موت کا تصور اور ہمارا معاشرہ

زندگی کا توازن شعورِ موت کے درست تصور کے بغیر ناممکن ہے

وہ جو کل تھے آج نہیں ہیں‘ ہم جو آج ہیں کل نہیں ہوں گے‘ وہ جو کل آئیں گے وہ اس کے بعد آنے والے کل میں نہیں ہوں گے۔ یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔ موت ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم ہے اس کے تعاقب میں رہے گی۔ ہم سب بلاشبہ مرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔

ہم جو زندہ ہیں سمجھتے ہیں کہ ہم فی الوقت موت کی دسترس سے باہر ہیں، حالانکہ یہ محض ایک فریبِ نظر ہے۔ ہر وہ لمحہ جو گزر گیا، موت کی امانت بن گیا۔ جو زندگی ہم نے گزار دی وہ موت کی میراث میں شامل ہوگئی۔ اس اعتبار سے ہم ہر لمحہ مرتے ہیں۔

ہم گزرے ہوئے دنوں کو کیوں یاد کرتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ ہمیں ان سے محبت ہے؟ ہاں ہمیں ان سے محبت ہے، مگر کیوں؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ لمحے گزر گئے ہیں؟ نہیں، ہم انہیں اس لیے یاد کرتے ہیں تاکہ محسوس کرسکیں کہ ہم کبھی زندہ تھے۔ یادیں ہماری زندگی کے تسلسل کے احساس کو قائم رکھتی ہیں۔ ہم اپنے خوش گوار ماضی کو ہی نہیں ناخوش گوار ماضی کو بھی یاد کرتے ہیں، صرف زندگی کے تسلسل کے احساس کو قائم رکھنے کے لیے۔ اگر کوئی ہم سے ہمارا ماضی چھین لے یا اگر ہم اپنے ماضی کو بھول جائیں تو ہم پاگل ہوجائیں۔ یہ صورت اگر کسی قوم کے ساتھ پیش آئے تو اس کا حال بھی یہی ہوگا۔ آپ دیکھتے ہیں نا کہ استعماری قوتیں دنیا بھر میں محکوم قوموں کی جس چیز پر سب سے زوردار حملہ کرتی ہیں وہ ان کا ماضی ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے وہ اُن کی اجتماعی زندگی کے تسلسل کے احساس کو فنا کرنا چاہتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو تخلیقی صلاحیتیں دی ہیں ان کا ایک مقصد یہ بھی نظر آتا ہے کہ انسان ان کی مدد سے اپنے ماضی کو طرح طرح سے بار بار تخلیق کرسکے۔ اسے اپنے حال اور مستقبل سے مربوط کرکے اپنی زندگی کو ایک (مسلسل) تناظر فراہم کرسکے، اور یوں زندگی کو زیادہ سے زیادہ قابلِ برداشت بنا سکے۔ تخلیقی سطح پر ہمارا جو حال ہوتا ہے وہ صرف حال نہیں ہوتا بلکہ اس میں ہمارا ماضی اور مستقبل بھی شامل ہوتا ہے۔ شعر و ادب اور دیگر فنون کی اہمیت کا ایک جواز اور ان کی اہمیت اس تصور سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ کاش ہمارے معاشرے کے بے شمار ’’معلمِ اخلاق‘‘ ادب اور دیگر فنون پر اس زاویے سے ہی ازسرنو غور کرسکیں۔

میرے خیال میں ہماری یادوں کا سرچشمہ، فنا ہوجانے کا احساس ہے۔ اگر ہمیں معلوم ہوجائے کہ ہم کبھی فنا نہیں ہوں گے تو شاید گزرے ہوئے دنوں کو کبھی یاد نہ کریں۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ انسان کے تخلیقی جوہر کا محرک بھی فنا ہوجانے کے احساس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں محسوس کرنے والے محسوس کرسکتے ہیں کہ انسان کی پوری جدوجہد کے پسِ پشت موت کا تصور کارفرما ہے۔

اس تناظر میں اب میں کہہ سکتا ہوں کہ زندگی کا توازن شعورِ موت کے درست تصور کے بغیر ناممکن ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ آپ کے معاشرے میں زندگی کی جو صورتِ حال ہے اس کا سبب کہیں یہ تو نہیں کہ ہم لوگ موت کے درست تصور سے دور ہو گئے ہیں؟

خدا نے دنیا میں ہر چیز کی ضد پیدا کی ہے۔ روشنی کے ساتھ تاریکی ہے‘ خوشی کے ساتھ دکھ ہے‘خیر کے ساتھ شر ہے‘ زندگی کے ساتھ موت ہے۔ ان متضاد تصورات یا عناصر کے درمیان بڑا دل چسپ تعلق پایا جاتا ہے۔ یعنی ان میں سے ہر ایک کا احساس دوسرے کے تناظر میں نمایاں ہوتاہے۔ دکھ کے بغیر خوشی کے احساس کے کوئی معنی نہیں۔ روشنی کی اہمیت اندھیرے کے باعث ہی اجاگر ہوتی ہے۔ اسی طرح موت کے تصور کے بغیر زندگی کے کوئی معنی نہیں۔ سلیم احمد نے کہا ہے:

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے

میں نے مندرجہ بالا سطور میں موت کے درست تصورکی بات کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ موت کا درست تصور کیا ہے؟ موت کے اس درست تصور کو میر صاحب نے دو مصرعوں میں بند کر دیا ہے:

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

میر کا یہ تصورِ موت دراصل اسلامی یا روایتی تصورِ موت ہے۔ علامہ اقبال نے بھی موت کے بارے میںایک ایسا ہی شعر کہہ رکھا ہے:

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبح دوامِ زندگی

اقبال نے اس شعرمیں غافلوں کا تذکرہ کرکے دنیا میں پائے جانے والے اس دوسرے تصورِ موت کی نشان دہی کردی ہے جس کا ذکر میر کے شعر میں موجود نہیں۔ تاہم میر کے شعر میں ’’ماندگی کے وقفے‘‘ والا ٹکڑا زندگی کی تھکن کے عام مگر حقیقی تجربے کو نمایاں کرتا ہے۔ اقبال کے شعر میں یہ بات موجود نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میر موت تک کے عمل کو بیان کرتے ہوئے عام آدمی کے تجربے کو شعر میں سمونا نہیں بھولے۔ جب کہ اقبال کے شعر سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے ’’مومن‘‘ کے حوالے سے موت کے تصور کو بیان کیا ہے۔ مومن کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی تھکتا نہیں۔ اسی لیے وہ ہر لمحہ نئی آن نئی شان میں ظاہر ہوتا ہے۔ گویا تھکن آدمی کا مسئلہ ہے مومن کا نہیں۔ یاد آیا، تھکن روبوٹ کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔

جس زمانے میں انسان میں زندگی کا احساس بڑا شدید تھا اُس زمانے میں اسے موت کا بھی بڑا شدید احساس تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور اس کے بعد خلفا کے زمانے میں زندگی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ انسانی پیکروں میں موجود تھی۔ یہ انسانی پیکر اسی لیے موت کو ہر لمحے یاد کرتے تھے۔ اُس زمانے میں موت اور زندگی کے درمیان جتنا کم اور جتنا زیادہ فاصلہ تھا اتنا شاید کسی اور زمانے میں نہ رہا ہو۔ ان کے لیے موت کوئی ایسی حقیقت نہیں تھی جو کہ ’’کبھی‘‘ رونما ہوگی، بلکہ ایسی حقیقت تھی جو ان کی زندگی کے ہر لمحے میں ان کے ساتھ تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’موت کو کثرت سے یاد کرو۔‘‘

کس لیے؟ تاکہ زندگی اپنی ارفع شکل میں قائم رہ سکے۔ موت کا احساس انسان کے دل کو نرم بناتا ہے۔ اس میں محبت کا نور بھرتا ہے۔ اسے فرعون بننے سے روکتا ہے۔ قوت اور طاقت کی پرستش سے باز رکھتا ہے۔

یہ جو آپ اپنے ملک اور دنیا بھر میں چھوٹے چھوٹے فرعون دیکھتے ہیں۔ یہ سیاست دان‘ یہ اہلِ ثروت‘ یہ ادیب‘ یہ شاعر‘ یہ دانشور‘ یہ صحافی‘ یہ میں‘ یہ آپ‘ یہ وہ‘ یہ سب فرعون کیوں بنے ہوئے ہیں؟ کیا یہ ہمیشہ رہنے کے لیے آئے ہیں؟ جی ہاں ان سب کو یہی گمان لاحق ہے کہ انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ یہ خدائی کا ایک ایسا دعویٰ کرنے والے ہیں جس کا اعلان نہیں ہوتا۔

موت کو فراموش کرکے جو زندگی پیدا ہوتی ہے وہ زندگی نہیں‘ زندگی کی ایک بھونڈی پیروڈی ہوتی ہے‘بلکہ میں نے غلط کہا وہ زندگی کی بھونڈی پیروڈی نہیں ہوتی‘ وہ زندگی کی مذمت ہوتی ہے۔ ایک بے پناہ مذمت۔

اب سوال یہ ہے کہ موت کے تصور سے معاشرے کی دوری کو ہم کن مظاہر کی مدد سے پہچان سکتے ہیں؟

میرے خیال میں جب کوئی معاشرہ موت کے تصور کو فراموش کرنے لگتا ہے یا فراموش کردیتا ہے تو وہ صرف ’’حال‘‘میں محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ ماضی اور مستقبل سے اس کا تعلق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ ایسے معاشرے کے افراد کے لیے روزمرہ کی زندگی (Day to day life) اہم ہوکر رہ جاتی ہے۔ مختصر طور پر یہ کہ معاشرے کی پوری زندگی قابلِ ترک (Disposable) بن کر رہ جاتی ہے۔ انسان اور ٹشو پیپر کی حیثیت یکساں ہوجاتی ہے۔ مغربی دنیا جس زندگی کا تجربہ کررہی ہے وہ اسی طرح کی زندگی ہے اور اب ہم خود بھی تیزی کے ساتھ ایسی زندگی کے اسیر ہوتے جارہے ہیں۔

چونکہ موت کو فراموش کرنے کے نتیجے میں زندگی کا احساس بھی معدوم ہوجاتا ہے اس لیے معاشرہ زندگی کے خلا کو زندگی کی مرئی شکلیں پیدا کرکے پُر کرتا ہے۔ زندگی کی یہ تمام مرئی (خارجی) صورتیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہیں کہ دیکھو معاشرہ زندہ ہے۔ معاشرے میں زندگی جتنی کم ہوجاتی ہے اتنا ہی شور بڑھ جاتا ہے۔ ایک مرحلہ یہ آتا ہے کہ شور زندگی کی علامت بن جاتا ہے۔ یہ شور عارضی نوعیت کا نہیں بلکہ مستقل نوعیت کا ہوتا ہے۔

جن معاشروں میں موت کا تصور انسانوں کے ذہن سے محو ہوجاتاہے وہاں دکھ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ ہر دکھ ایک بڑا دکھ بن جاتا ہے۔ یوں لگنے لگتا ہے کہ مسرت کا زندگی میں نام و نشان تک نہیں۔ چنانچہ ایسے معاشروں میں خوشی باقاعدہ تخلیق کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارا زمانہ خوشی کی منصوبہ بندی کا زمانہ ہے۔ ہماری تمام تر جدوجہد کا مقصد خوشی کی تخلیق کی منصوبہ بندی کے سوا کیا ہے؟ مگر خوشی ہے کہ پھر بھی ہمیں مل کر نہیں دیتی۔

بے شک انسان کی زندگی کا ایک مقصد مسرت کا حصول بھی ہے۔ تاہم مسرت کے حصول کا یہ عمل غیر محسوس طریقے سے ہوتا ہے۔ بقول فراق:

بغیر علم کے جیسے ہوائیں چلتی ہیں
کچھ ایسے اہلِ محبت کو یاد آئے جا

اب آپ ذرا اپنے اطراف بھی نظر ڈال کر دیکھیے اور بتایئے کہ آپ کو یہ مظاہر صاف نظر آ رہے ہیں یا نہیں؟

کالم کے آغاز میں ہم نے عرض کیا ہے کہ خدا نے دنیا میں ہر چیز کی ضد پیدا کی ہے۔ ہم نے یہ بھی عرض کیا ہے کہ ان کے درمیان بڑا دل چسپ تعلق پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ان میں سے ہر ایک کا احساس اپنی ضد کے تناظر میں نمایاں ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں ہم نے زندگی اور موت کے تعلق پر سرسری بحث کی ہے۔

اگر آپ چاہیں تو اس کا اطلاق تاریخ کی بڑی بڑی تبدیلیوں پر کرسکتے ہیں۔ اس اطلاق کے ذریعے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو یاد رکھنے اور دوسرے کو بھول جانے کا نتیجہ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ انسانی تہذیبیں اُس وقت تک صحت مند رہتی ہیں جب تک وہ ان تمام تصورات کو ان کی ضدوں کے تناظر میں رکھ کر دیکھتی رہتی ہیں۔ جب کسی تہذیب میں ایک عنصر کا غلبہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ دوسرا عنصر فراموش کردیا جائے تو تہذیبوں کے سفر میں رخنہ پڑ جاتا ہے جو ان کی سمت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں جس سے آپ کا متفق ہونا ہرگز ہرگز ضروری نہیں البتہ اس پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔

اسلامی تاریخ میں خلافت کا زوال ایک بہت بڑا سوال ہے۔ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں اس سوال کے مختلف جواب دیے گئے ہیں اور دیے جاتے رہیں گے۔ کچھ لوگوں نے اس کے پس منظر میں اصولوں سے روگردانی تلاش کی ہے‘ کچھ نے سیاسی محرکات‘ کچھ نے داخلی کشاکش۔ تاہم میرے نزدیک اسلامی خلافت کے زوال کا بنیادی سبب یہ تھا کہ خیر کا تصور اس معاشرے پر اتنا غالب آچکا تھا کہ شر کے وجود کا احساس بڑا مدھم رہ گیا تھا۔ یہ ایک فطری بات تھی۔ ظاہر ہے کہ جس زمانے نے نبی آخرالزماںؐ اور باعثِ تخلیقِ کائنات کو اپنے درمیان طویل عرصے تک پایا ہو اُس میں اس طرح کے احساس کا پیدا ہوجانا ایک فطری بات سمجھا جائے گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دنیا میں اگر برسوں تک مسلسل دن رہے تو رات کا خیال ایک واہمہ بن کر رہ جائے گا۔ اس معاشرے میں بھی یہی ہوا۔ خیر اتنے عرصے تک غالب رہا کہ شر کا تصور ایک خیال بن کر رہ گیا۔ مگر ظاہر ہے کہ شر فنا تو نہیں ہوا تھا، وہ تو حکمِ خداوندی سے قیامت تک کے لیے ہے۔ چنانچہ وہ ابھرا اور ابھرتا ہی چلا گیا تھا۔ یہ بالکل اچانک عمل تھا جیسے آپ تنہا خوش گوار خیالوں میں کھوئے بیٹھے ہوں اور کوئی اچانک آکر آپ کو ڈرا دے، اور چند لمحوں تک آپ کی کچھ سمجھ میں نہ آئے۔ انفرادی انسانی زندگی کے یہ چند لمحے تاریخی عمل میں صدیاں بن جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اس زوال کے سیاسی اسباب‘ اسباب نہیں بلکہ شر کے وجود کو نظراندازکرنے کے نتائج ہیں۔

خیر جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ آپ کا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہمارے اکابر علمائے کرام نے اس واقعے کے جو اسباب بیان کیے ہیں وہ بہرحال عالمانہ ہیں، جب کہ اس خاکسار کا جواب صرف کالمانہ ہے۔ عالمانہ اور کالمانہ جواب کا فرق صاف ظاہر ہے۔

بہرحال اصل گفتگو تھی موت کے تصور پر، یہ بات اصل گفتگو کی ایک ذیلی بحث کے طور پر یہاں آگئی۔ مجھے اندازہ ہے کہ میں نے موضوع کی صرف چند جہات کی نشاندہی کی ہے اور اس کے کئی پہلو زیر بحث نہیں آئے ہیں۔ اِن شاء اللہ کبھی ان پر بھی گفتگو ہوگی۔ البتہ کالم کے اختتام سے قبل یہ کہنا ضروری ہے کہ اس موضوع سے متعلق ایک بہت اہم سوال رہ گیا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا فی الحال میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ آدمی موت کے تصور سے دور کیوں ہوجاتا ہے؟ ممکن ہے آپ کہیں کہ اس کا سبب خدا سے دوری ہے۔ بالکل ٹھیک! مگر اس سوال سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان خدا سے دور کیوں ہوجاتا ہے؟ آپ کا جواب ہے لہو و لعب۔ سوال یہ ہے کہ انسان لہو و لعب میں کیوں پڑ جاتا ہے؟