مولانا نعیم صدیقی پاکستان کے اُن مشاہیر میں سے تھے جنہوں نے اس ملک کی دینی، معاشرتی، تہذیبی اور ادبی روایات کو اپنی زندگی کے عمل اور قلم کی توانائی سے منور کیا۔ نعیم صدیقی صاحب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قریبی ساتھیوں اور جماعت اسلامی کے فکری مربیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بہت کم ادبی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں ہمہ گیریت رکھتی ہوں۔ وہ شاعر بھی ہوں، مضامین پر بھی بڑا درک ہو، افسانوں میں بھی کمال حاصل ہو، ان کی ذات دینی و مذہبی معلومات کا ذخیرہ ہو… اور ان سب کے علاوہ ہر تحریر صرف اس لیے تحریر نہ کردی ہوکہ پڑھنے والے کو وقتی تسکین حاصل ہوجائے… بلکہ ہر تحریر جہاں تسکینِ جاں کا سبب بنے، وہیں اس کے دل کے دروازوں پر دستک دیتی ہوئی محسوس ہو اور خیالات کو جگاتی چلی جائے، ذہن کو بیدار کرتی چلی جائے۔
نعیم صدیقی ایسی ہی ہمہ گیر ادبی شخصیات کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ ایسے ادبی خاندان میں بہت نمایاں اور بلند مقام رکھتے تھے۔ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں اس کا المیہ یہ ہے کہ جو شخصیات اپنے ساتھ لائو لشکر لے کر نہیں چلتیں، لوگ انہیں کنجشک فرومایہ بھی نہیں سمجھتے، خواہ وہ ادیب ہوں، شاعر ہوں، عالم ہوں، لیڈر ہوں یا کسی بھی معاشرے کے بہت اہم فرد… ان کے ساتھ خوشامدیوں کا ہجوم نہ ہو تو کوئی انہیں درخورِ اعتنا بھی نہیں سمجھتا۔
ڈاکٹر انور سدید ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’میں ادب متعین کرنے کی کوشش کروں تو یہ خواجہ میر درد، مرزا مظہر جانِ جاناں، مومن خان مومن، اکبر الٰہ آبادی، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، عبدالماجد دریا آبادی، مولانا اشرف علی تھانوی سے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تک پھیلا ہوا ہے، اس تمہید میں، میں نے مرزا غالب کا نام نہیں لیا جب کہ اگر ہم نعیم صدیقی کے کلام کا بہ غور مطالعہ کریں اور ان کی لفظی اختراعات کو سامنے رکھیں تو ہمیں ان کے کلام کے اندر غالب بہت نمایاں نظر آئے گا۔ وہ صحافت کے میدان میں اعلیٰ اقدار اور صالح روایات کے زبردست مؤید اور علَم بردار تھے۔ انہوں نے ترجمان القرآن کی ادارت کو اختیار کرلیا اور علمی کام انجام دینے لگے۔‘‘
نعیم صدیقی صاحب شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی تحریریں اردو ادب کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔انہوں نے بہت شستہ زبان میں علمی و ادبی موضوعات پر گراں قدر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ ’’شعلۂ خیال‘‘، ’’بارود اورا یمان‘‘، ’’خون آہنگ‘‘، ’’دفترِ بے معنی‘‘، ’’خون آہنگ‘‘،’’ پھر کارواں لٹا‘‘،’’ نغمۂ احساس‘‘ اور ’’نور کی ندیاں رواں‘‘ کے نام سے ان کے مجموعے شائع ہوئے۔
اس کے علاوہ ’’تحریکی شعور‘‘، ’’عورت معرض ِکش مکش میں‘‘، ’’اقبال کا شعلۂ نوا‘‘، ’’معرکۂ دین و سیاست‘‘، ’’ذہنی زلزلے‘‘، ’’معروف و منکر‘‘، ’’انوار و آثار‘‘، ’’تعلیم کا تہذیبی نظریہ‘‘، اور چند اہم موضوعات پر مختصر کتابچے ’’اپنی اصلاح آپ‘‘،’’ تعمیرِ سیرت کے لوازم‘‘ ان کے علمی و قلمی قدو قامت کا اندازہ کرواتے ہیں۔
وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے۔ ’’محسنِ انسانیتؐ‘‘ ان کی سب سے مشہور و مقبول تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے سیرت نگاری کے رائج اسلوب سے ہٹ کر پیغام رسولؐ کو نہایت شان دار انداز سے پیش کیا ہے۔
مطالعۂ سیرت کی اہمیت کے حوالے سے نعیم صدیقی صاحب لکھتے ہیں:
’’بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطالعے سے ساری دل چسپی محض حصولِ ثواب کے لیے رکھتے ہیں۔ (اس سعادت سے انکار نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کی ہر کوشش اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے اور اجر کا باعث ہے، لیکن ایسی کوشش کا اولین مدعا اپپی زندگی سنوارنا بھی تو ہو۔)‘‘
ان سارے جذبوں میں کوئی ایک جذبہ ایسا نہیں جو دھڑکنے والے دل کے لطیف جذبوں کی ترجمانی لیے ہوئے نہ ہو، لیکن آپ دیکھیے کہ کوئی ایک بات بھی ایسی نظر نہیں آئے گی جو تمام تر جدیدیت کے باوجود ذہن ونظر کی پاکیزہ مزاجی پر گراں محسوس ہوتی ہو۔
نعیم صدیقی صاحب نے صلے و ستائش کی تمنا سے بے نیاز ہوکر اپنی علمی و ادبی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور نسلِ نو کی فکری راہ نمائی اور تربیت و کردار سازی میں اپنا حصہ ڈال گئے۔ نعیم صدیقی حرکت و عمل سے بھرپور ایک طویل اور انتہائی سادہ کفایت شعار زندگی گزارتے ہوئے اس دارِفانی سے کوچ کرگئے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔