اسرائیل کے لیے 7 اکتوبر 2023ء کا دن ایک خوفناک حقیقت بن کر سامنے آیا کہ جب صرف ایک دن میں 700 سے زائد اسرائیلی حماس کے حملوں میں ہلاک ہوگئے۔ اب مغربی میڈیا اس تعداد کو ایک ہزار سے بھی زائد بتا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اتنا غیر متوقع تھا کہ اسرائیلی فوجوں کو سنبھلتے سنبھلتے بھی ایسا نقصان اٹھانا پڑا جس کی مثال تاریخ میں ملنا ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ہی تاریخ میں پہلی بار فلسطینیوں نے اسرائیل کی جانب سے قبضہ کی گئی اپنی زمین کو ایک حد تک واگزار بھی کروا لیا ہے۔ اس وقت مغربی میڈیا شدید صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے اور ایسے استعاروں کا استعمال کیا جارہا ہے جیسے حماس کوئی دہشت گرد تنظیم ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حماس ایک سیاسی جماعت ہے جس نے غزہ میں اکثریتی ووٹ حاصل کرکے فلسطین میں حکومت سازی کی، اور ایک معاہدے کے نتیجے میں غزہ کی اکثریتی جماعت حماس اور مغربی کنارے کی اکثریتی جماعت الفتح کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت الفتح کے محمود عباس صدر اور حماس کے اسماعیل ہنیہ فلسطینی ریاست کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ لیکن اختلافات کی وجہ سے یہ معاہدہ چل نہ سکا اور فلسطین میں دو الگ الگ حکومتیں وجود میں آگئیں جن میں تاحال ایک ربط موجود ہے۔
غزہ کا علاقہ 42 کلومیٹر پر مشتمل ایک خطہ ہے جس کا چاروں طرف سے اسرائیل نے گھیراؤ کیا ہوا ہے، اور گزشتہ دو دہائیوں سے غزہ بین الاقوامی فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ اس خطے میں بسنے والوں کو کوئی انسانی حقوق یا بنیادی انسانی سہولیات بھی حاصل نہیں ہیں۔ 70 فیصد سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہے کیونکہ اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے وہ اپنے خطے سے باہر جاکر ملازمتیں تلاش نہیں کرسکتے۔ اس کے علاؤہ غذا اور پانی کے راستے بھی اسرائیل نے 7 اکتوبر سے قبل محدود کیے ہوئے تھے جن کو 7 اکتوبر کے بعد مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ بجلی کی فراہمی بھی مکمل طور پر اسرائیل کے رحم و کرم پر ہے کہ جہاں 24 گھنٹوں میں محض 3 گھنٹے بجلی دی جاتی ہے۔ اس پوری صورتِ حال میں 24 لاکھ مسلمان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کی واحد سپلائی لائن زیر زمین سرنگیں ہیں جو کہ غزہ کو بیرونی دنیا سے ملاتی ہیں۔ اسرائیلی افواج ان کو تباہ کرنے کی کئی کوششیں کرچکی ہیں لیکن اس میں ان کو اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
ادھر مغربی میڈیا میں ایک صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور اس کو مزید پُراثر بنانے کے لیے مختلف قسم کے فریم استعمال کرکے فلسطین اسرائیل تنازعے کو برطانیہ سے جوڑنے، یا اس کو برطانیہ کا اصل مسئلہ بنانے کی کوشش مغربی میڈیا کی جانب سے کی گئی ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اخبارات نے ایک سیاسی جماعت کو جو کہ اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئی، قسائی لکھا ہے۔ ایسا بیانیہ نہ صرف صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے بلکہ اس سے اُس شدید نفرت کا بھی اظہار ہوتا ہے جو کہ اس مسئلے کے حوالے سے پورے میڈیا میں موجود ہے۔ ”سنڈے ٹیلی گراف“ نے اتوار 8 اکتوبر 2023ء کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر نمایاں طور پر تصویر شائع کی ہے جس میں ایک مرد ایک بچے کو اٹھائے ہوئے ایک خاتون کے ہمراہ پریشانی کے عالم میں کسی پناہ کی تلاش میں ہے، جبکہ تصویر میں اسرائیلی سیکورٹی اہلکار بھی نظر آرہا ہے۔ اس پر سجی ہیڈلائن حماس کو قسائی قرار دے رہی ہے۔ اسی طرح ایک اور برطانوی اخبار ”دی آبزرور“ نے اسرائیلی ٹینکوں پر جھنڈا لہراتے فلسطینیوں کی تصویر صفحہ اوّل پر شائع کی ہے جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ فلسطینیوں نے اسرائیل پر مکمل طور پر قبضہ کرلیا ہے۔ 10 اکتوبر 2023ء کے ”دی انڈیپنڈنٹ“ نے صفحہ اوّل پر مرکزی خبر شائع کی ہے جس میں 10 برطانوی باشندوں کے ہلاک یا لاپتا ہونے کی ہیڈلائن ہے اور ساتھ ہی 11 امریکی باشندوں کے اس حملے میں مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اس پوری خبر میں برطانوی باشندوں کی تصاویر کو نمایاں طور پر شائع کیا گیا ہے اور 10 برطانوی باشندوں کے ہلاک یا اغوا ہونے کو انتقام قرار دیا گیا ہے۔ اب جبکہ حماس نے اسرائیلیوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو اس کو ہلاکت سے جوڑنا جبکہ اُن کی نعشیں برآمد نہ ہوئی ہوں، اس جنگ میں برطانیہ کو ملوث کرنے کی ایک مذموم کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ برطانوی باشندے اگر کسی حملے میں دنیا بھر میں ہلاک ہوئے تو کیا ان کو برطانوی میڈیا میں ایسی ہی کوریج دی گئی ہے؟ یہ سوال اس حوالے سے بھی اہم ترین ہے کہ خود برطانوی فوجی یوکرین میں روس کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تو اس خبر کو نہ صرف برطانوی میڈیا نے دبایا، بلکہ اس کو برطانوی وزارتِ دفاع کے حوالے سے معذرت خواہانہ انداز میں پیش کیا گیا کہ یہ فوجی اپنے طور پر وہاں گئے تھے اور ان کے لاپتا ہونے پر تحقیقات جاری تھیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں کئی برطانوی باشندے حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں لیکن میری نظر سے نہیں گزرا کہ کہیں اس کو برطانیہ سے انتقام کے طور پر میڈیا میں پیش کیا گیا ہو۔ ”دی مرر“ 10 اکتوبر 2023ء کی اشاعت میں صفحہ اوّل پر اسرائیلی بچوں اور خواتین کی تصاویر شائع کرکے فلسطینیوں کو جنونی اور قاتل کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس پر یہ ہیڈ لائن سجائی گئی ہے: ”معصوموں کے لیے دعا… حماس نے حملوں کی صورت میں اغوا شدہ افراد کو قتل کرنے کا عندیہ دے دیا“۔ وہ اس کو ایسی حقیقت کے طور پر پیش کررہے ہیں جیسے کہ کبھی بھی فلسطین میں بچوں کو قتل نہیں کیا گیا۔ مغربی میڈیا کو فلسطین میں قتل ہونے والے ہزاروں بچے آج تک نظر نہ آسکے۔
پورا برطانوی میڈیا حملوں کے دو دن بعد بھی سوگ میں مبتلا نظر آتا ہے اور بروز اتوار و پیر یعنی حملوں کے دو دن بعد تک صف ِ اوّل کے تمام اخبارات سوگ میں ڈوبے نظر آئے اور خبروں میں کہیں بھی تادمِ تحریر 7 اکتوبر کے بعد قتل کیے جانے والے 1500 سے زائد معصوم فلسطینی شہریوں کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا بی بی سی اور ”الجزیرہ“ کی لائیو کوریج کے دوران اسرائیلی طیاروں کی جانب سے سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی وڈیوز آنے کے باوجود یہ مناظر مغربی میڈیا کی توجہ حاصل نہ کرپائے۔
فلسطین کے مسئلے پر حماس نے پورے مغرب کو اتنی بڑی کارروائی کرکے ششدر کردیا ہے۔ مغربی میڈیا میں اس کے حوالے سے مہینوں تک تبصرے کیے جائیں گے، لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ مغرب کے دباؤ پر پورا عالمِ اسلام جب اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے قریب تھا اُس وقت حماس نے اس بازی کو مکمل پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت پورے عالمِ اسلام اور مغرب میں رہنے بسنے والے مسلمانوں میں بھی شدید اضطراب ہے۔ یہ لہر موجودہ حالات میں اسرائیل اور مغربی طاقتوں کی پُرفریب سفارت کاری کا پردہ چاک کررہی ہے۔ مغرب اور اُس کا میڈیا پوری قوت سے حماس کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، اس سے خود مغرب میں موجود اسرائیل مخالف طاقتوں کا جھکاؤ حماس کی جانب ہوگا۔ ایک جانب روس یوکرین جنگ اور دوسری جانب اسرائیل کی جنگ کو مغرب اگر اپنی جنگ بنائے گا تو اسے اس کا شدید نقصان ہوگا۔ یہ احساس کہیں نہ کہیں موجود ہے اور مغربی میڈیا کی پُراثر مہم جوئی کے باوجود بھی برطانوی حکومت اس ضمن میں بیک وقت دو محاذ کھولنے سے گریز کرے گی، کیونکہ یوکرین کے معاملے میں اس کو شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے جس کے اثرات آج تک برطانوی معیشت پر موجود ہیں۔ اب اگر وہ ایسی کسی اور مہم جوئی کا حصہ بنیں گے تو آئندہ سال ہونے والے الیکشن میں حکمران جماعت کو اس کا ردعمل مسلمان ووٹرز ضرور دیں گے۔ مغرب اب اپنے آپ کو اس مسئلے سے ایک حد تک دور کیسے رکھے گا، یہ ایک اہم سوال ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ برطانیہ میں رہنے بسنے والے مسلمانوں کے نزدیک اسرائیل ایک جارح ریاست ہے اور حماس کو اپنے وطن کے دفاع اور اپنی زمین واپس لینے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اگر مغربی میڈیا نے یک طرفہ مہم جوئی نہ روکی تو اس کا لامحالہ اثر خود برطانوی معاشرے پر نظر آئے گا جس کے اثرات تباہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔