ڈاکٹر بینجمن شیلڈ کے ساتھ گفتگو پر مبنی ہسٹن اسمتھ کا یہ مضمون”Encountering God” کے عنوان سے شائع ہوا تھا اور اسے رچرڈ کارلسن اور ڈاکٹر بینجمن شیلڈ کی مدون کتاب “For the Love of God” سے لیا گیا تھا۔
مجھے اعتراف ہے۔ میں یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ دن بہ دن، لمحہ بہ لمحہ خدا سے میرے تعلق نے مجھے بہت غور و فکر کرنے والا بنادیا ہے۔ کیوں؟ کیا یہ محض گمان ہے کہ خدا سے میرا ہر ساعت رابطہ ہے؟ کیا مجھے واقعی اس کا شعور ہے؟ یا محض خوش گمانی ہے؟ اور یہ بات اس طرح لوگوں کے بیچ بیان کرنا مناسب ہے؟ ان ہی شبہات کے درپردہ یہ سوال موجود رہا ہے کہ آیا مجھے خدا سے اپنے تعلق کی کچھ سمجھ بھی ہے؟ احساس میں اسرار زیادہ ہے، مگر یہ میرے شعور اور فکر پر روشن ہے۔
اس بارے میں ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جب ایک بار نیشنل براڈ کاسٹنگ کمپنی کے لیے میں نے ڈائسز سوزوکی (جاپانی فلسفی) سے پوچھا کہ اُن میں مذہب کا احساس کب پیدا ہوا؟
’’یہ پیدا نہیں ہوا، بیدار ہوا ہے‘‘، جواب آیا۔ اور میں یہی جاننا چاہتا تھا۔
’’میں واقعی نہیں جانتا یہ کیسے ہوا، مگر شاید اس کا آغاز اُس وقت ہوا جب میں سولہ سترہ سال کا تھا۔ میں مذہبی احساسات کی کچھ تشفی چاہتا تھا۔‘‘
اگر یہ سوال مجھ سے کیا جاتا، تو میں نے بھی کچھ ایسا ہی جواب دیا ہوتا: یہ جاننے کی شدید جستجو، جس کا مجھے بھرپور شعور تھا، کہ میں ہمیشہ سے مذہبی تھا۔ میرا خیال ہے کہ مذہبی تحرک آدمی کی سرشت میں شامل ہے۔ آفاق میں گُم ہونا، کائنات کے سربستہ رازوں کا کھوج لگانا، عالمِ وجود پر غور و فکر، یہ سب فطری ہے۔ میرے معاملے میں ابتدا ہی سے حالات کی سازگاری بہت معاون رہی۔ خدا سے میرا تعلق نوجوانی ہی سے پروٹسٹنٹ سانچے میں تشکیل پارہا تھا، نیک اطوار زندگی جس میں خدا براہِ راست موجود رہا، یہ یسوع مسیح (علیہ السلام) سے محبت اور اطاعت کا رشتہ تھا۔ میرا یہ طرزِ زندگی جاری رہا، مذہب اور خدا کے لیے عقیدت مستحکم ہوئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یوگا کا یہ ہندو فلسفہ کہ لوگوں کی روحانی جہتیں مختلف ہوتی ہیں، اور وہ خدا تک مختلف ذرائع سے پہنچتے ہیں: گیانی علم کے ذریعے، بھگتی محبت کے رستے، کرمی اطاعت کرکے، اور رشی مراقبہ کے رستے معرفت پاتے ہیں۔ اس فلسفے نے مجھے یہ دکھایا کہ دیگر رستے بھی ہیں جن سے خدا تک پہنچا جاسکتا ہے۔ میرا یسوع مسیح سے ذاتی رشتہ جو حقیقی ہے، بہت گہرا نہیں، جب کہ خدا کے بارے میں خیالات رات بھر مبہوت و مسحور کرسکتے ہیں۔ ایسا علم اگر کسی ایسے فرد کی سمجھ میں نہ آئے جسے اس کا تجربہ نہ ہوا ہو، تو سمجھ میں آتا ہے۔ اس کا تعلق معلومات کی مقدار یا منطق کی درستی سے نہیں ہے، بلکہ تفکرات ہیں جو کسی دانا کو تین جہتوں میں رہنما ہوتے ہیں، یہ دیگر لوگوں کے لیے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر افلاطون کا یہ خیال کہ ’خیر‘، ’سچ‘، اور ’جمال‘ دانا شخص کے لیے ہیں۔ یہ عام لوگوں کے لیے محض خیالی باتیں ہیں۔ جب کہ یہ صریح طور پرحقیقی ہیں۔ یہ حقیقت تحریک پیدا کرتی ہے، رقصاں رہتی ہے، نغمہ سرائی کرتی ہے۔ یہ ایسا کلیہ ہے جو دیگر کلیات سے خود کو ممیز کرتا ہے کہ جو خاص سائنسی طریق پر کام کرتی ہیں۔ یونانی اصطلاح theoria تھیٹر سے ماخوذ ہے، جو علم کو فکر کی نسبت تصور (VISION) سے قریب تر کرسکے، جیسا کہ ہم عمومی طور پر اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ دراصل دیکھنا یہی ہے کہ روح دیکھ سکے۔ تصور کشش پیدا کرتا ہے۔ ارسطو نے خیر، حق، اور جمال کا مرکب ’محیط محرک‘ (Unmoved Mover) کی صورت میں پیش کیا ہے، جو کائنات کا خالقِ مطلق ہے، اور اسے قوتِ کشش کے اصول پر گردش دیتا ہے۔ مگر میرا نکتہ یہ ہے کہ داناؤں کے لیے تفکرات قانونِ کشش کا کام دیتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی جانب کھینچتے ہیں، اور چونکہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں اس لیے کھنچے چلے جاتے ہیں۔ سقراط کہتا ہے ’خیر‘ جاننا دراصل اُسے کر گزرنا ہے۔ سینٹ پال اتفاق نہیں کرتا، مگر وہ ایک مختلف مزاج کا حامل فرد ہے۔ ظاہر ہے ’جاننا‘ دو افراد کے لیے ایک جیسا تجربہ نہیں ہوتا۔ یہ سب خدا سے جُڑا ہے، گو کہ میں نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا ہے، مگر میں بات اُسی ذات کی کرتا رہا ہوں۔ خدا مجسم خیر ہے، حق ہے، جمال ہے، مقتدر ہے، باطن ہے، وہی ان سب صفات کا واحد حامل ہے۔ اپنے بہترین لمحوں میں، میں خدا کی جانب یوں لپکتا ہوں جیسے پروانہ شمع کی جانب لپکتا ہے، اور ان لمحوں میں مجھے نہیں معلوم کہ زمین پر یہ ’’راحت‘‘ کوئی نایاب چیز ہوتی ہے یا پھر عام سی بات… کہ جب ہرشے میں اس راحت کی جھلک نظر آئے۔ مگر میں یہاں پر بس نہیں کرسکتا۔ جب یہ راحتِ جاں لمحے آتے ہیں، یہ اجنبی محسوس نہیں ہوتے بلکہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ’جنت عدن‘ کا یہ سنہرا احساس میرا کس طرح ہوسکتا ہے! ایسے اسرار آشکار کرنا آسان ہے۔ صحراؤں کی وسعتیں روح پرور ہیں۔ یہ ویسی ہی اہم ہیں جیسے پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کا تجربہ۔ ہمیں ماہرینِ الٰہیات یہی یقین دلاتے ہیں کہ روحیں خدا کی موجودگی کے احساس کے بغیربھی خدا سے تعلق مضبوط بناسکتی ہیں۔ مقصد تک رسائی کے طریقہ معرفت پراختلاف سے کوئی حرف نہیں آتا۔ ایلڈس ہکسلے کا یہ مشاہدہ ہے کہ زندگی کا مقصد آدمی کا ’’انانیت‘‘پرقابو پانا ہے، کہ اس جانب اُٹھنے والا ہر قدم خدا کی جانب لے جاتا ہے۔ اس طرح خدا سے سامنا ہوتا ہے۔