ذہنی دباؤ :اکیسویں صدی کی سب سے بڑی جنگ

ہر دور اپنے ساتھ بہت سی مثبت اور منفی تبدیلیاں لاتا ہے۔ بعض تبدیلیاں چیلنج بن جاتی ہیں۔ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں وہ بھی چیلنجز سے بھرا پڑا ہے۔ یہ بہت منفرد عہد ہے، کیونکہ انسان نے ساڑھے تین چار ہزار سال کے عرصے میں جو کچھ بھی سوچا اور کیا ہے وہ اب اپنی اجتماعیت یا جامعیت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ سب سے بڑی ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان گزشتہ تمام ادوار کے انسانوں سے زیادہ الجھا ہوا ہے۔ اُس کے لیے ڈھنگ سے جینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر شعبے میں منطقی نوعیت کی ترقی ہوچکی ہے۔ اب کچھ بھی ایجاد نہیں ہورہا بلکہ صرف ندرت اور جدت کا بازار گرم ہے۔ ہم وہاں ہیں جہاں ہمارا اپنے وجود پر بھی اختیار باقی نہیں رہا۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک بھی بہت مشکل سے ہو پارہا ہے۔ اور اِس حقیقت کو ماننے والے، اِس کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرنے والے تو خال خال ہیں۔

جو کچھ آج کی زندگی ہمیں دے رہی ہے اُس کے نتیجے میں آسانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مشکلات بھی پیدا ہورہی ہیں۔ اِن مشکلات سے لڑتے لڑتے ہی زندگی گزرنی ہے۔ کسی بھی چیز کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اُس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنا پڑتا ہے تاکہ کچھ سوچنے اور کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔ ہر حقیقت ہم سے یہی چاہتی ہے کہ ہم تبدیل ہوں، مطابقت پیدا کریں، ہم آہنگی کی منزل تک پہنچیں۔

فی زمانہ سب سے بڑی حقیقتوں میں ذہنی دباؤ نمایاں ترین ہے۔ ذہنی دباؤ ہماری تقدیر کا لکھا ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ ہمارے ساتھ رہے گا۔ کسی بھی انسان کے لیے ماحول میں اب اِتنی الجھنیں پائی جاتی ہیں کہ وہ لاکھ کوشش کرلے، ذہنی دباؤ سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسی کوئی کوشش کرنی بھی نہیں چاہیے۔ ذہنی دباؤ اٹل حقیقت ہے۔ اِس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ ہاں، اِس کے ساتھ جینے کی کوشش ہمیں معیاری انداز سے جینے کی طرف لے جاسکتی ہے۔

ذہنی دباؤ کب پیدا ہوتا ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ جب بھی انسان کو اپنے مزاج کے خلاف کسی چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات اِتنی سادہ نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آجائے۔ اگر کسی کاہل کو کام کرنا پڑ جائے تو اُسے بھی ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اُس سے پوچھیے کہ ذہنی دباؤ کیا چیز ہے تو وہ اِسے زندگی کا سب سے بڑا عذاب اور امتحان قرار دے گا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ منطقی دباؤ ہے اور اِس کے خلاف جانے کے بجائے اِسے سمجھنا چاہیے۔ اگر کوئی فضول خرچ ہے اور اپنی آمدنی سے بڑھ کر خرچ کرتا ہے تو اُس کے ذہن پر بھی اچھا خاصا دباؤ بنا ہی رہے گا، تو اِس دباؤ کی بنیاد پر اُس شخص کو مظلوم سمجھ کر اُس پر ترس کھانا چاہیے؟ ظاہر ہے ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ حالات و واقعات ہم پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عمل کبھی رُکتا نہیں۔ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے وہ ہم پر کسی نہ کسی شکل میں اثرانداز ہوتا ہی ہے۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دنیا کو ختم کردیں، یا اپنے ماحول کو خیرباد کہہ کر کسی پہاڑ پر جا بسیں۔ اِسی ماحول میں رہنا ہے اور اپنے آپ کو تبدیلیوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ ذہنی دباؤ نسبتی نوعیت کا معاملہ ہے یعنی ایک ہی معاملہ کسی پر کم ذہنی دباؤ مرتب کرتا ہے اور کسی پر زیادہ۔ ملازمت اچانک ختم ہونے پر بعض لوگ انتہائی بدحواس ہو اُٹھتے ہیں اور اُنہیں دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ اُن کی ذہنی حالت درست نہیں۔ حد یہ ہے کہ کسی کے پاس سال بھر گھر چلانے جتنے مالی وسائل ہوں تب بھی نوکری کا ختم ہونا اُس سے برداشت نہیں ہوپاتا۔ دوسری طرف آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو نوکری ختم کردیے جانے کی صورت میں تھوڑے سے پریشان ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن کو متوازن رکھتے ہیں اور کوئی معقول ذریعۂ معاش تلاش کرنے کے لیے سکون سے کوشش شروع کرتے ہیں۔

ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کو گھٹانا ناگزیر ہے؟ ایسا ہی ہے۔ اگر یہ دباؤ بڑھتا رہے تو انسان کو کسی کام کا رہنے نہیں دیتا۔ مگر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے تھوڑا سا ذہنی دباؤ کوئی بُری چیز نہیں۔ بہرکیف، ذہنی دباؤ مختلف حوالوں سے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی جنگ ہے، اور یہ جنگ ہر انسان کو اِس طور جیتنی ہے کہ زندگی میں لُطف باقی رہے۔

اگر آپ نے واقعی طے کرلیا ہے کہ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ گھٹانا ہے تو ایسا کئی طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین معاشی اور معاشرتی معاملات کے حوالے سے ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ گھٹانے کے طریقوں پر تحقیق کرتے آئے ہیں۔ کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ ذہنی دباؤ صرف پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے حصے میں آیا ہے، یا یہ کہ یہ صرف معاشی خرابی سے پیدا ہوتا ہے۔ ذہنی دباؤ انتہائی مال دار طبقے کے لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ سب کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور اُن مسائل کو حل کرنے کے طریقے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کے عوام و خواص بھی شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سوچنا بے بنیاد ہے کہ غیر معمولی مالی حیثیت انسان کو تمام دُکھوں سے نجات دیتی ہے۔ ہم اپنے ہاں انتہائی مال دار افراد کے معاملات کا ذرا باریک بینی سے جائزہ لیں تو اِس بات کو خوب سمجھ سکتے ہیں۔

آئیے دیکھیں کہ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ کن کن طریقوں سے گھٹایا جاسکتا ہے:

٭ بے جا معاملات میں الجھنے سے بچنا جتنا ضروری ہے، اُتنا ہی ضروری ہے ضروری معاملات میں مصروف رہنا۔ جن کاموں سے آپ کی زندگی کا معیار بلند ہوسکتا ہے، آپ کی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے اور آپ زیادہ بامقصد انداز سے جینے کے قابل ہوسکتے ہیں اُن کے حوالے سے ہاں کہنا سیکھیے۔ جس کام کے کرنے میں آپ کا جی نہ لگے وہ آپ کو کرنا ہی نہیں چاہیے۔ کسی بھی شعبے میں کامیاب ترین افراد کے معاملات کا جائزہ لینے پر آپ اِسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ انہوں نے اپنے کام سے عشق کیا، اُس کا حق ادا کیا اور سُرخ رُو ہوئے۔

٭ اگر کوئی خلوصِ دل سے مدد کرنے کے لیے تیار ہو تو اُس کی طرف سے پیش کی جانے والی مدد بہ خوشی قبول کیجیے۔ زندگی اِسی طور گزرتی ہے۔ ہم کسی کی مدد کرتے ہیں اور کسی سے مدد لیتے ہیں۔ اگر کسی سے مدد مل رہی ہو اور اُس مدد کے ذریعے ہمارے لیے کچھ آسانی پیدا ہورہی ہو تو مدد لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ آپ کسی کی مدد کرکے خوش ہوتے ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر دوسرے بھی تو اِس مزاج کے ہوں گے۔ وہ بھی تو کسی کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہوں گے۔ اپنے آپ کو کبھی ناگزیر مت سمجھیے۔ آپ سارے کام تنہا نہیں کرسکتے۔ یہ دنیا اشتراکِ عمل کے ذریعے چلتی آئی ہے اور اِسی طور چلتی رہے گی۔ اشتراکِ عمل ہی کے ذریعے نتائج بہتر بنائے جاسکتے ہیں۔ کسی بھی ٹیم کی کارکردگی اُسی وقت معیاری ٹھیرتی ہے جب سارے ارکان اپنا اپنا کردار بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ ادا کررہے ہوتے ہیں۔

اشتراکِ عمل کا مطلب ہے جہاں الجھن محسوس ہو وہاں کسی سے مدد طلب کرنا، تاکہ کام اٹک کر نہ رہ جائے۔ اگر مجموعی طور پر ماحول ایسا ہو کہ کسی سے مدد مل سکتی ہو تو ضرورت محسوس ہونے پر مدد طلب کرنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ پریشانی محسوس ہونے پر کسی سے مدد طلب نہ کرنا ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ میں اضافہ کرتا ہے۔

٭ انکار کرنا ہنر ہے، اِس ہنر میں مہارت حاصل کیجیے۔ کسی بھی معاملے میں فوری رضامندی ظاہر کرنے سے پہلے کچھ وقت لیجیے، سوچیے اور اپنے معاملات کا اچھی طرح جائزہ لے کر وہ کیجیے جو آپ کو منطقی طور پر کرنا چاہیے۔ جو لوگ ہر معاملے میں گردن ہاں میں ہلاتے ہیں وہ بالآخر بند گلی میں پھنس جاتے ہیں۔ جہاں آپ کی زیادہ ضرورت نہ ہو یا جس معاملے کو آپ اپنے لیے ضروری نہ سمجھتے ہوں اُس کے حوالے سے انکار ہی مناسب رہتا ہے۔ بے جا توقعات بھی آپ کو الجھاتی ہیں اور خوش فہمیاں بھی آپ کے لیے دردِ سر ثابت ہوتی ہیں۔ اِن دونوں کے درمیان معقول توازن لازم ہے۔ یہ توازن راتوں رات یا بغیر محنت کے پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے اور ایثار سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔

٭ ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ سے نجات پانے کا ایک اچھا طریقہ اختیارات اور ذمہ داریوں کو ڈھنگ سے تقسیم کرنا بھی ہے۔ آج ہی طے کیجیے کہ آپ صرف اُن سرگرمیوں تک محدود رہیں گے جن کے ذریعے آپ کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے، اور باقی تمام کام دوسروں کے حوالے کریں گے۔ اپنے سر پر ذمہ داریوں کا پوٹلا لادنے سے چلنا دشوار تر ہوتا جاتا ہے۔ اختیارات اور ذمہ داریوں کی مؤثر تقسیم کام کے ماحول کو خوش گوار بناتی ہے اور بہتر نتائج زیادہ آسانی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ذمہ داری کا سونپا جانا کسی بھی انسان میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی آپ کو کسی بھی حوالے سے کوئی ذمہ داری سونپتا ہے تو دراصل یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ اُسے آپ پر بھروسا ہے۔ ایسی حالت میں آپ اپنے حصے کا کام زیادہ خلوص، جوش و جذبے اور جاں فشانی سے کرتے ہیں تاکہ مطلوب نتائج یقینی بناکر سُرخ رُو ہوں۔

٭ ہر انسان کا ذہن بہت سے معاملات میں کچھ زیادہ سوچ رہا ہوتا ہے۔ ذہن کا کام صرف سوچنا ہے۔ وہ کسی بھی سمت جاسکتا ہے، کچھ بھی سوچ سکتا ہے اور سوچتا ہی ہے۔ جو لوگ کام سے بے انتہا رغبت رکھتے ہیں وہ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ چند ایک کام ہی ڈھنگ سے کرسکتے ہیں۔ ہر انسان سارے کام نہیں کرسکتا۔ ذہن کو چند ایک کاموں پر یکسو رکھنے کی صورت میں کام کا ماحول خوش گوار رہتا ہے اور انسان زیادہ لگن کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوپاتا ہے۔ اگر ذہن ہر وقت یہ سوچ رہا ہو کہ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے تو پھر بہت سی توقعات بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کیفیت انتہائی پریشان کن ثابت ہوسکتی ہے۔ بہت سوں کو کام کے بے جا بوجھ ہی نے اَدھ مُوا کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رکھیے گا کہ کام کا ماحول کیسا ہی خوش گوار ہو، آپ کام کرتے کرتے تھکیں گے بھی اور آرام بھی کریں گے۔ اگر آپ ایسی طرزِ فکر و عمل اختیار کریں کہ لوگ آپ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیں تو پھر آپ کے ذہن پر کام کا دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔ لوگوں کی توقعات آپ کو چین سے جینے تو کیا دیں گی، ڈھنگ سے سانس بھی نہیں لینے دیں گی۔ غیر معمولی توقعات آپ کو اُس وقت بھی کام کرنے پر مجبور کرتی ہیں جب آپ چاہتے ہیں کہ کچھ آرام کرلیا جائے۔ شعوری کوشش کیجیے کہ ایسی حالت پیدا ہی نہ ہو جس میں لوگ آپ سے بے جا توقعات وابستہ کریں۔

٭ کسی بھی انسان کے لیے سارے کام اہم نہیں ہوتے۔ کچھ کام بہت اہم ہوتے ہیں جو کرنا ہی پڑتے ہیں، اور کچھ کام ٹالے جاسکتے ہیں، مؤخر کیے جاسکتے ہیں۔ یہ ترجیحات کے تعین کا معاملہ ہے۔ ہر کام ہماری اولین ترجیح نہیں ہوسکتا۔ ترجیحات کا تعین نہ کیا جائے یا معقول طریقے سے نہ کیا جائے تو غیر اہم کام ہماری کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ یہ ہمارے وقت، توانائی اور وسائل کو ڈکارتے جاتے ہیں۔ ذہنی دباؤ سے بچنے کا ایک معقول طریقہ یہ ہے کہ انسان ترجیحات کا تعین سوچ سمجھ کر کرے، غیر اہم کاموں کو ٹالتا رہے اور صرف اہم کاموں پر توجہ مرکوز رکھے۔ ترجیحات متعین کرکے کام کرنے والے ذہنی دباؤ سے بالعموم دور رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی بڑا کام کرنا ہو تو پہلے سکون سے منصوبہ سازی کیجیے کہ کن کاموں کو آپ مؤخر کرسکتے ہیں۔ صرف اُن کاموں کو اہمیت دیجیے جو آپ کے لیے ناگزیر حیثیت کے حامل ہیں یا جن کے نہ کیے جانے سے کوئی بڑا حرج واقع ہوسکتا ہو۔ آپ کو اُن کاموں تک محدود رہنا ہے جو مطلوب نتائج یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہوں۔

٭ آپ کو دیکھتے رہنا ہے کہ ذہن پر دباؤ کس حد تک مرتب ہورہا ہے اور اس دباؤ کو بڑھانے والے عوامل اور حقائق کون سے ہیں۔ اگر آپ ذہنی دباؤ کو مانیٹر کرنے کے معاملے میں غفلت کے مرتکب ہوں گے تو ذہن الجھتا ہی چلا جائے گا۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ بہت سے معاملات کسی جواز کے بغیر آپ کی زندگی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں؟ ایسے معاملات سے جان چھڑانے ہی میں آپ کے لیے خیر کا سامان ہے۔ ہر معاملہ اس قابل نہیں ہوتا کہ آپ اُس پر متوجہ ہوں۔ اگر آپ اپنے ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کو کماحقہٗ محسوس نہ کریں تو اُس میں چپکے چپکے اضافہ ہوتا رہتا ہے اور پھر وہ دن بھی آ ہی جاتا ہے جب آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب تو کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہا۔ کبھی کبھی دباؤ کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی تحریک بھی دیتا ہے، کیونکہ دباؤ سے مہمیز پاکر انسان بہت کچھ کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر ذہنی دباؤ خطرناک ہی ہوتا ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں ذہن محض الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ کی مانیٹرنگ کرتے رہیے اور جب یہ منطقی حد سے بڑھنے لگے، زیادہ الجھن پیدا کرنے لگے تو اِس کا گراف نیچے لانے کے بارے میں پوری سنجیدگی سے سوچیے، منصوبہ سازی کیجیے۔

٭ متحرک رہنے کی کوشش کیجیے: اگر آپ بہت دیر تک بیٹھے رہنے کے عادی ہیں تو تھکن آپ پر تیزی سے طاری ہوگی۔ ہلتے جلتے رہیے۔ ورزش کیجیے، چہل قدمی کیجیے۔ اپنے معمولات میں جسمانی سرگرمیوں کو لازمی طور پر شامل کیجیے۔ اِس کے نتیجے میں آپ میں توانائی کا گراف نہیں گرے گا۔ اپنے ماحول کا جائزہ لیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ متحرک رہنے والے خوش رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ذہنی دباؤ زیادہ الجھنیں پیدا نہیں کرتا۔ بیٹھے رہنا بھی یکسانیت ہی کی ایک شکل ہے۔

٭ کام کی زیادتی ہو یا ذمہ داریوں کا بوجھ، دونوں ہی صورتوں میں انسان پریشان ہو اُٹھتا ہے۔ بہت سے معاملات انسان کو لاچاری محسوس کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ جب ذہن زیادہ الجھن محسوس کرنے لگے تب انسان چاہتا ہے کہ الگ تھلگ ہوکر بیٹھ رہے اور کسی سے نہ ملے۔ یہ طریقہ غلط ہے۔ اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کے بجائے کسی دوست سے بات کیجیے، اپنی پریشانی بیان کیجیے۔ مشاورت ذہن کو متوازن رکھنے کی ایک معقول شکل ہے۔ ایسا کرنے سے آپ معاملات کو سلجھانے میں کامیاب ہوں گے اور ذہن سکون محسوس کرے گا۔ دوست صرف اِس لیے ہوتے ہیں کہ اُن سے مشاورت کے ذریعے کوئی راہ نکالی جائے۔ کسی بھی مشکل گھڑی میں یا الجھن محسوس کرنے پر دوستوں سے مشاورت میں جھجھک محسوس مت کیجیے۔ بات کیجیے، اپنا مسئلہ بیان کیجیے اور رائے لیجیے۔ اگر کسی دوست کے کسی مشورے سے معاملات بہتر ہوسکتے ہیں تو اُس کی طرف سے پیش کی جانے والی مدد قبول نہ کرنے کو حماقت کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔

٭ بدحواسی بڑھنے مت دیجیے: ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کو گھٹانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مشاغل کے ذریعے ہم ذہن کو متوازن رکھنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ مطالعے کے علاوہ فنونِ لطیفہ میں دلچسپی لینا بھی ہمارے مزاج کو درست رکھنے اور ذہن کی الجھنیں دور کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ حواس پر دباؤ بڑھتا رہتا ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس دباؤ کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ بدحواسی کو بڑھنے مت دیجیے اور جو تھوڑی بہت بدحواسی پائی جاتی ہے اُسے دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ اِس کا ایک معقول، کارگر اور سستا طریقہ ہے اپنے خیالات کو باقاعدگی سے قلم بند کرتے رہنا۔ جو لوگ ڈائری لکھنے کے عادی ہوتے ہیں اُن میں آپ بدحواسی کا گراف بہت گرا ہوا پائیں گے کیونکہ یومیہ سرگرمیوں کو لکھتے رہنے سے اُن کا اچھا خاصا کتھارسس ہوتا رہتا ہے۔

٭ وقفہ بہت ضروری ہے: روزانہ کچھ دیر کے لیے اپنی معاشی سرگرمیوں سے بریک لیجیے اور کسی پُرلطف سرگرمی میں حصہ لیجیے۔ مشاغل صرف اِس لیے ہوتے ہیں کہ آپ کے ذہن کو متوازن رکھیں۔ اگر آپ کے ذہنی دباؤ میں کمی واقع نہ ہورہی ہو تو پھر مشاغل اپنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو کچھ آپ باقاعدگی سے کررہے ہیں وہ آپ میں یکسانیت پیدا کرتا رہتا ہے۔ اپنے دل و دماغ کی بیٹری کو ری چارج ہونے کا موقع دیجیے، وقفہ لیجیے، آرام کیجیے، سوچیے، کچھ نیا کرنے کی منصوبہ سازی کیجیے، مگر اِس سے بہت پہلے کچھ ایسا کیجیے جو آپ کے ذہن کی گرہیں کھول دے۔ جو کچھ آپ کو پسند ہے وہ کیجیے۔ سیر سپاٹوں کا شوق ہے تو یہ کر گزریے۔ لوگوں سے ملنا پسند ہے تو خوب ملیے۔ بزم آرائی انسان کو راحت و سکون فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ سوچ کر کام کرتے رہتے ہیں اور تھکتے رہتے ہیں کہ چار پانچ ماہ بعد ایک بڑا بریک لیں گے، کہیں جائیں گے اور کچھ دن سکون سے گزاریں گے۔ ایسا ہوتا نہیں۔ چھوٹے چھوٹے وقفوں کا اہتمام کیجیے۔ معمولات کے پنجرے سے نکلیے، کچھ دیر کے لیے اپنی تمام معاشی سرگرمیوں سے دور رہنے کی عادت ڈالیے۔

٭ زندگی کو ہفتہ وارانہ انداز سے بسر کرنے کی عادت ڈالیے: ہر ہفتے کی ابتدا میں یا اتوار کی شام کو اگلے سات دنوں کے لیے ایکشن پلان تیار کیجیے۔ ایسے اہداف و مقاصد متعین کیجیے جنہیں ایک ہفتے کے اندر ممکن بنایا جاسکتا ہو۔ اگر کسی کو کوئی کام سونپنا ہے تو سونپ دیجیے، اور کسی کے کام آنا ہے تو کام آئیے۔ وقت کی بہتر تنظیم و تطبیق کا ہنر سیکھیے۔ اشتراکِ عمل کی گنجائش پیدا کیجیے۔ جن سے مدد لی جاسکتی ہو اُن سے مدد لیجیے تاکہ کام ڈھنگ سے کرنے کی راہ ہموار ہو۔

٭ کام میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کیجیے: لازم نہیں کہ جو کام آپ کو بہت پسند ہو وہی کرتے رہیے۔ تھوڑا سا مختلف کام بھی کیا جاسکتا ہے۔ اپنے آپ کو تھوڑا سا آزمانے میں کچھ حرج نہیں۔ ایسی حالت میں ذہن سکون پاتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی تبدیلی ذہن کو غیر معمولی سکون عطا کرتی ہے۔ ہم معمولات کے دائرے میں گھومتے رہنے سے فکر و عمل میں یکسانیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی گھر کے لیے سودا سلف لانا بھی آپ کے ذہن کو سکون بخش سکتا ہے۔ کبھی کوئی ڈش تیار کیجیے اور دیکھیے کہ آپ کو ذہنی دباؤ سے کس حد تک نجات ملتی ہے۔

٭ شارٹ کٹ تلاش کیجیے: لازم نہیں کہ آپ جو کچھ بھی کریں وہ ہر اعتبار سے جامع ہو۔ اپنے کام کو آسان بنانے کے لیے شارٹ کٹ تلاش کیجیے۔ اگر کھانا پکانے میں زیادہ وقت لگتا ہے تو پکا پکایا کھانا لائیے اور وقت کے ساتھ ساتھ توانائی بھی بچائیے۔ زندگی کو زیادہ سے زیادہ سادہ اور آسان بنانے کی کوشش کیجیے۔ تھوڑی سی کوشش کرنے پر آپ کو بہت سے معاملات میں شارٹ کٹ مل جائیں گے۔ یہ نکتہ ہر وقت ذہن نشین رکھیے کہ جامعیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ ادھورا پن تو رہ ہی جاتا ہے۔

٭ ذمہ داری قبول کرنے کی عادت پروان چڑھائیے: ڈیل کارنیگی نے کہا ہے کہ کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں، ذمہ دار تو آپ ہی ہیں۔ کبھی کبھی اچانک سب کچھ بگڑنے لگتا ہے، موڈ خراب ہو جاتا ہے، توانائی کا گراف اچانک گرنے لگتا ہے اور آپ خود کو بند گلی میں پاتے ہیں۔ ایسے میں دوسروں کو موردِ الزام ٹھیرانے کے بجائے پہلے اپنی ذمہ داری کا تعین کیجیے۔ طے کجیے کہ خرابی کا کتنا حصہ ہے جو آپ کا پیدا کردہ ہے۔ دوسروں کے بارے میں منفی سوچنے کے بجائے اپنے بارے میں حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنا سیکھیے۔ لوگ الزام تراشی پسند نہیں کرتے اور اِس کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔

٭ اپنی ضرورت بیان کیا کیجیے: اس گمان میں مبتلا مت رہیے کہ لوگوں کو خود بہ خود آپ کی ضرورتوں کا اندازہ ہو جائے گا۔ اگر آپ کو کچھ چاہیے تو بیان کیجیے، بتائیے۔ جب تک کسی کو آپ کی کسی ضرورت کا علم نہیں ہوگا تب تک وہ آپ کی مدد کرنے کے قابل بھی نہ ہوسکے گا۔ اندازہ لگائیے کہ آپ کی زندگی میں کس چیز کی کمی ہے اور آپ کے لیے سب سے اہم معاملہ کیا ہے۔ جب آپ اِس مرحلے سے گزریں گے تو لوگوں کو اپنی ہر ضرورت سے بہتر طور پر آگاہ کرسکیں گے۔

٭ بیدار مغزی کی اہمیت کا ادراک ناگزیر ہے: بیدار مغز رہنے کے لیے طویل مراقبے لازم نہیں۔ آپ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے کسی گوشے میں سکون سے بیٹھ کر بھی اپنے بکھرے ہوئے ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز کرسکتے ہیں، فکری صلاحیت کو جِلا بخش سکتے ہیں۔ اپنے یومیہ معمولات کے دوران ہی تھوڑی دیر کے لیے الگ تھلگ بیٹھیے اور پھر دیکھیے کہ آپ کا بکھرا ہوا ذہن کس تیزی سے یکجا ہوتا ہے۔ اِس کا ایک معقول طریقہ عبادت بھی ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں گم رہنے کے بجائے لمحۂ موجود میں رہنا اور جینا سیکھیے۔ جو کچھ بھی ہوچکا ہے اُس کے بارے میں زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے نہ فائدہ۔

اپنے حواس پر متوجہ رہیے۔ جو کچھ اِس وقت ہو رہا ہے وہ آپ کے لیے سب سے اہم ہے۔ جو زمانہ ابھی آیا نہیں اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتے رہنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔

٭کسی بھی معاملے میں اضافی بوجھ قبول کرنے سے گریز کیجیے: ہر انسان کی ذہنی سکت کی بہرحال ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ آپ کو ہر وقت گھر کے تمام افراد، رشتے داروں یا احباب کے بارے میں سوچتے رہنے کی ضرورت نہیں۔ سب کو اپنے اپنے کام اچھی طرح یاد ہونے چاہئیں اور کرنے ہی چاہئیں۔ اگر آپ دوسروں کی ذمہ داری بھی قبول کرتے رہیں گے تو اضافی بوجھ بڑھاتے چلے جائیں گے۔ یوں آپ کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی اور ذہنی دباؤ کا گراف بھی بلند ہوگا۔

٭ آپ کو زندگی بھر اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے کہ جو کچھ آپ کو کرنا ہے اُس کی بھی ایک حد ہے۔ آپ کو پنپتے نہیں جانا بلکہ ایک خاص حد تک جاکر رُک جانا ہے، سکون کا سانس لینا ہے۔ آپ جتنا کم کام کریں گے معیار اُتنا ہی بلند ہوگا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ اپنے آپ کو پنپنے سے روکنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ آپ کم کام کریں، کم ذمہ داریاں قبول کریں اور کم اشیاء کے حامل ہوں۔ لازم نہیں کہ بازار میں جو کچھ بھی دستیاب ہے وہ آپ کے گھر میں، آپ کی زندگی میں ہو۔