر اقبال کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ حالی کا لکھا دریا برد کردیں گے؟ اُردو کے عظیم شاعر غالب کے ہاں بھی آپ کو اسلامی حوالے مل جائیں گے۔
اسی طرح اشتیاق احمد نے جو فکشن لکھا، اس میں دینی اقدار جو ہماری روایت کا حصہ ہیں، ان کی بھی جھلک نظر آئے گی۔ تو یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔
سوال: والدین، اساتذہ غرض پورے معاشرے کو یہ شکوہ ہے کہ بچے تو بچے بڑے بھی مطالعے سے دور ہوگئے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور اس کا سدباب کیسے ممکن ہے؟
غلام رسول زاہد: بچوں کے مطالعے سے دور ہونے کی اصل ذمے داری بڑوں پر ہے۔ بڑوں کو اس میں دلچسپی لینی چاہیے۔ بچو ں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ اس کے کئی طریقے ہیں۔ بڑوں کا ہم ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد ماں، باپ ہوتے ہیں یا اساتذہ کہ وہ ان کو راغب کریں۔ اچھی اچھی کتابیں لاکر دیں۔ دوسرا سوال اسی میں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ پڑھی جانے والی کہانی یا تحریر اتنی زوردار ہو کہ بچہ اس کے سحر میں گرفتار ہوجائے۔ یہاں سے ہمارا یعنی لکھنے والوں کا عمل دخل شروع ہوجاتا ہے کہ لکھنے والا کس طرح کی کتاب لکھ رہا ہے؟ اس کے اندر زور ہے یا نہیں؟ یا کیا وہ ایسی کتاب ہے جو بحیثیت ماں باپ یا بحیثیت اساتذہ آپ اپنے بچوں کے لیے تجویز کریں گے۔ جس طرح میں نے اشتیاق صاحب سے کہا کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ آپ کی کتابیں مشہور ہوئیں۔ والدین اپنےبچے کو اشتیاق احمد کی کتاب دیتے ہوئے اس خدشے کا شکار نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی فضول بات ہوگی یا پھر اخلاق سے گرا ہوا کوئی مواد ہوگا۔ اسی طرح دین یا وطن کے خلاف بھی کوئی اشارہ نہیں ملے گا، لہٰذا بچوں کے لیے آپ کی کتابیں تجویز کرنا ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔
ایسی کتابیں لکھنے والے مصنّفین ہمیں چاہئیں۔ ایسی تحریریں بھی چاہئیں۔ اس میں شوقیہ لکھنے والے نہیں چل سکتے اور جو ایسی کتابیں لکھے گا وہ خود بخود بچوں میں مقبول ہوجائے گا۔
آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ بڑوں کو کون سکھائے گا کہ آپ کو پڑھنا ہے؟ اور یہ وہ بڑے ہیں جو اپنے بچپن میں پڑھ چکے ہیں اور اب انھوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ بڑوں کے نہ پڑھنے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ گھر میں جب بچہ اپنے باپ کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ خودبخود سگریٹ سلگا لیتا ہے۔ ہم نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ والد صاحب ”بانگ درا“ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ”بال جبریل“ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ”کیمیائے سعادت“، ”مقدمہ ابن خلدون“ پڑھ رہے ہیں تو انھیں دیکھ کر ہمیں تو ویسے ہی بغیر اُن کے کچھ کہے شوق پیدا ہوجاتا تھا۔ ہم کو تو کھیلنا ہی کتابوں کے ساتھ تھا۔ لہٰذا گھروں میں جو کلچر بنے گا وہ بڑوں کے مطالعے سے بنے گا، اس لیے بڑوں کو چاہیے کہ وہ اپنی پڑھنے والی عادتیں دوبارہ استوار کریں۔ سوشل میڈیا سے نکلیں اور کتابیں پڑھیں، اپنے لیول کی کوئی بھی کتاب پڑھیں۔ آپ کو جو سیکھنا تھا سیکھ لیا، لیکن اب آپ چاہتے ہیں کہ اچھی چیزیں آپ کے بچوں کے اندر بھی منتقل ہوں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مطالعے کو بھی جاری رکھیں اور بچوں کو بھی مطالعے کی طرف راغب کریں۔
میں پولیس سروس میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ جرائم کی شرح مسلسل اوپر سے اوپر جارہی ہے۔ اس طرح کے جرائم وقوع پذیر ہورہے ہیں جن کا پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا اور اس عمر کے لوگ جرائم کررہے ہیں جن کا چند برس قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ سوشل میڈیا اور موبائل کی وجہ سے ایسے بھیانک جرائم شروع ہوگئے ہیں جن کو سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہیں کہ منظرعام پر نہیں آتیں۔ ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے کتاب۔ جب آپ کتاب پڑھنا شروع کریں گے تو یہ سارے مسائل حل کی طرف جاتے ہوئے نظر آئیں گے۔
دیکھیں میں آپ کو چھوٹی سی مثال دوں۔ آپ کسی موضوع پر کوئی معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ معلومات آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں موبائل کے ذریعے یا کلپ کے ذریعے… وہ معلومات جھلکیوں کی صورت میں ہوگی۔ دو، تین منٹ میں آپ نے بات سن لی، ویڈیو چلا کر دیکھ لی۔ اس کے مقابلے میں دیکھیں کہ آپ کتاب پڑھ رہے ہیں۔ اس کے شروع میں مقدمہ ہے، اس کا دیباچہ ہے، اس کے ابواب ہیں، جن میں اس کے تمام موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے، پھر آخر میں جب آپ اس کتاب کو ختم کرتے ہیں تو اس موضوع پر پوری طرح آپ کی گرفت ہوچکی ہوتی ہے۔ اس کے پس منظر سے، اس کے پیش منظر سے، اس کے سیاق وسباق سمیت ہر چیز سے آپ واقف ہوچکے ہوتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ویڈیو کی صورت میں جھلکیوں سے آپ دین سیکھتے ہیں، جھلکیوں سے آپ تاریخ سیکھتے ہیں، اور جب آپ جھلکیوں سے اپنی تہذیب سیکھیں گے، معلومات حاصل کریں گے تو سب کچھ ادھورا ہی معلوم ہوپائے گا، زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ معلومات بھی غلط ہوں گی۔ نامکمل علم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لیے جب بڑے کتاب پڑھیں گے، بچے کتاب پڑھیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ معاشرے میں سدھار اور ٹھیراؤ آئے گا۔ پہلے پیسوں کے لیے کوئی کسی کا گلا نہیں کاٹتا تھا ۔ لوگ ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے۔ میں بحیثیت پولیس آفیسر بڑے اعتماد سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کتاب ہمارے مسائل کا حل ہے۔
سوال: پولیس کے حوالے سے لوگوں کا مجموعی تاثر ٹھیک نہیں ہے۔ خصوصاً صاحب ِمطالعہ پولیس والا شاذ ونادر ہی نظر آتا ہے۔ کیا پولیس ڈپارٹمنٹ اپنے لوگوں میں مطالعے کا رجحان بڑھانے کے حوالے سے اقدامات کرتا ہے؟ اور آپ کا کیا خیال ہے ہمارے ہاں تھانوں میں مختصر لائبریریاں ہونی چاہئیں؟
غلام رسول زاہد: انگریزوں نے جب یہ نظام لاگو کیا تو ظاہر ہے اُس وقت اتنی کتابیں میسر نہیں تھیں۔ اُس وقت بھی قاعدہ بنایا گیا تھا کہ ہر پولیس آفس کے اندر ایک لائبریری ہوگی، اس کا تصور بالکل موجود ہے۔ اور جب ہم خود بھی پولیس کے دفاتر کی انسپکشن کرنے جاتے ہیں، تو اس چیز کو لازمی بناتے ہیں کہ وہاں لائبریری ہو۔مگر وہ لائبریری کیا ہوتی ہے بھلا؟ وہاں لیگل ڈپارٹمنٹ کے لوگوں کی کتابیں رکھی ہوتی ہیں، اسی طرح جو لازمی کتابیں ہیں جیسے ہماری تعزیراتِ پاکستان، پولیس رولز، قانونِ شہادت، وہ رکھی ہوئی مل جائیں گی۔ انسان کی ادبی ضرورت کو پورا کرتی ہوئی کتب آپ کو نہیں ملیں گی۔ لیکن بہت سی روشن مثالیں بھی ہیں۔سہالہ کالج کی لائبریری بہت وسیع ہے۔اسپیشل برانچ کی لائبریری بہت بڑے ذخیرۂ کتب کی حامل ہے۔
میں نے اپنی ذاتی حیثیت میں کوشش کی ہے کہ میں جہاں بھی جاؤں، وہاں لائبریری قائم کروں۔ ابھی جہاں میری آخری پوسٹنگ تھی وہاں بھی میں لائبریری قائم کرکے آیا ہوں۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ پولیس اسٹیشنز میں بھی لائبریری موجود ہو۔
اب میں آپ کے دوسرے سوال کی طرف آتا ہوں۔ پولیس والوں کا جو رویہ ہے وہ ایک لمبی داستان ہے۔ یہ کہانی 1861ء سے شروع ہوئی ہے اور آج تک جاری ہے کہ پولیس ایسی کیوں ہے؟ پولیس کا رویہ ایسا کیوں ہے؟ ایک وقت تھا کہ پولیس کے پاس اتنا وقت ہوتا تھا کہ پولیس آفیسر دو، دو، تین، تین دن کے لیے دوسرے پولیس اسٹیشن وزٹ کے لیے جاتے تھے۔ انسپکشن کے لیے وہاں ٹھیرتے تھے۔ وہاں وہ ساری کارروائی دیکھا کرتے تھے۔ اب تو وقت ہی نہیں ہے۔ اسپورٹس کے لیے وقت نہیں ہے۔ پولیس کی لازمی پریڈ ہوتی ہے، اس کا وقت نہیں ہے۔ کتاب پڑھنا تو بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے۔ وقت کی کمی کا یہ اثر پولیس والوں پر اور خاص طور پر بڑے شہروں کی پولیس پر پڑا ہے۔ اُن کے پاس ان چیزوں کے لیے خاص طور پر دفاتر کے اندر تو بالکل وقت نہیں ہے کہ ان کو کسی جگہ بٹھاکر اسٹڈی سرکل قائم کیا جائے۔ اس کے لیے پھر ہمارے پاس جو راستہ بچتا ہے، وہ ہے ہمارے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا۔ جب میں خود پنجاب پولیس کالج سہالہ میں تھا تو میں نے وہاں کی لائبریری سے استفادہ کیا تھا۔ وہ کالج 1959ء میں قائم ہوا تھا۔ اس میں نادر کتابیں موجود ہیں۔ ابتدا میں طلبہ کو اس کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ مختلف کورسز ہوتے ہیں۔ ان کورسز کی وجہ سے طلبہ کو وہاں لائبریری میں لے کر جاتے ہیں۔ کتابوں پر تبصرے کرواتے ہیں، جس کے ذریعے پولیس کے نوجوانوں کو مطالعے کی طرف راغب کرتے ہیں۔ پولیس والوں کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اب دیکھیں پولیس افسر کو ہر طرح کے حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ واردات تو پیٹرول پمپ پر بھی ہوگی، بینک میں بھی ہوگی، اسکول میں بھی ہوگی، شاہراہ پر بھی ہوگی اور فیکٹری کے اندر بھی… تقریباً ہر جگہ واردات کا امکان ہے۔ آپ وہاں تفتیش کے لیے جائیں اور آپ کو اس کی معلومات ہی نہ ہو تو یقیناً آپ کی تفتیش ناقص ہوگی۔ اس لیے پولیس آفیسر کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ باقی یہ کہ پولیس کا رویہ ایسا کیوں ہے؟ اس کے لیے الگ نشست کرنے کی ضرورت ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس وقت صورتِ حال بالکل تسلی بخش نہیں ہے۔ میں آپ کی بات کی تائید کرتا ہوں لیکن اس کا ایک پورا تاریخی پس منظر ہے۔ جس طرح میں نے کہا کہ یہ ڈیڑھ سو سال کا backlogہے۔ ڈیڑھ سو سال کیا…..اس سے بھی زیادہ بن جاتے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال تو ہمارے 2016ء میں پورے ہوگئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہانی انگریزوں کے نو آبادیاتی دور سے شروع ہوتی ہے۔ ختم شد