مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے کہا ہے کہ ڈڈیال کو ضلع جہلم، راولاکوٹ کو راولپنڈی، جبکہ مظفر آباد کو مانسہرہ کے ساتھ دکھایا جارہا ہے، عوام آنکھیں کھلی رکھیں، آزادکشمیر کے سیاسی نظام کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس سے پہلے سردار عتیق احمد خان نے کہا تھا کہ آزادکشمیر میں غیر سیاسی نظام لانے کی کوشش ہورہی ہے۔ راجا فاروق حیدر خان بھی ٹویٹر پر ایک آدھ نعرئہ مستانہ لگا چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے صفِ اوّل کے سیاست دانوں کا دبے دبے لفظوں میں احتجاج کے اظہار کا یہ انداز بتارہا ہے کہ اس خطے میں کچھ بڑا ہونے کو ہے، اور جو کچھ ہونے کو ہے وہ مرحلہ وار ہوگا۔ کسی روز آزادکشمیر اسمبلی ہی اپنا فیصلہ سناکر ہمیشہ کے لیے تحلیل ہوجائے گی۔ یہ وہی طریقہ ہے جو مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے اختیار کیا تھا کہ بھارت کے ساتھ نئے رشتے کی بنیاد رکھ کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ساری طاقت اور اختیار بھارت نے اسی فیصلے سے کشید کیا تھا۔ مگر اکہتر سال بعد بھارت وہاں آکر پھنس گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی آرٹیکل 370کو، جو عارضی تھا، ختم کیے بغیر ہی ختم ہوگئی تھی، اور اب یہ نکتہ بھارت کے اقدامات کے لیے ایک مشکل بن کر رہ گیا ہے۔
یہ تو طے ہے کہ آزادکشمیر کا کرم خوردہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ اب اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے اور کسی بھی وقت یہ نظام کسی خستہ حال عمارت کی طرح زمیں بوس ہوجائے گا، مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سوال سب سے اہم ہے۔ آزاد کشمیر میں رواں کشمکش اور کشیدہ صورتِ حال کا ایک تناظر بہت وسیع اور بڑا ہے۔ آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں آزادکشمیر کی تحلیل کے عمل کا حصہ ہیں۔ کچھ جماعتیں حکومت بچانے کے نام پر اور کچھ اگلی حکومت بنانے کے نام پر ایک خاموش معاہدے کو قبول کرچکی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ حالات سے الگ تھلگ ہوکر دیوار سے لگ چکی ہیں۔ اب وہ ساری ذمہ داری عوام پر ڈال رہی ہیں کہ ’’جاگتے رہنا بھائیو! ہمارے بھروسے پر مت رہنا‘‘۔ عوام میں جتنی سکت اور ہمت ہے وہ جاگ رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کی تمام بڑی جماعتوں کے مراکز پاکستان میں ہیں اور پاکستان میں وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ایک اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی نگران سیٹ اپ میں کسی نہ کسی انداز میں شریک ہیں۔ آزادکشمیر کے اسٹیٹس میں تبدیلی کی یقین دہانیوں میں آزادکشمیر کی جماعتوں کی مادر تنظیموں کی یقین دہانیاں شامل ہیں اور آزادکشمیر کی جماعتوں کی مجبوری ہے کہ وہ آزادکشمیر کی جغرافیائی قطع و برید کے عمل کی مزاحمت سے قاصر ہیں۔ اسی مجبوری اور لاچاری نے ایک نئی عوامی اور مزاحمتی فورس کو میدان میں اُترنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ لہر آزاد کشمیر کے پرانے سسٹم کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی خس وخاشاک کی مانند بہاکر لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کی، اس خطے کے گریٹ گیم میں شہ رگ جیسی اہمیت ہے۔ ایک دور میں اسے چٹیل اور بے تاثر پہاڑوں کی سرزمین سمجھنے والے گریٹ گیم میں اس کی اہمیت کے قائل ہورہے ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان بالادستی کی جنگ کی دبی ہوئی چنگاری شعلہ بن چکی ہے اور کسی پراکسی جنگ کی صورت ممکنہ تصادم کی فیصلہ کن گھڑیاں زیادہ دوری پر نہیں۔ امریکہ افغانستان میں طالبان، چین، روس اور پاکستان کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد پاکستان کے راستے واپس خطے میں داخل ہورہا ہے۔ گویا کہ
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
امریکہ اتنی محنت سے خطے میں واپس آیا ہے تو اُس کی کوشش معلوم ہوتی ہے کہ اسی ہلے میں وہ چین کا دروازہ مقفل کرکے اس کے باہر اپنی چوکی بھی قائم کرلے تاکہ چین کا گلگت بلتستان کے ذریعے گوادر اور مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کا رہا سہا امکان بھی ختم ہوجائے۔ سی پیک کو روکنے کے نام پر بے تحاشا دولت خرچ کرنے کی نسبت یہ آسان طریقہ ہے۔ ایسے میں امریکہ اس خطے میں اپنی اسٹرے ٹیجک موجودگی پر اصرار کررہا ہے، اور اسٹرے ٹیجک موجودگی سے پہلے حالات اور ماحول کو موافق بنانا ضروری ہے۔ اب جو سیاسی قوتیں امریکہ کو واپس لانے کی ذمہ دار ہیں وہ آزادکشمیر اور گلگت میں مزاحمت نہیں کرسکتیں بلکہ آزادکشمیر کی موجودہ مخلوط حکومت کی طرح دیوار سے لگ کر ٹھنڈی آہیں ہی بھر سکتی ہیں۔ نتیجتاً کسی ایسی طاقت کو ہی اُٹھنا ہے جس کا بینک بیلنس یورپ اور امریکہ میں نہیں، جن کے کاروباری مراکز اور پلازے مشرق وسطیٰ سے امریکہ تک نہیں، اور وہ صرف دیہاڑی دار مزدور اور تاجر ہی ہوسکتے ہیں۔ عام شہری ہی ہوسکتے ہیں جن کے پَر یورپ اور امریکہ تک پہنچنے سے جلتے ہیں۔ یوں نجیب ابنِ نجیب ابن نجیب دیوار سے لگ کر غیر متعلق ہورہے ہیں اور غلام ابنِ غلام ابنِ غلام یعنی عام آدمی اپنی گلیوں اور سڑکوں پر سینہ تان کر نعرہ زن ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ”رزق آزاد رکھو، ذہن اور روح بھی آزاد رہیں گے“۔
اس خطے میں امریکہ کی عسکری موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی اور اسٹرے ٹیجک تعاون کی ساری کہانی فسخ ہوکر رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں اپنی موجودگی بھارت کے لیے تو نہیں رکھے گا بلکہ اس کا ہدف چین ہوگا۔ آزادکشمیر کا موجودہ نقشہ عوام کے خوابوں کی تعبیر نہیں بلکہ حالات کے جبر اور حادثے کا نتیجہ ہے۔
1947ء کے مزاحمت کاروں کے قدم جہاں رک گئے وہیں اقوام متحدہ نے سیز فائر کی لائن کھینچ دی، او ر یوں آزادکشمیر کا ایک آڑھا ترچھا وجود جنم لے بیٹھا۔یہ وجود کشمیریت کی آخری نشانی ہے۔ریاست کی آخری علامت ہے۔مہاراجا کی ریاست تو 76 برس پہلے ہی ڈوب گئی تھی مگر آزادکشمیر کی صورت میں اس کی ایک جھلک دکھائی دیتی رہی ہے۔ بھارت تو پہلے ہی مسلم اکثریتی وادی کشمیر کو پہاڑی گوجر، بکروال، ڈوگری اور ہندو پنڈتوں میں تقسیم کرکے کشمیری اسپیکنگ مسلم علاقے کو ایک محدود اور مختصر نکتے میں بدلنا چاہتا ہے، اور یوں فلسطین کی طرح کشمیر اور کشمیریت کی تحلیل چاہتا ہے۔ اب پاکستان کے بینک اور دوسرے ادارے آئے روز آزادکشمیر کے کسی علاقے کو پوٹھوہار پنجاب کا، تو کسی کو خیبر پختون خوا کا حصہ دکھاتے ہیں، گویا کہ کشمیر کا نام ونشان ہی مٹا ڈالنے کی خواہش کہیں مچل رہی ہے۔ ان مشکل لمحوں اور گھڑیوں میں سیاسی قیادت کا فرض ہوتا ہے کہ قوم کی راہنمائی کرے، اس کو امید دلائے یا مزاحمت کا ڈھنگ بتائے۔ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت نے روح اور ذہن کو آزاد رکھنے کو اہمیت نہیں دی اور آج تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہونے کے بجائے حالات سے غیر متعلق، اور کسی خاموش معاہدے کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسے میں حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے لیے ایک جہازی سائز کمیٹی قائم کی ہے، مگر عوامی ایکشن کمیٹی ایسے عالم میں مذاکرات کے موڈ میں نہیں، یوں یہ کمیٹی خاطر خواہ نتائج دیتی نظر نہیں آتی۔