مسئلہ فلسطین… نازک موڑ پر

حق و باطل کا معرکہ ازل سے جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا۔ اس کا تازہ میدان ارضِ فلسطین ہے۔ نئی کارروائی کا آغاز اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی طرف سے کیا گیا ہے جس نے غاصب اسرائیل کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں، یقین نہیں آتا کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘‘۔ مگر یہ کارروائی ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ ہے جس کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جس نے سالہاسال سے نہتے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو یک طرفہ طور پر غزہ میں محصور کررکھا ہے اور جب چاہتا ہے ان پر بموں کی بلاجواز بارش شروع کردیتا ہے۔ حماس کی کارروائی یقیناً انہی بے پناہ مظالم کا ردعمل ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران اسرائیل کی یک طرفہ دہشت گردی کے باعث دو سو سے زائد فلسطینی بچے، بوڑھے اور خواتین شہادت کی منزل پا گئے، دیگر فلسطینیوں کے مصائب اور مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ حماس کی کارروائی کے جوابی ردعمل کے نام پر اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی کارروائیوں کا سلسلہ انتہا کو پہنچا دیا ہے۔ اس کے طیارے اسپتالوں، عبادت گاہوں، ایمبولینسوں وغیرہ کو جنگ کے دوران نشانہ نہ بنانے کے تمام مسلمہ عالمی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے بدمست ہاتھی کی طرح نہتے فلسطینیوں پر دن رات اندھا دھند آگ برسا رہے ہیں، پہلے سے جاری غزہ کا محاصرہ مزید سخت کردیا گیا ہے، علاقے کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کرکے بجلی، گیس، پانی اور اشیائے خور و نوش جیسی بنیادی انسانی ضروریات اور انٹرنیٹ سروس وغیرہ کی فراہمی بند کردی گئی ہے۔ اس صریح ظلم اور غیر انسانی طرزعمل کے باوجود امنِ عالم کا ٹھیکے دار اقوام متحدہ کا ادارہ اور انسانی حقوق کی علَم بردار تنظیمیں ’’ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم‘‘ کی صورت، چپ سادھے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہیں، جب کہ نام نہاد مہذب دنیا اور اس کا سرغنہ امریکہ اپنے اسلام دشمن ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر اسرائیل کے بے دام غلام بنے کھلم کھلا اس کی جارحیت کی سرپرستی کررہے ہیں، امریکی صدر جوبائیڈن نے تمام شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کا اعلان کردیا ہے، یہی رویہ دیگر مغربی ممالک کا بھی ہے۔ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی بند کروانے اور انسانی حقوق کی پامالی رکوانے کے بجائے امریکہ نے اپنا پانچواں بحری بیڑہ اسرائیل کی مدد اور حوصلہ افزائی کے لیے خطے میں بھجوا دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے بجائے امریکہ حماس کی مذمت کے لیے کوشاں رہا، جس میں ناکامی کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ مایوس اور پریشان کن صورتِ حال کے باوجود حماس کی مزاحمت نہ صرف جاری ہے بلکہ حوصلے بلند ہیں، اور اس کی جانب سے جرأت مندانہ مزاحمت اور جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ حماس کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ وہ طویل جنگ کے لیے تیار ہیں۔

تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ امتِ مسلمہ کی حالت دگرگوں ہے، مسلم دنیا تقسیم در تقسیم سے دوچار ہے، کئی مسلمان ممالک سراسر ناجائز اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرچکے ہیں جب کہ بہت سے دیگر، فلسطینی مسلمانوں کے مصائب و مسائل کی پروا کیے بغیر ظالم و غاصب صہیونی ریاست سے روابط بڑھانے میں مصروف ہیں۔ موجودہ حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ پوری مسلم دنیا یک جان و یک زبان ہوکر اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی پشت پر کھڑی دکھائی دیتی اور دامے، درمے اور سخنے ان مجبوروں کی دادرسی کو پہنچتی، مگر افسوس کہ اس نازک مرحلے پر بھی امت اپنے اندرونی اختلافات کو فراموش نہیں کرسکی اور اس کی اکثریت ’’وہن‘‘ کا شکار ہے اور خوف و بزدلی اس کا شعار ہے۔ اسلامی دنیا کے محض ایک آدھ ملک کے سوا کسی نے عملی امداد و حمایت تو دور کی بات ہے، دوٹوک الفاظ میں فلسطینی مسلمانوں اور اسلامی تحریکِ مزاحمت حماس کی حمایت کرنے کی جرأت نہیں کی۔ پاکستانی حکومت نے بھی فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا واضح اعلان کیا ہے نہ اُن کی تائید و حمایت میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فضا ہموار کرنے کی خاطر کوئی عملی اقدام یا سرگرمی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے تادم تحریر دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا معاملہ بھی حکمرانوں سے مختلف نہیں، صرف جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ’’ہفتۂ یک جہتیِ فلسطین‘‘ 9 تا 15 اکتوبر منانے کا اعلان کیا ہے اور اس کے کارکنوں کے شہر شہر مظاہرے اورریلیاں بھی جاری ہیں۔ جماعت نے ’الخدمت فائونڈیشن‘ کے زیر اہتمام فلسطینی بھائیوں کی امداد کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے، جب کہ باقی سیاسی جماعتوں کو باہم سرپھٹول اور اپنے ’’قائد‘‘ کے استقبال کی تیاریوں سے فرصت نہیں ؎

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کا تعلق ہے اس ضمن میں آج بھی اس سے بہتر کوئی حل تجویز نہیں کیا جا سکتا جو مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پچاس پچپن برس قبل مسجد اقصیٰ میں صہیونیوں کی جانب سے آتشزنی کے سانحے کے بعد پیش کیا تھا۔ انہوں نے مسئلہ فلسطین کے مختلف پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد تحریر فرمایا تھا کہ:

’’اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلط سے آزاد کرانے کا ہے اور اس کا سیدھا اور صاف حل یہ ہے کہ اعلانِ بالفور سے پہلے جو یہودی فلسطین میں آباد تھے، صرف وہی وہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ باقی جتنے یہودی 1917ء کے بعد سے اب تک وہاں باہر سے آئے اور لائے گئے ہیں، انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان لوگوں نے سازش اور ظلم و جبر کے ذریعے سے ایک دوسری قوم کے وطن کو اپنا قومی وطن بنایا، پھر اسے قومی ریاست میں تبدیل کیا، اور اس کے بعد توسیع کے جارحانہ منصوبے بنا کر آس پاس کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا نہ صرف عملاً ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا بلکہ اپنی پارلیمنٹ کی پیشانی پر علانیہ یہ لکھ دیا کہ کس کس ملک کو وہ اپنی جارحیت کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی ایک کھلی کھلی جارح ریاست کا وجود بجائے خود ایک جرم اور بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے کہ اس کے ان جارحانہ ارادوں کا ہدف مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ اب اس ریاست کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اس کو ختم ہونا چاہیے، فلسطین کے اصل باشندوں کی ایک جمہوری ریاست بننی چاہیے جس میں ملک کے پرانے یہودی باشندوں کو بھی عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی طرح شہری حقوق حاصل ہوں، اور باہر سے آئے ہوئے ان غاصبوں کو نکل جانا چاہیے جو زبردستی اس ملک کو قومی وطن اور پھر قومی ریاست بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے سوا فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ رہا امریکہ جو اپنا ضمیر یہودیوں کے ہاتھ رہن رکھ کر اور تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ان غاصبوں کی حمایت کررہا ہے، تو اب وقت آگیا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان اس کو صاف صاف خبردار کردیں کہ اس کی یہ روش اگر اسی طرح جاری رہی تو روئے زمین پر وہ ایک مسلمان بھی ایسا نہ پائے گا جس کے دل میں اس کے لیے کوئی ادنیٰ درجے کا بھی جذبۂ خیرسگالی باقی رہ جائے… اب وہ خود فیصلہ کرلے کہ اسے یہودیوں کی حمایت میں کہاں تک جانا ہے۔‘‘(حامد ریاض ڈوگر)